ناہید اپنے پڑوسی کی گلگلی موٹی بچی کو دیکھ کر پریشان ہے کیونکہ اس کی بیٹی موٹی نہیں ہوتی ہے۔ اسے اندیشہ ہے کہ ہماری بچی کو کوئی بیماری تو نہیں ہے۔ ناہید کی بات سن کر ڈاکٹر پہلے تھوڑا مسکرائی پھر انھوں نے بتایا کہ حقیقت میں جو بچے بچپن میں موٹے ہوتے ہیں، وہی بڑے ہوکر موٹاپے کی پریشانی جھیلتے ہیں کیونکہ اسی عمر میں بچے کے اندر جسمانی گھٹن کی بنیاد پڑتی ہے۔اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی یا بیٹا بڑے ہوکر موٹاپے کی پریشانی نہ جھیلیں تو آج ہی سے ان کے صحیح وزن پر دھیان دیں۔ بچوں کا وزن ان کی عمر کے مطابق ہونا چاہیے۔ جیسے تین سال کے لڑکی کاوزن ۱۲ کلو اور لڑکے کا وزن ساڑھے بارہ کلو ہونا چاہیے۔ اس سے زیادہ وزن موٹاپے کی نشانی ہے۔ اس کے علاوہ موٹاپے کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر اور ڈائی بٹیز جیسی خطرناک بیماریاں ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
موٹاپے کے اسباب
موٹے ماں باپ کے بچے بھی موٹے ہوتے ہیں۔ ایسا ان کی جسمانی ساخت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے جس عمر میں ماں باپ پر موٹاپا چڑھتا ہے اسی عمر میں بچے بھی موٹے ہوتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ زمانے میں جسمانی ورزش کم اور تناؤ زیادہ ہے۔ بچہ صبح گھر سے نکلتا ہے اور دوپہر دیر گھر واپس آتا ہے اور گھر لوٹنے پر بھی اس کے اوپر سے پڑھائی کا بوجھ کم نہیں ہوتا۔ اسے کھیلنے کا وقت نہیں ملتا ہے۔ چپس، کرکرے، برگر اور نیوڈلس کھاتا اور ٹی وی پر نظر جمائے رکھنا، ان کی مصروفیت ہوتی ہے۔ جسمانی کام نہ کرنے کی وجہ سے جسم میں ان چیزوں کے ذریعے پہنچنے والی کیلوریز کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو موٹاپے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ گھر سے باہر کھانا کھانے کا بڑھتا فیشن بھی موٹاپے کو ہوا دیتا ہے۔دراصل باہر کے کھانوں میں چربی زیادہ اور کلوریز کم ہوتی ہیں جو جسم کو کمزور کردیتی ہیں اور موٹاپے کو بڑھاواد یتی ہیں
علامات
جلدی تھکان محسوس کرنا، سانس پھولنا، کمزوری بہت زیادہ محسوس ہونا، پسینہ آنا، خراٹے لینا، نیند نہ آنا، چڑچڑانا اور جسمانی کام نہ کرپانا موٹاپے کی نشانی ہیں۔ ایسی صورت میں موٹاپے کی وجہ سے بچوں میں ذہنی تناؤ بڑھ جاتا ہے اور موٹے بچے آگے چل کر بلڈ پریشر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بلڈ پریشر سے جڑی دوسری بیماریاں جیسے ڈائی بٹیز، ہارٹ اٹیک اور گردے کے امراض ہوجاتے ہیں اور نظر بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔
بچاؤ کے طریقے
tہر ہفتے بچے کا وزن آدھا کلو گھٹانے کا انتظام ضرور کریں، اس کے لیے اسے کھانے میں روز ایسی چیزیں دیں جن سے پیٹ تو بھرجائے مگر کلوریز کم ملیں۔
tبچے کیک، پیسٹری، بسکٹ اور کولڈ ڈرنک زیادہ پسند کرتے ہیں، ان پر اس چیز کی پابندی لگائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ وہ ہفتے میں ایک دن جو چاہیں کھاسکتے ہیں مگر باقی ۶ دن انھیں گھر کا کھانا ہی کھانا ہوگا۔ اس طرح بچہ مان جائے گا اور اسے اس طرح آپ مقوی غذا بھی کھلاسکتی ہیں۔
tبچوں سے سائیکل چلانے، فٹ بال کھیلنے اور بس اسٹاپ تک پیدل جانے کے لیے کہیں تاکہ جسم کی زائد چربی جل سکے۔ اگر بچہ جسمانی کام سے کتراتا ہے تو روزانہ ایک گھنٹے کے لیے ایسا ضرور کریں کہ بچہ گھر میں نہ بیٹھے اسے پارک یا میدان میں کھیلنے، سائیکل چلانے اور کوئی جسمانی محنت کے لیے ضرور بھیجیں۔
tگھر کے آس پاس سوئمنگ کلب ہو تو بچہ کا داخلہ کرائیں، تیرنا اچھی ورزش ہے اس سے موٹاپہ بھی کم ہوتا ہے۔ گھر سے باہر کھانا نہ تو خود کھائیں، اور نہ بچوں کو کھانے دیں۔ اگر آپ خود کھاتی ہیں تو بچوں کو نہیں روک سکتیں۔ بچوں کے ٹفن میں چاؤمین، پیسٹری یا سینڈوچ دینے کے بجائے پراٹھا سبزی، دہی میں ابلا ہوا آلو ملا کر اور پھل وغیرہ دیں۔
tدو وقت کے کھانے کے بیچ میں بچوں کو پیسٹری کولڈ ڈرنک وغیرہ سے روکیں اس وقت بھوک لگنے پر بچوں کو پھل، جوس، چھاچھ، دلیہ ، دودھ جیسی گھر کی بنی ہلکی چیزیں کھانے کو دیں۔
اس طرح آپ کا بچہ موٹاپے سے محفوظ رہے گا اور اس کے نتیجے میں جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ ان شاء اللہ نہ ہوں گی۔ یاد رکھئے احتیاط اور وہ بھی غذائی احتیاط بیماریوں کا قبل از وقت علاج ہے۔