ماضی کی تاریخ میں اللہ کے نبی حضرت یعقوب ؑ کے بچوں نے اپنے بھائی یوسف ؑ سے حسد کیاجس کی تفصیلات قرآن کے اندر موجود ہیں۔ اسی قرآن میں یہ ذکر بھی ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے والد کو جب اپنا خواب سنایا تو انھوں نے یوسفؑ کو تنبیہہ کی کہ اپنے بھائیوں کے مکر سے بچ کر رہنا۔
غیرت و حسد کی صفت ہر انسان کے اندر پائی جاتی ہے، بلکہ یہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ لیکن اگر اعتدال کے اندر ہو تو یہ صفت قابل تعریف ہے لیکن اگر اعتدال نہ ہو ، یا اعتدال سے کم ہو یا اس میں اعتدال پایا ہی نہ جاتا ہو تو یہی صفت قابل نفرت بن جاتی ہے۔
بچوں کے اندر جو غیر ت پائی جاتی ہے اس کی تعریف ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات نے اس انداز میں کی ہے کہ ’’یہ ایک ایسی جذباتی حالت کا نام ہے جس میں بچہ یا تو یہ چاہتا ہے کہ وہ سب پر غالب رہے ، یا وہ کسی بات پر ناراضگی اورغضب کے احساس سے دوچار رہتا ہے۔ اس حالت میں جسمانی طور پر پیش آنے والی اندرونی وبیرونی تبدیلیاں بھی اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اس حالت میں بچہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس سے وہ تمام اختیارات اور امتیازات چھین لیے گئے ہیں جو ابھی تک اسے حاصل تھے۔ یہ کیفیت خاص طور سے اس وقت ہوتی ہے جب گھر میں کسی نئے بچے کی پیدائش ہو یا والدین دوسرے بچوں کے مقابلے میں کسی بچے کی طرف توجہ کم دینے لگیں۔‘‘
غیرت کے اسباب
بچے کے اندر اس طرح کی غیرت یا حسد کے اسباب مختلف ہوتے ہیں ،کچھ کا تعلق براہ راست اس کی ذات سے ہوتا ہے، کچھ ایسی وجوہ بھی ہوتی ہیں جن کی بنیاد والدین کا طرز عمل ہوتا ہے اور بعض ایسے اسباب بھی بچوں کے اندر غیرت کو ابھارنے کا سبب بنتے ہیں جن کا تعلق گھر یاخاندان کے عام حالات اور فضا سے ہوتا ہے۔ان میں بعض اہم اسباب یہ ہیں:
۱۔ بچے کے اندر یہ احساس کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دوسروں کے پاس ہے۔ مثلا وہ دوسروں سے شکل وصورت میں بہتر نہیں ہے، یا اس کے پاس کپڑے ، یا کھلونے وغیرہ نہیں ہیں۔
۲۔ بچہ کبھی ناکامی سے دوچار ہوجائے، مثلاً کلاس میں اس کے نمبر اچھے نہ آئیں یا اسے جو کام یا اسائنمنٹ دیا گیا تھا وہ اسے پورا نہ کر پائے۔
۳۔ بعض بچے انانیت پسند ہوتے ہیں ۔ ایسے بچے ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ انھیں والدین اور گھر کے بزرگوں کی زیادہ توجہ اور پیار ملے۔اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ دوسرے بچوں سے حسد کرنے لگتے ہیں۔
۴۔ گھر میں نئے بچے کی آمد۔ خاص طور سے جب کہ نئے بچے کی آمد سے پہلے تک اسے والدین کی بھر پور توجہ اور خوب پیار ملتا رہا ہو۔
۵۔ ماں باپ کسی ایک بچے کا مذاق اڑانے لگیں۔
۶۔ بچے پر والدین ضرورت سے زیادہ سختی کرنے لگیں۔
۷۔ بچوں کے درمیان موازنہ کرکے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دینے لگیں۔ کیوں کہ بعض والدین لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کوترجیح دیتے ہیں ، انھیں زیادہ پیار دیتے ہیں، یا بڑوں کو چھوٹوں پر یا چھوٹوں کو بڑوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ وغیرہ۔
۸۔ بچے کے سامنے اس کے بہن بھائیوں کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں اور اس طرح اس کی خوبیاں گنا کر ان کو بچے سے نمایاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
غیرت کا علم کیسے ہو؟
غیرت وحسد کی بہت سی علامتیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ بچہ اس کیفیت سے دوچار ہے۔مثلاً بچہ بہت زیادہ مطالبات کرنے لگے کیوں کہ اس طرح سے وہ والدین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے۔ایسی حرکت بچہ خاص طور سے اس وقت کرتا ہے جب کہ والدین دوسرے چھوٹے بچے کی طرف متوجہ ہوں، اسے گود میں لیے ہوئے ہوں یا اسے کھلا رہے ہوں۔کبھی بچہ اپنے چھوٹے بھائی سے دشمنی کا بھی اظہار کرنے لگتا ہے ، موقع دیکھ کر اسے مار کریا نوچ کر نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ علم نفسیات کے مطابق بچہ در اصل اپنی عمر کے بالکل ابتدائی مراحل میں چلا جاتا ہے، اسی لیے وہ بالکل چھوٹے بچے کی طرح کا رویہ اختیار کرنے لگتا ہے۔ مقصد اس کا یہی ہوتا ہے کہ والدین کی توجہ اپنی طرف کھینچ لے۔کبھی بچہ اپنا انگوٹھا منہ میں دے کر اسے چوسنے لگتا ہے، یا چھوٹے بچے کی طرح زمین پر گھٹنوں کے بل چلنے لگتا ہے یا کپڑوں میں ہی پیشاب پاخانہ کرنے لگتا ہے۔بچے کے اندر غیرت اور حسد کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بھائی یا بہن کی برائیاں بیان کرنے لگے یا یہ شکایت کرنے لگے کہ اسے چھوڑ کر اس کے بھائی بہن پر توجہ دی جارہی ہے۔کبھی کبھی بیمار ہونے کا بہانہ بھی کرنے لگتا ہے تاکہ والدین کی توجہ اس کی طرف ہو جائے۔
علاج
اہم سوال یہ ہے کہ بچے کی اس غیرت اور حسد کا علاج کس طرح ممکن ہو؟
۱۔ بچے کی ان ضروریات کو پورا کیا جائے جن سے محرومی کا اسے احساس رہتا ہے۔اگر اس کے اندر کوئی جسمانی عیب ہے تو اسے یہ سمجھایا جائے کہ وہ اکیلا ایسا نہیں ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس عیب کی وجہ ؎سے زندگی میں کوئی بڑا مقام حاصل کرلے ۔ اس ضمن میں بچے کو ان کامیاب لوگوں کے قصے سنائے جائیں جو جسمانی عیوب کے باوجود بڑے کارنامے انجام دے گئے ہیں۔
۲۔ بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کی جائے۔ اسے کامیابی کی اہمیت سمجھائیں۔ اسے بتائیں کہ ناکامی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب زندگی ختم ہوگئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوبارہ کوشش کی جائے۔اگر وہ ایک مقصد کو حاصل نہیں کر پایا تو کوئی بات نہیں ان شاء اللہ دوسری بار کامیاب ہو جائے گا۔ بس اسے بار بار کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
۳۔ بچے کو یہ محسوس کرایا جائے کہ گھرکے سبھی لوگ اسے چاہتے ہیں اور اگر اس کا بھائی یا بہن اس سے آگے نکل جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر کے لوگوں کی محبت اس سے کم ہوجائے گی۔
۴۔بچے کے سامنے اس کے بھائی بہنوں کا موازنہ نہ کیا جائے ۔نہ ہی ان کی تعریف کرکے ان کے مقابلے میں بچے کی کمزوری کو نمایاں کیا جائے کیوں کہ اس طرح اس کے اندر غیرت جنم لے گی اور اسے تقویت ملے گی۔
۵۔ اس کے اندر دوسروں اور خاص طور سے اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے محبت کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ بچپن سے ہی اس کی تربیت اس طرح کی جائے کہ اس کے اندر انانیت اور خود پسندی نہ آنے پائے۔
۶۔ اسے ایسے اجتماعی کاموں کے کرنے پر ابھارا جائے جنھیں وہ خاص طور سے اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر کرنا پسند کرے۔
۷۔ گھر میں نئے بچے کی آمد پراس بات کا خیال رکھیں کہ جب آپ اس کی دیکھ بھال کر رہے ہوں تو بڑا بچہ وہاں نہ ہو ورنہ اس کے اندریہ احساس پیدا ہوسکتا ہے کہ اب آپ کی محبت اس چھوٹے بچے کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ اگر آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ کا بچہ اپنے چھوٹے بھائی سے حسد کرنے لگا ہے تو اسے اس بات پر ڈانٹیں جھڑکیں نہیں کیوں کہ اس طرح اس کے غیرت اور زیادہ برھ جائے گی۔ بلکہ اسے ایسے کام دیں جس سے وہ اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے نئے بھائی کی مدد کرسکے۔ جو کام بھی وہ کرے اس پر اس کی تعریف ضرور کیجیے ، اس کا شکریہ ادا کیجیے اور آہستہ آہستہ اسے اپنی ذمہ داری کا احساس دلائیے۔اس طرح اسے اپنی اہمیت کا احساس ہوگا ۔
بڑے بچے کو آپ کہیے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو وہی لوری سنائے جو آپ اسے اس وقت سناتے تھے جب وہ چھوٹا سا تھا۔اس سے اس کے اندر اپنے نئے بھائی کے لیے محبت جاگے گی۔
۸۔ بچے کی ذہنی سطح کے مطابق اس کے اندر محبت، بڑوں کی بات ماننے اور دوسرے چھوٹے بھائیوں کے ساتھ اچھائی اور نرمی سے پیش آنے پر ابھاریں۔اس سے اسے دوسروں کو سمجھنے اور خود اپنے آپ کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور اس کے اندر اپنے بھائی کے لیے بغیر کسی زبردستی کے فطری طور پر محبت پیدا ہوگی۔
۹۔ کبھی بچہ غمگین یا ناراض ہو تو اس موقع کا فائدہ اٹھا کر بچے کو یہ احساس دلائیے کہ غم اور ناراضگی اچھی بات نہیں ۔ بچے کو یہ بھی بتائیں کہ تمھارے بھائی بہن کو بھی اسی طرح غصہ آجاتا ہے جس طرح تمھیں آرہا ہے اس طرح سے بچے کے اندر اپنے بھائی کے تعلق سے نرمی آئے گی۔
۱۰۔ مناسب موقعے کا فائدہ اٹھایا جائے تو ہر بچے کے اندر پنپنے والے حسد اور غیرت کے جذبات کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کہ اس سے اپنے بھائی کے کپڑے وغیرہ کو تہہ کرنے اور انھیں سنبھالنے کے لیے کہا جائے۔ اس سے کہا جائے کہ اپنے بھائی کے کھلونوں کو سنبھال کر رکھ دے اور جب وہ اپنے چھوٹے بھائی کا کوئی کام کردے تو اس پر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۱۱۔ چھوٹے بھائی کے ذریعے اسے کوئی تحفہ دلوایا جائے تو یہ بھی بہتر طریقہ ہوسکتا ہے۔
۱۲۔ جو بچہ زیادہ غیرت مند ہو اس کے ساتھ کھیلنے اور اس کی دل جوئی کے لیے والدین کو خاص طور سے وقت نکالنا چاہیے وغیرہ۔
اکثر مائیں یہ غلطی کرتی ہیں کہ بچے کو پہلے ہی سے اس بات کے لیے تیار نہیں کرتیں کہ گھر میں اس کا چھوٹا بھائی یا بہن آنے والی ہے۔جب کہ یہ کام ماں کو استقرار حمل کے دوران سے ہی شروع کردینا چاہیے۔ بلکہ ہو سکے تو ماں اپنے بچے کو اس کے نئے بھائی یا بہن کے استقبال کے لیے تیار کرے۔اس سلسلے میں درج ذیل باتیں پیش نظر رکھی جائیں تو آپ کا بچہ غیرت اور حسد سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
ہسپتال میں داخلے سے پہلے
۱۔ اس سے آنے والے بچے کے بارے میں بات کریں،اور اسے اس بات کو سمجھنے کا بھر پور موقع دیں۔اسے بتائیں کہ وہ تمھارے ساتھ کھیلاکرے گا ، تم دونوں باتیں کیا کرو گے اور دونوں ایک دوسرے کے کام آیا کریں گے ایک دوسرے کی مدد کیا کریں گے۔
۲۔ بچے کو یہ بھی بتائیں کہ حمل کے دوران اور پیدائش کے وقت آپ کو کس قدر پریشانیاں اٹھانی پڑتی ہیںتا کہ اسے نئے آنے والے بچے کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے اور وہ اس سے انسیت اورمحبت کے لیے آمادہ رہے۔
۳۔ نئے بچے سے متعلق چیزوں کو مہیا کرنے اور تیار کرنے میں بڑے بچے کی مدد ضرور لیں۔
۴۔ نئے بچے کے گھر میں آتے ہی بڑے بچے کا بستر یا کمرہ الگ نہ کردیں تا کہ بچے کو یہ محسوس نہ ہو کہ اس ننھے سے بچے نے اس کی جگہ ہتھیا لی ہے اور اس کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے دور ہوگیا ہے۔
۵۔ بڑے بچے کو پلے اسکول میں داخل کرائیں اور اس کے بعد جب آپ اسے اسکول چھوڑنے جائیں تو چھوٹے بچے کو ساتھ نہ لے جائیںورنہ وہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اسی کی وجہ سے مجھے گھر سے دور رکھا جارہا ہے۔
۶۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے بڑے بچے کو یہ سمجھا دیں کہ آپ کی عدم موجودگی میں گھر کے دوسرے شخص کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ وہ اس کی دیکھ بھال کرے گا اور اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھے گا۔ نیز وہ اپنے والد کے ساتھ ہسپتال میں آپ سے ملنے آتا رہے گا، وہاں اپنے نئے بھائی کو دیکھ اسے پیار کرنا، اس کا بوسہ لینا۔
۷۔اپنے بڑے بچے کے ساتھ گھر کے فوٹوکا البم دیکھنے کا اہتمام کریں اور اسے اس کی پیدائش اور بچپن کی باتیں بتائیں۔
ہسپتال میں داخلے کے بعد
۱۔ بڑے بچے کے سامنے چھوٹے بچے کا جب بھی ذکر کریں تو یوں نہ کہیں کہ ’’میرا بچہ‘ بلکہ ہمارا بچہ کہیں تاکہ اس کو یہ محسوس ہو کہ یہ ہم سب کا ، پورے گھر کا بچہ ہے اور اس رشتے سے وہ اس کا بھائی ہے۔
۲۔ ہسپتال سے لوٹنے کے بعد سب سے پہلے آپ کچھ وقت کے لیے بڑے بچے کو گود میں لے کر بیٹھیں ، اسے پیار کریں ، بعد میں چھوٹے بچے کو گود میں لیں تاکہ اسے یہ محسوس ہو کہ وہ اب بھی اپنی ماں کا پیارا دلار ہے اور کسی نے اس کی جگہ پر قبضہ نہیں کیا ہے۔
۳۔ اس موقع سے بعض قریبی اعزہ ( مثلاً نانا، نانی، ماموں وغیرہ) آئیں تو ان سے کہیں کہ بڑے بچے کے لیے کچھ تحفہ لائیں اورخود بچہ کے ہاتھ میں دے کر کہیں کہ وہ خود کھول کر دیکھے کہ کیا تحفہ آیا ہے۔
۴۔ بڑے بچے پر خاص توجہ دیں اور روزانہ اس کے لیے بھی کچھ وقت نکالیں۔بچے کے والد اور گھر کے دوسرے افرادکو بھی اپنے بڑے بچے کے لیے اسی طرح وقت نکالنا چاہیے تاکہ اسے تنہائی کا احساس نہ ہو۔
۵۔ بچے کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں ۔ آپ بچے کو دودھ پلا رہی ہوں اور وہ آپ کی گود میں آنا چاہے تو اسے ’’نہیں‘‘ نہ کہیں بلکہ اس سے باتیں کریں ۔ دودھ پلانے کے دوران وہ آپ کی گود میں آگر بیٹھ جائے تو اسے ہٹائیں نہیں۔
۶۔ چھوٹا بچہ سو رہا ہو اور آپ یہ چاہتی ہوں کہ بڑا بچہ وہاں شور شرابہ نہ کرے تو اسے اس بات کی ہدایت سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ نہ دیں۔
۷۔ اگر بچہ نومولود بچے کی دیکھ بھال کے بجائے کھیل کود یا کارٹون وغیرہ دیکھنے میں مشغول ہوگیا ہے تو اسے اس بات پر ڈانٹیں نہیں۔
۸۔ چھوٹے بچے کو کھلاتے وقت بڑے بچے کو بھی کھیل میں شریک کرنا نہ بھولیں۔
۹۔ بچے کو اس بات کا موقع دیں کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی یا بہن کو چھوئے اسے پیار کرے البتہ گود میں اٹھانے کی اجازت نہ دیں اور اس کی وجہ بھی بتا دیں۔
۱۰۔ اگر بڑا بچہ اپنے چھوٹے بھائی کی نقل میں رونے لگے یا دودھ کی بوتل یا نپل منہ میں ڈالنے لگے تو اسے برا بھلا نہ کہیں۔کیوں کہ یہ محض عارضی کیفیت ہے۔
۱۱۔ کبھی وہ چھوٹے بچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ، اسے مارنے لگے تو نرمی سے اسے بچے سے دور لے جائیں۔ اسے سمجھائیں کہ وہ چھوٹا اور کمزور ہے اور تمھارا بھائی ہے اس لیے اسے پیار کرنا چاہیے۔
tanveerafaqui@gmail.com