بچوں میں منفی رویّے کب اور کیوں پیدا ہوتے ہیں؟

فوزیہ عباس

ہمارے ہاں بچوں کی ذہنی ، جسمانی وجذباتی صحت کو بری طرح سے نظرانداز کیاجاتاہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت، شخصیت کی مثبت و متوازن تعمیر وتشکیل اور کردار سازی کی ضرورت و اہمیت گھر اسکول اورمعاشرے میں کہیں بھی ہرگز محسوس نہیں کی جاتی۔
آج مائیں بچوں میں اخلاقی بگاڑ اور بڑھتے ہوئے منفی رجحان ورویوں سے پریشان نظر آتی ہیں، حالانکہ یہ سب توارث، ماحول اور اندازِ پرورش و تربیت کانتیجہ ہے۔ بچے میں سیکھنے کا عمل اُس وقت ہی سے شروع ہوجاتاہے جب وہ گوشت کے بے جان لوتھڑے سے ایک ذی روح وجود بنتاہے۔ اور جب محض دودھ پینا، سونا اور رونا ہی اس کے معمولات ہوتے ہیں، اس کی تمام حسیات پوری طرح بیدار ومتحرک ہوتی ہیں، وہ سب سنتا اور اردگرد کے ماحول سے محبت و نفرت، خوشی و بے زاری کے خوشگوار اور ناخوشگوار اثرات جذبات یا محسوس کرلیتاہے۔ بچوں کے متعلق یہ کیسے سمجھایا کہاجاسکتاہے کہ وہ ناسمجھ و نادان ہوتے ہیں؟ یا انہیں اچھے برے رویوں، سلوک کاکیا پتا…؟؟؟
بچوں میں منفی رویّے خود بخود یا اچانک پیدا نہیں ہوتے، ان کے پیچھے طویل عرصے تک بچے کے جذبات و احساسات، عزت نفس اور ذہن و دل کو متاثر کرنے والے منفی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
اپنے بچوں کی ذات کو اہمیت دیں، انہیں پوری توجہ، شفقت و محبت اور خوش دلی کے ساتھ پروان چڑھاکر مثبت و متوازن اور پسندیدہ شخصیت کا حامل انسان بنائیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی…
ذیل میں ۱۶ سال تک کی عمر کے بچوں میں پیدا ہونے والے منفی رویوں کے عوامل و اثرات کامختصر جائزہ تدارک کی تجاویز کے ساتھ پیش کیاجارہاہے۔
بچوں کی نفسیات کو سمجھنا کیوں ضروری ہے؟
ہر بچہ اوّل دن سے ہی ایک مکمل و منفرد شخصیت لے کر پیدا ہوتاہے، چنانچہ کسی بچے کا دوسرے بچوں کے ساتھ مقابلہ و موازنہ کرنا درست نہیں، یہاں تک کہ ایک والدین کی اولاد میں سے ہر بچہ دوسرے سے عادات واطوار، مزاج اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں میں مختلف ہوتاہے۔ دوجڑواں بچوں میں بھی ظاہری شکل وصورت اور قد وقامت میں مماثلت کے باوجود اندازِ فکر و میلانِ طبع اور پسند ناپسند کانمایاں فر ق پایاجاتاہے۔ انفرادیت و اختلاف کے اسی فرق کے پیش نظر بچوں کی پرورش و تربیت کے انداز بھی تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ والدین، اساتذہ اور بچوں کی دیکھ بھال و تربیت کرنے والے افراد بچوں کی نفسیات کو سمجھے بغیر اپنے فرائض و ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام نہیں دے سکتے…
بڑوں کے برعکس بچوں کی نفسیات کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ وہ اپنے جذبات و احساس کے برملا اظہار کی صلاحیت نہیں رکھتے، دوسرا وہ نشوونما کے مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل ہورہی ہوتی ہے، لہٰذا کوئی بھی غیرمعمولی رویہ یا پرورش و تربیت کا منفی انداز بچوں کی آئندہ پوری زندگی پر محیط ہوکر ان کی شخصیت کو غیرمتوازن بناسکتا ہے۔
منفی رویّے کب اور کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
بچوں کے متعلق ہمارے ہاں ایک عام تاثر یا خیال یہ پایاجاتاہے کہ چونکہ وہ چھوٹے ہیں لہٰذا ناسمجھ ہیں، انہیں بڑوں کے اچھے یا برے سلوک و رویے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ بچے باوجودچھوٹے یا کم سن ہونے کے بڑوں سے زیادہ حساس، سمجھدار اور اچھے برے رویّے کو فوراً محسوس کرلینے والے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ایک نومولود بچہ بھی ہاتھوں کے لمس سے ماں کی چاہت یا بے زاری کو محسوس کرلیتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اندر سکون یا بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ ذرا اور گہرائی میں جائیں تو پتا چلتاہے کہ دورانِ حمل بچے کے لیے ماں کے جذبات و احساسات کا براہِ راست اثر بچے کی ذہنی و جسمانی صحت پر پڑتا ہے۔ اَن چاہے بچے آئندہ زندگی میں زود رنج، احساسِ کمتری و جذباتی عدم تحفظ کا شکار اور غیرمطمئن ہوتے ہیں۔ گویا بچے میں منفی رویّے کی ابتدا ماں کے پیٹ ہی سے ہوجاتی ہے۔
بعد کی زندگی میں مندرجہ ذیل عوامل کے زیراثر بچوں میں مختلف قسم کے منفی رویّے پروان چڑھتے ہیں۔
والدین
والدین ہی بچے کی پرورش، تربیت اور حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اپنے بچے کے ساتھ ان کا صرف جسمانی ہی نہیںروحانی و جذباتی تعلق بھی ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے بہت سے والدین اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے پہلوتہی کرتے ہوئے بچوں میںکئی طرح کے منفی رویے پیدا کرنے کاباعث بھی بنتے ہیں۔ وہ بدقسمت بچہ جسے بچپن میں ماں کی ممتا اور باپ کی پدرانہ شفقت و محبت کے ساتھ بھرپور اور احساسِ تحفظ نہ ملے، آئندہ زندگی میںکبھی مثبت رویوں اور متوازن شخصیت کاحامل نہیں بن سکتا۔
ایک غیرملکی تحقیقی مطالعہ کے مطابق غصہ/ خوف کی حالت میں ماںکادودھ زہریلاہوجاتا ہے اور یہ زہریلا دودھ (جس پر شیرخوار کی نشوونما اور زندگی کا دارو مدار ہوتاہے) اس کی جسمانی ہی نہیں ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتاہے اور بچے میں غصہ/خوف جیسے منفی رویے بھی منتقل کرتاہے۔اسی طرح بعض مائیں جو بچے کودودھ پلانا نہیں چاہتیں یا کسی مجبوری کے باعث ایک دم بچے کا دودھ چھڑادیتی ہیں، شیرخوار پر اس جذباتی صدمہ کاگہرا اثر پڑتا ہے اور وہ آئندہ زندگی میںبے اعتمادی و تحفظ کے ساتھ جذباتی عدم تسکین کا شکاررہتا ہے۔
بچے وراثت میں والدین کا رنگ روپ، قد وقامت، انداز نشست وبرخاست اور طرز تکلم ہی نہیں لیتے، بلکہ ان کی اچھی بری، مثبت، منفی عادات اور رویّے بھی منتقل ہوتے ہیں۔ جس بچے کے ماں یا باپ میں غصہ زیادہ ہوبعض اوقات بچے کے اندر بھی یہ منفی رویہ پایاجاتاہے۔ اسی طرح منہ پھٹ یا زبان دراز ماں کی بیٹی بھی بدتمیز اور زبان دراز ہوتی ہے۔ گویا منفی رویے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے کی طاقت وصلاحیت رکھتے ہیں۔
پرورش و تربیت کے غلط/روایتی طریقے
بچوں کی پرورش و تربیت کے غلط یا روایتی طریقے بھی منفی رویے پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ چونکہ ہر بچہ دوسرے سے عادات و مزاج اور صلاحیتوں میں مختلف ہوتا ہے لہٰذا پرورش و تربیت کاایک ہی انداز یا اصول سب پر لاگو نہیں کیاجاسکتا۔ وہ ماں باپ جو ’’کھلائو سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہیں ان کے بچوں میں والدین سے نفرت، بغاوت، سرکشی و خودسری جیسے رویوں کے علاوہ کئی طرح کے دیگرجذباتی و نفسیاتی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
اساتذہ
اساتذہ جو بچوں کے روحانی ماں/باپ کہلاتے ہیں اور جن کے پاس بچے دن کا بیشتر وقت گزارتے ہیں، بعض اوقات اپنے شاگردوں کے اندر تعلیم سے بیزاری ، اسکول سے فرار، جھوٹ، احساسِ کمتری اور گالیاں دینا وغیرہ جیسے منفی رویّے پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ وہ اساتذہ جو ’’ڈنڈا پیر ہے بگڑے تگڑوں کا‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ’’مولابخش‘‘ کا آزادانہ استعمال کرتے، معمولی غلطیوں / باتوں پر بچوں کو بری طرح پیٹ ڈالتے، گالم گلوچ کرتے یا پوری جماعت کے سامنے کسی بچے کی عزت نفس مجروح کرتے ہیں ان کے خلاف بلاتخصیص ہر بچے کے دل میں نفرت، غصہ اور بدلہ لینے/ مزہ چکھانے جیسے منفی رویّے پیدا ہوجاتے ہیں اور متاثرہ بچوں کی اکثریت پڑھائی سے بددل ہوجاتی یا اسکول بدل لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
ماحول
ماحول سے مراد وہ سازگار یا ناسازگار حالات ہوتے ہیں جن کے زیرِ سایہ کوئی بچہ نشوونما اور پرورش و تربیت پاتاہے۔ اس میں بالترتیب گھر، اسکول، ارد گرد یعنی گلی، محلے اور معاشرے کاماحول شامل ہے۔ ان میں سے کسی ایک جگہ کا ماحول بھی بچے کے لیے ناسازگار ہوتاہے اور اس کے اندر کئی طرح کے ذہنی،جذباتی ونفسیاتی مسائل اور منفی رویّے پیداہوتے ہیں، مثلاً
(i)روک ٹوک، نو ک جھونک، مارپیٹ اور طعنہ زنی کے ماحول میںپلنے والے اچھے بھلے بچے بھی اندرونی طورپر انتہائی خوف زدہ اور کمزور ہوجاتے ہیں، انہیں نہ خود پر اعتماد رہتا ہے اور نہ دوسروں پر۔
(ii)طنز و تحقیر اور تنقید بھرے ماحول میں رہنے والے بچے بھی دوسروں پر کیچڑ اچھالنا، عیب جوئی کرنا وغیرہ جیسے منفی رویّے سیکھ لیتے ہیں۔
(iii)تشدد، ظلم و زیادتی اور لڑائی جھگڑے کے ماحول میں پلنے والے بچے بھی لڑاکو اور جھگڑالو بن جاتے ہیں۔
(iv)ڈر و خوف کے ماحول سے بچوں میں بھی خوف و ہراس اور عدم تحفظ پیدا ہوتاہے۔
معاشرہ
گھر، اسکول اور گلی محلے کے ماحول سے نکل کر جب بچہ معاشرے کاحصہ بنتاہے تو یہاں کے آزاد وبے باک ماحول سے بھی کئی طرح کے منفی رویے سیکھ لیتاہے۔ خصوصاً وہ بچے جو گھر اور اسکول سے کئی طرح کی محرومیاں اور جذباتی عدم تسکین و عدم تحفظ لے کر معاشرتی زندگی کاحصہ بنتے ہیں بہت جلد بے راہ روی، فلم بینی، منشیات و جرائم جیسے تباہ کن منفی رویوں کے عادی بن جاتے ہیں۔
میڈیا
کچھ عرصے سے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے ہر قسم کی مذہبی، معاشرتی واخلاقی حدود و قیود کو بالائے طاق رکھ کر سب کچھ سنانے اور دکھانے کا جو بیڑہ اٹھالیا ہے، اس نے نئی نسل کابیڑہ غرق کرنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس وقت میڈیا بچوں میں فحاشی و عریانی، مغرب پرستی، ہندی کلچر کا فروغ مذہبی اخلاقی حدود سے بے زاری، بے راہ روی و غیرہ جیسے منفی رویوں سمیت کئی طرح کے اخلاقی ، ذہنی و جسمانی، جذباتی و نفسیاتی اور جنسی مسائل پیدا کرنے کاایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔
منفی رویّے کا بچے کی شخصیت پر اثر
شخصیت کا لفظ شخص سے ماخوذ ہے جس کامطلب ہے: فرد/ بچے کی مکمل ذات جو دوسروں کو نظر آتی ہے، اور جس میں فرد/ بچے کی تمام ظاہری و باطنی خصوصیات شامل ہوتی ہیں۔
شخصیت وراثت اور ماحول کے بنیادی عناصر سے تکمیل پاتی ہے۔ شخصیت کی مثبت یا منفی تعمیر وتشکیل میںبچپن کے ماحول، حالات وتجربات، اندازِ پرورش وتربیت اور ورثہ اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور زندگی میں بچے کی کامیابی وناکامی کی بنیاد بنتے ہیں۔ حسد، جھوٹ، عیب جوئی، غصہ، بے راہ روی، بغض، مایوسی، خوداعتمادی کا فقدان، جارحانہ پن، بے عملی و کام چوری وغیرہ جیسے منفی رویے بچے کی شخصیت کو مسخ کرکے اسے دوسروں کی نظر میں ناپسندیدہ بناتے ہیں۔
منفی رویّے کا بچے کی زندگی پر اثر
بعض اوقات منفی روییّ بچے کی پوری زندگی پر محیط ہوکر اسے بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ حسد، نفرت، انتقام، احساسِ کمتری، مایوسی، بے راہ روی، بغاوت وغیرہ جیسے رویوں کے زیراثر بچے کی زندگی کے قیمتی ماہ و سال ضائع ہوجاتے اور اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یوں زندگی جیسی انمول نعمت بچے کو بوجھ لگنے لگتی ہے اور وہ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
منفی رویّے کا بچے کی اجتماعی/ سماجی/ معاشرتی زندگی پر اثر
منفی رویّے بچوں کی اجتماعی و معاشرتی زندگی کو بھی متاثر کرتے اور انہیں سماج/ معاشرے میں تنہاکردیتے ہیں۔ اشتعال انگیزی ، جھوٹ، کینہ، اخلاقی بے راہ روی، جارحانہ پن، چوری، منشیات کااستعمال، دنگا فساد وغیرہ جیسے منفی رویوں کے حامل بچے کے ساتھ دوسرے مہذب و شائستہ اطوار کے بچے روابط رکھنا یا گھلنا ملناپسندنہیں کرتے۔
منفی رویّے بچے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتے ہیں
کسی بھی منفی رویّے کے زیراثر بچے کی ذہنی و جسمانی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں، مثلاً حسد میں مبتلابچہ باوجود ذہین ہونے کے پڑھائی میں کمزور ہوجاتاہے کیونکہ اس کا سارا وقت، توجہ اور ذہنی صلاحیتیں حسد کی آگ میں جلنے، کڑھنے میں صرف ہورہی ہوتی ہیں۔
بچوں اور بچیوں کے منفی رویوں میں فرق
بچوںاوربچیوںمیں جسمانی وجذباتی لحاظ ہی سے نہیں صلاحیتوں اور رویوں کے اعتبار سے بھی فرق ہوتاہے۔ بچوں کے برعکس بچیاں عموماً دھیمے مزاج کی، متحمل و بردبار ہوتی ہیں۔ انہیں چونکہ زیادہ وقت گھر اور گھریلو ماحول کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں گزارنا ہوتاہے اسی لیے ان کے رویوں میں ’’خانگی سیاست‘‘ کارنگ غالب ہوتاہے۔ غلط بیانی، جھوٹ، عیب جوئی، لگائی بجھائی، کن سوئیاں لینا، حسد، کام چوری، بحث و تکرار اور طنز و تحقیر وغیرہ جیسے منفی رویّے عموماً چھوٹی عمر ہی سے بچیوں میں پنپنے لگتے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض بچیوں میں جارحانہ پن، بے باکی، باغیانہ پن اور بے راہ روی جیسے خالص لڑکوں والے منفی رویے بھی پائے جاتے ہیں۔
مثبت اور منفی رویوں کے اثرات کاتقابلی جائزہ
٭ مثبت رویے بچے کے اندر سکون،آسودگی، جذباتی ٹھیرائو اور مسرت پیدا کرتے ہیں۔
l منفی رویّے بچے کے اندر بے چینی، اضطراب، جذباتی عدم توازن، ذہنی دبائو اور غم و غصہ پیدا کرتے ہیں۔
٭ مثبت رویّے کا حامل بچہ ہر دلعزیز اور پسندیدہ ہوتا ہے۔
l منفی رویّے کاحامل بچہ ناپسندیدہ ہوتاہے۔
٭ مثبت رویّے بچے کی کامیابی کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔
l منفی رویّے بچے کو ناکامی سے دوچار کرتے ہیں۔
٭ مثبت رویّے بچے کی جسمانی، ذہنی، جذباتی ونفسیاتی صحت کے ضامن ہوتے ہیں۔
l منفی رویّے بچے کی ذہنی و جسمانی، جذباتی و نفسیاتی صحت کو متاثر/ تباہ کرتے ہیں۔
٭ مثبت رویّے بچے کی ذہنی وجسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں۔
l منفی رویّے بچے کی ذہنی و جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو مکمل طورپر سلب کرلیتے یا انہیں غلط سمت کی جانب موڑدیتے ہیں۔
منفی رویوں کے تدارک کے لیے چند تجاویز
٭بچوں میں منفی رویوں کے تدارک کے ضمن میں سب سے پہلی اور بنیادی شرط گھر کے ماحول کا پرسکون اور والدین کی اپنی شخصیت وکردار کا مضبوط و متوازن ہونا ہے۔ خصوصاً ماں کو متحمل مزاج ہونا چاہیے کیونکہ ماںکی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔
٭دو سے پانچ برس کے بچے نشوونما اور سیکھنے کے مرحلے میں ہوتے ہیںلہٰذا پوری توجہ، شفقت و محبت اور خوش دلی کے ساتھ اپنے بچے کی پرورش و تربیت کریں۔ بچے کی زندگی کے یہ قیمتی سال اس کی آئندہ زندگی کی بنیاد بنتے ہیں۔ انہیں ضائع ہرگز نہ کریں۔
٭ابتدا ہی سے اپنے بچے/ بچی کی جسمانی و نفسیاتی صحت کا خاص خیال رکھیں، جس طرح جسمانی تکلیف کی صورت میں چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس بلا جھجک جاتے ہیں بالکل اسی طرح ذہنی و نفسیاتی مسائل کے حل و مشاورت کے لیے چائلڈ سائیکالوجسٹ کے پاس جانے میں کسی قسم کی شرم، جھجک اور تامل ہرگز محسوس نہ کریں۔
٭ضد ، غصہ، رونا، چڑچڑاپن، لڑنا جھگڑنا جیسے منفی رویّے بچے کی ذہنی و نفسیاتی الجھن یا کسی اندرونی دبائو اور ڈرو خوف کابیرونی اظہار ہوتے ہیں۔ اپنے بچے کو ممتا اور تحفظ کا بھرپور احساس دلائیں، اسے وقت اور توجہ دے کر اس کی ذات کو اہمیت دیں۔
٭بچوں میں ہر وقت سر کھجانے، رالیں ٹپکانے، منہ میں تھوک جمع کرکے غبارے بنانے، نچلا ہونٹ لٹکاکر باتیں کرنے، ماں اور دیگر بڑوں کو نازیبا القابات سے پکارنے اور مشتعل ہوکر ہاتھ پائوں چلانے کے پیچھے بھی والدین کی عدم توجہ، بے جا سختی اور روک ٹوک کارفرما ہوتی ہے۔ ایسے بچے کو بہت تحمل اور پیارومحبت کے ساتھ غیرمحسوس انداز میں کسی اور کام /بات/کھیل کی طرف متوجہ کردیا کریں۔ یوں رفتہ رفتہ وہ اس عادت کو ترک کردے گا۔
٭جھوٹ بولنے، گالی دینے، چوری کرنے یا بات بے بات بہن کی شکایتیں لگانے والے بچے کو اگر پہلے ہی دن مناسب انداز میں تنبیہ نہ کی جائے تو آپ کی یہ غفلت اُ س کی آئندہ زندگی کی بنیاد بن کر ان منفی رویوں کو اس کی شخصیت کاحصہ بنادے گی۔
٭بچے کی ایسی باتوں کاذکر بار بار اس کے سامنے ہرگز نہ کریں، نہ ہی بے جا سختی سے پیش آئیں یا دوسروں کے سامنے اسے شرمندہ کریں۔
٭۶ سے۸ برس کی عمر کے بچوں میں بعض اوقات جذباتی عدم توازن کے باعث دونوں طرح کی انتہائی صورتیں پائی جاتی ہیں، مثلاً کھیل کود میں عدم دلچسپی، ہر وقت کھیلتے رہنا، بہت زیادہ کھانا یا بالکل نہ کھانا… ایسے بچوں کو خصوصی توجہ اور اہمیت دیں کیونکہ نہ ہر وقت کھیلنا اور کھانا درست ہے اور نہ ہی کھانے اور کھیل سے عدم دلچسپی نارمل رویہ ہے۔ ہروقت کھیلنے والے بچے کو وقت، تعلیم اور دیگر کاموں کی ضرورت واہمیت کا احساس دلاکر ٹائم ٹیبل کا پابند بنائیں… اور بالکل نہ کھیلنے والے بچے کو کھیل کی طرف راغب کرنے کے لیے خود بھی اس کے ساتھ ہلکے پھلکے کھیل کھیلیں۔
٭بچوں کو جذبات و احساس کے اظہار کا موقع دیں۔
٭بچوں کی جائز ضروریات و خواہشات کی تکمیل میں غیرضروری تاخیر درست نہیں۔ اس طرح بچے کے اندر احساسِ محرومی حرص، ندیدہ پن اور لالچ پیدا ہوجاتا ہے۔
٭۹ سے ۱۲ سال کی عمر کے بچے خصوصاً لڑکیاں عمر کے ایک انتہائی نازک دور میں داخل ہوجاتی ہیں۔ مائوں کی خصوصی توجہ ومناسب رہنمائی اور دوستانہ رویہ ان کی جذباتی، جسمانی و ذہنی صحت کے ضامن بنتے ہیں۔
٭گھریلو ماحول کاپرسکون، مثبت و تعمیری ہونا بچے کو گھر اور گھروالوں سے بے زار کرکے فرار کی جانب راغب نہیں ہونے دیتا۔
٭لگائی ، بجھائی، غیب، کن سوئیاں لینا وغیرہ ایسے منفی رویسے ہیں جو بچی کی شخضیت کو مسخ کردیتے ہیں۔ بچیوں کے سامنے ہرگز کسی کی برائی نہ کریں، نہ ہی بچیوں کو دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنے اور لگائی بجھائی کرنے کی ترغیب دیں، پہلے ہی دن بچی کو مناسب تنبیہ کرنا اس رویّے کو پنپنے نہیں دیتا۔
٭۱۳ سے ۱۶ برس کی عمر کے بچوں کے ساتھ ماں اور باپ دونوں کا مثبت، دوستانہ اور محبت و شقت بھرا رویہ جذباتی آسودگی پیدا کرتا ہے۔
٭ہروقت کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویڈیو گیمز اور موبائل فون وغیرہ کے ساتھ لگے رہنے کی اجازت نہ دیں۔ یہ چیزیں لائونج میں یا کسی ایسی جگہ پر رکھیں جہاں دیگر افراد خانہ کا آناجانا بھی لگارہتا ہو۔
٭کیبل کے تمام چینلز دیکھنے کے بجائے مفید و معلوماتی پروگراموں کاانتخاب کریں اور اوقات نوٹ کرکے سب مل کر صرف وہی پروگرام دیکھیں۔
٭بحیثیت والدین آپ کو بھی ان پروگراموں کو دیکھنے سے اجتناب برتنا چاہیے جو فحاشی و عریانی پھیلانے اور اخلاق وکردار کو متاثر کرنے کے باعث بچوں کو دیکھنے سے روکتے ہوں۔
٭بچوں کی کمزوریوں، غلطیوں، کوتاہیوں، خامیوں کو تنقید و تحقیر اورطنز و تضحیک کانشانہ بناکر ہر وقت اُن کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں۔
٭ہرماہ بچے/ بچی کے اسکول جاکر اساتذہ سے ملنا اور بچے کی کارکردگی کی مکمل رپورٹ لینا ہر گز نہ بھولیں، اس طرح جہاں آپ بچے کی تعلیمی کارکردگی سے باخبر رہیںگے وہیں اساتذہ کے اخلاق وکردار سے بھی بخوبی آگاہ ہوںگے۔
٭جلد مشتعل ہوجانے والے، غصیلے ، متشدد اور جارحانہ پن کامظاہرہ کرنے والے بچوں کو نہایت تحمل و برداشت اور پیارو محبت کے ساتھ رام کریں۔ خصوصاً اشتعال کی حالت میں گھر کاکوئی پسندیدہ فرد سامنے آکر غیرمحسوس انداز میں بچے کی توجہ کسی اور دلچسپ کام/ چیز/ بات کی طرف مبذول کروادے اور غصے کا سبب بننے والے فرد/چیز کو سامنے سے ہٹادے۔
ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146