بچوں میں منفی سوچ کا تدارک

جویریہ منیر

بیٹا پڑھنے کا وقت ہے۔ آپ اپنا ہوم ورک کریں۔‘‘ نویں کلاس کے طالب علم سہیل سے جب اسکی ماں نے ایک روز کہا تو اس کا جواب تھا:
’’امی بہت اچھا پڑھ کر میں کیا کرلوں گا؟ زاہد چاچا کو اتنا پڑھ کر بھی نوکری نہیں ملی۔ کیا فائدہ پڑھ کر۔‘‘
سات سالہ ندیم کو اس کی چچی نے پکارا اور وہ چچی کے گھر اپنی چچازاد کے ساتھ کھیلنے چلا گیا جو اس کی ہم عمر تھی۔ جب وہ کھیل کر واپس آیا تو اس کی ماں نے اسے اس بات پر سخت جھاڑ لگائی کہ وہ وہاں کیوں گیا۔ ندیم کے پوچھنے پر اس کی ماں الٹی سیدھی باتوں کا پٹارہ کھول کر بیٹھ گئی۔
یہ منفی سوچ کی دو مثالیں ہیں۔ ایک میں بچہ اپنے چچا کی بے روزگاری سے متاثر ہوکر تعلیم کے سلسلے میں منفی تاثر لئے بیٹھا ہے، جبکہ دوسری مثال میں ماں خود بچے کے اندر اپنے قریبی رشتہ دار کے سلسلے میں منفی سوچ پیدا کر رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے وہی عادات اپناتے ہیں جو سنتے اور دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر وقت وہ اپنے والدین کے ساتھ ہی رہتے ہیں، لہٰذا والدین کا رویہ اور سوچ ان پرگہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
بچوں میں منفی سوچ پیدا کرنے میں مختلف عوامل کا عمل دخل ہوتا ہے جو اندرون خانہ کے بھی ہو سکتے ہیں اور بچہ گھر سے باہر بھی منفی سوچ پاکر اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو ابتدائی عمر سے منفی سوچ کا شکار ہوجاتے ہیں وہ ان لوگوں کے مقابلے میں کم کامیاب اور کم صحت مند ہوتے ہیں جو مثبت سوچ اور خیالات رکھتے ہیں۔
منفی خیالات اور سوچیں صرف صحت پر ہی نہیں بلکہ بچے کی شخصت اور اس کےمستقبل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات والدین کے لیے بچوں کے ذہن سے منفی سوچوں کو ختم کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں اور ان کی فکر پر بھی نگاہ رکھیں اور دیکھتے رہیں کہ ان کے ذہن میں کس قسم کے خیالات اور سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ اگر والدین بچوں میں منفی خیالات اور سوچ کو محسوس کریں توہوشیار ہو جائیں اور انہیں ختم کرنے کے لئے کوشش کریں ۔ ان کے اندر پنپ رہے منفی خیالات کے اسباب و عوامل کا پتہ لگائیں اور اگر وہ بیرونی اثر کے تحت ہوں تو پیار و محبت سے ان کے منفی رویوں کو دور کرنے اور زندگی کے مثبت پہلوؤں پر سوچنے کی دعوت دیں اور اگر یہ اندرونی اسباب کے تحت ہو تو خود اپنی سوچ اور اپنے منفی رویوں کو تبدیل کرکےمثبت رویے اپنائیں اور ہر قسم کی خامیوں سے اجتناب برتیں تاکہ بچے بھی مثبت انداز اور رویوں کو اپنائیں۔
اگر آپ کے بچے میں مایوسی پر مبنی خیالات نشوونما پارہے ہوں یا چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا انداز منفی رخ پر جا رہا ہوتو ذیل میں دئے گئے کچھ نقاط کی بنیاد پر ان کی کاونسلنگ یا ذہن سازی کی کوشش کرکے ان کی سوچ کا انداز بدلنے کی فکر کی جانی چاہئے۔
مسئلہ جاننے کی کوشش کریں:
جب والدین کو اپنے بچوں کی منفی سوچ کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں سمجھانے کے لیے کچھ ایسا کیا جائے کہ وہ بہتر محسوس کریں۔ تاہم ایسا کرنے سے قبل ان کے مسائل اور منفی سوچ کے اسباب و عوامل کو سمجھا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ کس وجہ سے وہ منفی رجحان کی جانب جارہے ہیں، ان سے اس معاملے پر گفتگو کرکے انہیں سمجھایا جائے۔
عزم و امید جگائیں:
ایسی صورت میں بچے کو عزم و امید کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اسے بتایا جانا چاہئے کہ زندگی میں مایوسی اور ناامیدی کے بجائے عزم و امید کی سوچ رکھنی چاہئے۔ عزم و حوصلہ انسان کو یہ طاقت دیتا ہے کہ کہ وہ ناکامی کے اندر سے کامیابی کی کھوج کرلے اور ناکامی سے سبق سیکھ کر اسے نئے مواقع پیدا کرنے کے لئے استعمال کرے۔ اس کے لئے تاریخی واقعات سنائے جائیں اور ایسے افراد کی زندگیوں کے بارے میں بتایا جائے جو بہ ظاہر ناکام و ناکارہ سمجھے جاتے تھے مگر تاریخ میں انہوں نے اپنا نام درج کرایا اور ایسا محض ان کی لگن، جہد مسلسل اور کچھ نیا کرنے کی دھن کے سبب ممکن ہو سکا۔
اس سلسلے میں ہم بچوں کو دینی تعلیمات کا بھی حوالہ دے سکتے ہیں۔ مثلا یہ کہ قرآن میں نا امیدی اور مایوسی کو کفر کہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مایوسی اللہ تعالی کا انکار کرنے والوں کی روش ہے۔
اچھے اور برے کا فرق بتائیں:
بچے اکثر منفی اور مثبت کے درمیان امتیاز نہیں کرپاتے جس کے نتیجے میں نہ جانتے ہوئے بھی منفی سمت میں جانے لگتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ بچوں کی رہنمائی کریں اور انہیں اچھے اور برے میں تمیز کرنا سکھائیں اور انہیں اپنے موثر انداز میں بتائیں کہ منفی سوچ اور خیالات کبھی بھی مسائل حل نہیں کرتے بلکہ زندگی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرکے کامیابی کو مشکل بناتے ہیں۔ آپ اس کی مثالیں اپنے آس پاس کی دنیا سے ان کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرائیں:
جو بچے منفی خیالات رکھتے ہیں وہ ہر چیز میں خامیاں تلاش کرتے ہیں، ساتھ ہی وہ ہمیشہ اداس رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا منفی پہلو یا اس کی برائی ہی دیکھ پاتے ہیں اور انہیں مثبت پہلو یا تو تلاش کرنا نہیں آتا یا وہ طبعا اسی کی جانب متوجہ نہیں ہوپاتے ہیں۔ اس صورتحال میں والدین کو چاہیے کہ وہ جس قدر ممکن ہو پرامید رہنا سکھائیں اور بتائیں کہ ہر چیز کے ایک سے زیادہ پہلو ہو سکتےہیں، جنھیں تلاش کیا جانا چاہئے۔ مثال کے طور پرپانی کا ایک گلاس آدھا بھرا ہوا رکھا ہے۔ اسے دیکھنے کے دو انداز ہو سکتے ہیں: ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ گلاس آدھا خالی ہے، جبکہ دوسرا کہہ سکتا ہے کہ گلاس آدھا بھرا ہوا ہے۔ یہ سوچنے کا الگ الگ انداز ہے۔
اس کی ایک اور مثال لی جاسکتی ہے:
حکایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عیسی اپنے حواریوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ راستے میں ایک مرا ہوا کتا پڑا ملا جس سے شدید بدبو آرہی تھی۔ ان کے ساتھیوں میں سے ایک نے کتے اور اس کی سڑاند پر کوئی تبصرہ کیا جس کو سن کر حضرت عیسی نے فرمایا کہ دیکھو اس کے دانت کتنے سفید اور چمکدار ہیں۔
اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ والدین کے لئے اس بات پر نگاہ رکھنا ضروری ہے کہ بچہ کی صحبت کیسی ہے اور وہ کس قسم کے دوستوں کے ساتھ رہتا یا اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اگر اس کی صحبت ایسے لوگوں کی ہو جو خود مایوسی پر مبنی اور منفی خیالات رکھتے ہوں تو بچہ اسی قسم کے خیالات لے کر آئے گا اور اگر وہ عزم وحوصلہ رکھنے والے، اچھا سوچنے والے اور محنت کرنے والوں کے ساتھ رہے گا تو ویسے ہی رویے اور خیالات رکھے گا۔ اس لئے صرف اپنے بچے پر ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھیوں پر بھی نظر رہنی چاہئے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں