آج کل بچوں میں ’پیٹ درد‘ کی شکایت خاصی عام ہوتی جا رہی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسپتالوں اور نجی کلینکس میں پیٹ کے امراض میں مبتلا ہر دس مریضوں میں سے ایک بچہ پیٹ درد کی شکایت کے ساتھ آتا ہے۔ بچوں میں پیٹ درد کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً اپینڈیسائٹس (Appendicetis) جسے چھوٹی آنت کا پھول جانا بھی کہا جاتا ہے، السر یا زخم، پتے، جگر، آنتوں اور معدے کا ورم، لبلبے میں سوزش، قے، دست، قبض، فوڈ پوائزننگ، پیٹ میں اندرونی چوٹ، گردے اور پیشاب کی نالی میں زخم یا پتھری، ٹیسٹیس کا بل کھا جانا یا سوجن، پیٹ کے کیڑے، آنت کا ہرنیا، آنت میں بل آجانا اور بچے کو مصنوعی دودھ کا موافق نہ آنا وغیرہ۔
بچوں کی اکثریت اسکول جاتے ہوئے جیب خرچ بھی ساتے لے کر جاتی ہے، جس سے عموماً بریک میں یا پھر چھٹی کے بعد ٹھیلوں سے پیٹیز، سموسے یا چھولے وغیرہ خرید کر کھالیے جاتے ہیں۔ یوں یہ غیر معیاری اشیاء بھی پیٹ کی خرابی کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بچوں میں برگر، سینڈویچ اور پیزا کھانے کا رجحان بھی بڑھتا ہی جا رہا ہے، جو پیٹ درد کی وجوہ میں سے ایک بنیادی وجہ ہے۔ علاوہ ازیں میٹھی اشیاء جیسے ٹافی، چاکلیٹ، مشروبات اور بیکری کی چیزوں وغیرہ کے استعمال سے پیٹ میں کیڑے بھی افزائش پانے لگتے ہیں، جو بعض بچوں میں گچھوں کی صورت میں چھوٹی آنت میں جمع ہوکر اپینڈیکس کے پھولنے اور پھٹ جانے کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ پھر بچوں میں یرقان کا مرض بھی پیٹ میں اپھارے اور درد کی وجہ بن جاتا ہے، کیوں کہ اس عارضے میں جگر کے حجم میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے، جو ان دونوں تکالیف کا سبب بنتا ہے۔ یاد رکھیے، اگر یرقان کا حملہ شدید نوعیت کا ہے، تو پھر پیٹ درد کے ساتھ الٹی، متلی اور بھوک کی کمی کی بھی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ نیز آنکھوں کی رنگت بھی گہری پیلی ہو جاتی ہے۔
اکثر مائیں اس بات کی بھی شکایت کرتی ہیں کہ ان کے بچے مٹی، چونا، بجری، پتھر، کچے چاول، پنسل اور ربر بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یاد رکھیے طبی ماہرین کے مطابق اول تو ان بچوں کو بھوک نہیں لگتی اور دوم انہیں وقتاً فوقتاً شدید پیٹ درد کی تکلیف بھی ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو ان اشیاء کے نقصانات سے آگاہ کریں، اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں، تو معالج سے رجوع کریں۔ علاوہ ازیں چھوٹے بچے خصوصاً سن بلوغت تک پہنچنے والی لڑکیوں میں میٹھی چھالیاں کھانے کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے، جو نہ صرف پیٹ درد، بلکہ جسم میں شدید خون کی کمی کا بھی باعث ہے۔ اگرچہ حفاظتی ٹیکوں کی بدولت بچوں کے کئی موذی امراض میں کمی واقع ہوئی ہے، مگر جن بچوں کی کسی بھی وجہ سے ویگسی نیشن نہیں ہو پاتی، وہ مختلف امراض کا شکار ہو جاتے ہیں جیسا کہ پیٹ درد کے بعض کیسوں میں مرض کی درست تشخیص نہیں ہو پاتی اور خاصی تاخیر سے پتا چلتا ہے کہ اس درد کا سبب آنتوں کی ٹی بی ہے۔
عموماً بچوں میں پیٹ درد کی تشخیص کے لیے سادہ ایکسرے تجویز کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے پیٹ کے نچلے حصے میں فضلے کے سخت ہوکر جمع ہوجانے، اپینڈیکس پھٹ جانے، آنت میں بل پڑ جانے، نمونیا، پیٹ یا آنتوں میں رسولی اور چوٹ کی وجہ سے تلّی میں خون جمع ہو جانے کی تشخیص بہ آسانی ممکن ہے۔ نیز امیجنگ ٹیسٹ مثلا بیریم ملما، سی ٹی اسکین اور الٹرا ساؤنڈ وغیرہ بھی تجویز کیے جاتے ہیں اور بعض کیسوں میں خون اور پیشاب کے ٹیسٹ بھی تجویز کیے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ پیٹ درد کی علامات کے پیش نظر تشخیص کو کون سا طریقہ مناسب رہے گا، اس بات کا فیصلہ صرف ایک ماہر معالجات ہی کر سکتا ہے۔ درست تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ سہل ہو جاتا ہے۔ بعض کیس میں صرف اینٹی بایو ٹکس تجویز کی جاتی ہیں اور پیٹ میں کیڑے ہونے کی صورت میں ایسی دوا دی جاتی ہے، جس سے کیڑے مردہ ہوکر خارج ہوجائیں۔ اور اگر بچے کا پیٹ پھولا ہوا ہو، تو عموماً ناک کے راستے معدے میں نلکی داخل کر کے فاضل رطوبتیں نکال لی جاتی ہیں۔ پیشاب خارج نہ ہونے کے سبب پیٹ میں درد ہو اور مثانہ بھی پھولا ہوا ہو، تو نلکی کے ذریعے مثانہ خالی کیا جاتا ہے، تاکہ گردوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
بچوں کو پیٹ درد سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیشہ جراثیم سے پاک پانی (ابال کر) استعمال کروائیں، انہیں ناشتے کا عادی بنائیں تاکہ وہ غیر معیاری چیزیں نہ کھائیں، مٹی، چونا، پنسل، کاغذ، ربر اور میٹھی چھالیا کے استعمال سے باز رکھیں، کھانے پینے کے اسٹالز اور ٹھیلوں سے چھولے، چاٹ، قلفی، آئس کریم، ٹافی، چاکلیٹ، چٹ پٹی اشیاء اور مشروبات استعمال نہ کرنے کی ترغیب دیں، جب کہ فیڈر سے دودھ پلانے والی مائیں ہر بار فیڈر اور نپل دھوکر استعمال کریں تاکہ جراثیم پیٹ کے اندر جاکر مروڑ اور دست کا سبب نہ بنیں۔lll