یہ بچوں کی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں، اس کے اسباب و نتائج میں وہ خاص سے عام کی طرف جاتے ہیں۔ اس سے ان کی ذہنی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ تمام اشیا کا سبب ایک ہی ہے، اور سارے اعمال میں ایک ہی سا نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ ایک تین برس کا بچہ یہ کرسکتا ہے کہ وہ گرم پانی روٹی پر ڈال دے اور یہ سمجھے کہ روٹی پانی میں جذب ہوجائے گی، جیسے شکر دودھ میں گھل جاتی ہے۔ اس کا یہ نتائج اخذ کرنا ذہن کی تیز رفتاری کا تو مظہر ہے، لیکن ظاہر ہے کہ غلط ہے۔ اس کی فکر، اور اس کی توجیہہ سب غلط ہیں۔ اس کی غلطی یہ ہے کہ اس نے روٹی کو شکر کی طرح سمجھا، محض یہ دیکھ کر کہ شکر دودھ میں گھل جاتی ہے، یہ نہ دیکھا کہ روٹی اور شکر کتنی الگ الگ اور مختلف ہیں۔
بچے اکثرچیزوں کے اسباب کا پتہ لگانے میں چوک جاتے ہیں۔ ذرا سی مشابہت دیکھ کر وہ جلدی سے نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور ایسی توجیہیں پیش کردیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کبھی ایک بچہ اپنی ماں سے اس بات پر جھگڑسکتا ہے کہ دودھ اس لیے سفید ہوتا ہے کہ گائے سفید رنگ کی ہوتی ہے۔ اور دوسرے دن وہ یہ رائے بھی قائم کرسکتا ہے کہ کیونکہ دودھ ٹھنڈا ہے اس لیے گائے بھی ٹھنڈی ہوگی۔ اس قسم کیچیزیںمضحکہ خیز ضرور ہیں لیکن ان سے یہ بھی اندازہ ہوسکے گا کہ بچہ کا ذہن اسباب کی تلاش میں کیسی کیسی جستجو کرتا ہے۔ اب یہیں سے والدین کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ کہ وہ ادراک کی اصلاح کریں، اور صحیح اسباب کی تلاش میں بچہ کو لگادیں۔ اور اس کی غلطی اس پر نہایت نرمی اور محبت سے واضح کردیں۔
بچوں کی اس قوت و صلاحیت کی تربیت کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسے آسانی کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت کی بھی تربیت ہونی چاہیے،یعنی بچہ جو نتیجہ اخذ کرے وہ غلط اورحقیقت سے دور نہ ہو۔
بچہ جن چیزوں میں گھراہوتا ہے، انھیں دیکھ دیکھ کر طرح طرح کے سوالات کرتا ہے، ماں باپ جواب نہیں دیتے، سوچتے ہیں ، صرف پریشان کرنے کے لیے ، یہ سوال کررہا ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے، بچہ کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ جستجو کرے۔ اب اگر اسے صحیح اطلاع دی جائے، ٹھیک باتیں بتائی جائیں تو نہ وہ نتائج اخذ کرنے میں غلطی کرے گا نہ اسباب غلط بتائے گا۔
بچوں کا مقصد کثرتِ سوال سے یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ابا کو خواہ مخواہ پریشان کریں۔ وہ یہ سوالات اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں چیزوں کو سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جان لاک، مشہور انگریز ماہر تربیت کا قول ہے: ’’ بچہ کا رجحان زیادہ سے زیادہ سوال کرنے کی طرف بڑھاؤ، جہاں تک ہوسکے اس کو درست کرو۔‘‘
اس لیے والدین کوچاہیے کہ وہ بچوں کو زیادہ پوچھ گچھ اور سوالات کرنے کی طرف مائل کریں، اوران کے نئی نئی باتیں جاننے کے شوق کو پروان چڑھائیں۔ ساتھ ہی ان کے سوالات کے شافی اور کافی جوابات دیں۔ تاکہ بچہ خود ہی صحیح بنیادوں پر اسباب تلاش کرنے کی صلاحیت حاصل کرے اور نتائج تک پہنچنے لگے۔ اس کی توجیہہ و تعلیل بالکل ٹھیک ہو۔ اس طرح اس کی ذہانت و ذکاوت سست نہیں پڑے گی اور ہمیشہ وہ علم و معرفت کے اسباب کے لیے دوسروں ہی کا منہ نہیں تکا کرے گا۔
بعض اوقات بچوں کے سوالات واقعی بے تکے ہوتے ہیں، اور ان کا جواب دینا درحقیقت بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ پوری سادگی سے پوچھ بیٹھے گا ’’آسمان نیلا کیوں ہے؟درخت ہلتے کیوں ہیں، اور ریل چلتی کیوں ہے؟ سوئچ دبانے سے بجلی کا بلب کیسے روشن ہوجاتا ہے؟ چاند کبھی چھوٹا اور کبھی بڑا کیوں ہوتا ہے؟ انسان پیدا کیسے ہوتا ہے؟ لیکن ان بے تکے سوالوں کا بھی اس طرح جواب دیاجاسکتا ہے کہ بچہ کی جاننے کی صلاحیت اور علم حاصل کرنے کے شوق کو نقصان نہ پہنچے، اور اس کے علم میں کسی نہ کسی حد تک اضافہ بھی ہوجائے۔
ایک واقعہ سنیے
’’ایک دفعہ کوئی چار برس کی بچی نے روشن دان کے شیشے پر ایک شہد کی مکھی بیٹھی دیکھی۔ اس نے چاہا کہ مکھی کو پکڑلے، ماں نے منع کیا، خبردار ڈنک مار دے گی؟ بچی نے فوراً پوچھا، امی یہ شیشہ کیوں نہیں ڈنک مارتا۔ اسے تو ہم روز چھوتے ہیں؟ ماں نے کہا: اس لیے کہ شیشہ اعصاب نہیں رکھتا۔ بچی بھلا کیوں چپ رہتی، پوچھنے لگی: اعصاب کیا؟ ننھے بچے بہت سی ایسی باتیں پوچھتے ہیں، جنھیں وہ سمجھ نہیں سکتے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان سوالات کی رو میں انھیں کام کی باتیں بھی معلوم ہوجاتی ہیں۔
جارج ایلیٹ مشہور انگریز خاتون لکھتی ہے: ’’اگر ہر بات کی دلیل تم نے بچہ کو بتادی تو اسے ناکارہ کردیا؟ ان الفاظ سے اس کا مقصد یہ ہے کہ بہت سی باریک اور نازک باتیں بچہ پوچھ بیٹھتا ہے۔ ان پر تقریر کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ ایسا جواب دیا جائے جو بچہ کے ذہن اور عمر سے مناسبت رکھتا ہو۔ اور اسے آپ بھی صحیح سمت میں غوروفکر پر آ مادہ کریں۔ بلکہ بعض اوقات بچہ کو غوروفکر کے لیے صحیح سمت دے دینا ہی اسے حقیقت کو سمجھا دینے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
بچہ اور آدمی میں فرق:
غوروفکر ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ جو خدا نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے۔ جس طرح پختہ عمر کا آدمی سوچتا ہے، اسی طرح ننھی سی عمر کا بچہ بھی سوچتا ہے۔ لیکن ان دونوں کی سوچ میں فرق جو کچھ ہے وہ درجہ، طریقہ اور تربیت کا ہے۔ ایک اچھی عمر کے آدمی کی فکر منظم اور مرتب ہوگی۔ بچہ کی فکر سطحی ، غیر مرتب اور غیر منطقی ہوگی۔ بچہ تین برس کی عمرتک پہنچتے پہنچتے اپنی فکر پسندی کی علامتیں ظاہر کرنے لگتاہے۔ جب کھیلے گا تو بچہ کچھ نہ کچھ سوال ضرور کرے گا۔ کھیل کا ساتھی چلا جائے گا، تو اس کے بارے میں سوالات۔ اگر اس کا پیالہ ٹوٹ جائے، یا بادل گرجے، یا کسی چڑیا پر نظر ہے تو ضرور کچھ نہ کچھ پوچھے گا۔ لیکن ان تمام سوالات کی روح یہ ہوگی، کہ گویا وہ علم و اطلاع حاصل کرنا چاہتے ہے۔
بچہ کی ذکاوت اور ذہانت کا اندازہ اس کی باتوں اس کی تشبیہوں اور توجیہوں سے ہوتا ہے، اگر آپ بچوں کی باتوں پر کان دھریں تو بہت سے جواہر ریزے آپ کو ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین تعلیم و تربیت بچوں کو بڑوں کا استاد بھی تصور کرتے ہیں۔ تربیت کا اہم ترین حصہ یہ بھی ہے کہ والدین اور مدرسہ کی صورت میں اساتذہ بچوں کے اسی شوق علم اور ان کی ذہنی قوت توجیہ پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے بڑھانے کی کوشش کریں۔