بچوں کا سوال کرنا اور اختلاف رائے

ڈاکٹر جاوید انور

بزرگوں کے احترام کا ہمیں خصوصی درس دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ بچے کو بزرگوں کی اس دانش سے آگاہی ہو جو انھوں نے زندگی کے بہت سے تجربوں سے سیکھی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن بچوں کے بڑوں کے سامنے بولنے اور سوال کرنے کو بھی بے ادبی تصور کیا جاتا ہے۔ اور انہیں بڑوں کے سامنے کچھ کہنے اور سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ چیز تربیتی نقطۂ نظر سے بھی اور بچوں کی شخصیت کے ارتقاء کے پہلو سے بھی درست نہیں کیونکہ :

(۱) اس طرح والدین یا بزرگ خدا کا منصب سنبھال لیتے ہیں۔ حالانکہ ہم کبھی بھی مکمل طور پر درست نہیں ہوسکتے۔ یوں بچوں کی طرف سے کیے جانے والے چند اختلافات ان وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہوں اور ہم غلط۔ ماں یا باپ جس کا ہمیشہ یہ نظریہ ہو کہ بچہ اس کی ہر بات سے اتفاق کرے حقیقتاً ذہن میں یہ خیال لیے ہوئے ہوتا ہے کہ ان کی ہر بات کو مانا جانا چاہیے کیونکہ ان کا کہا ایک بزرگ کا کہا ہے اور بچوں کو بزرگوں کی بات بہر حال ماننی چاہیے۔ حیرت انگیز طور پر ایسا ہی کوئی فرد بڑوں سے اس احمقانہ اتفاق رائے کا تقاضا نہیں کرے گا لیکن جب اسی بات سے کوئی بچہ اختلاف کرے گا تو وہ اسے بزرگوں کی پگڑی سے کھیلنے کے مترادف سمجھیں گے۔

ایسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خیالات اور اعتقادات کی ناپسندیدگی کو شخصیت کی ناپسندیدگی سمجھنے لگتے ہیں۔ انھیں یقین ہوتا ہے کہ جو بچہ ان کے اعتقادات کے بارے میں مشکوک ہے یقینا ان کی شخصیت کو بھی درخور اعتناء نہیں سمجھتا۔ یہ ایک غلط فہمی ہے جو والدین اور بزرگوں کو اپنے ذہن سے نکال دینی چاہیے۔

بالغ نظر، سنجیدہ اور پر اعتماد ماں باپ جانتے ہیں کہ ان کی منطق خدائی منطق نہیں سو وہ اپنے خیالات سے اختلاف کو اپنی ذات اور اپنی اہمیت پر حملہ نہیں سمجھتے۔ وہ اپنی رائے سے اختلاف کو اپنی شخصیت سے اختلاف نہیں سمجھتے۔ سو احترام کسی کو بھی اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا سیکھ لیتا ہے۔ اس لیے ہمیں بچوں کے اس حق کا بھی احترام کرنا سیکھنا چاہیے۔

(۲) خاموشی کا مطلب رضا مندی نہیں ہوتا۔ کسی بچے کو اپنے سامنے خاموش کرواکے اس سے اپنے احکام کی تعمیل کرالینا اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ حقیقتاً آپ کے کہے سے متفق ہے۔ کیونکہ بچے کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ بات مانے، سو اس کا اختلاف رائے اتنا ہی شدید رہے گا جتنا کہ تھا بلکہ بڑھ جانے کے امکانات بھی کافی ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ مستقبل میں بچے کے خیالات تبدیل کرنے کے تمام دروازے بند کردیتے ہیں۔ بعض اوقات اس طرز عمل کے سبب بچے کے اندر نفرت اور بغاوت کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں جو بعد کی زندگی میں تلخیوں اور خراب تعلقات کی صورت میں نظر آتے ہیں۔

(۳) ایسا کرنے سے بچے میں غوروفکر کرنے کی عادت پروان نہیں چڑھتی۔ اگر ہم اپنے بچے کو ایسی بلوغت کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ اپنا راستہ خود تلاش کرے تو ہمیں اس کے راست انداز فکر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اگر فیصلہ ہمیشہ بزرگوںہی کو کرنا ہے تو بچے میں خود انحصاری اور خود اعتمادی پیدا نہیں ہوگی۔ بزرگوں پر اس کا انحصار اور زیادہ بڑھ جائے گا۔

بچے کو راست انداز فکر سکھانے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ اس کی بات غور سے سنی جائے بغیر اس تعصب کے کہ وہ کس سے اختلاف کررہا ہے۔

(۴) یہ بچے کو جھوٹ کا راستہ دکھاتا ہے۔ کسی بھی بات سے بچے کا اختلاف اس مخلص یقین پر ہوتا ہے کہ وہ صحیح سوچ رہا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ انتہائی غلط ہو لیکن جب تک اسے یہ بات دکھائی نہیں جائے گی اور اس کی اصلاح نہیں ہوگی وہ اپنی رائے پر قائم رہے گا۔ یوں جب بھی خود پسند قسم کے باپ ماں بچے سے ہر بات ماننے کا تقاضا کرتے ہیں تو حقیقت میں وہ اسے جھوٹ بولنے کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ اسے اپنی رائے کا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بچے پر اپنے نظریات ٹھونسنے کی بجائے ہمیں اس کے اختلاف رائے کے حق کو ماننا چاہیے اور مناسب طریقے اور دلائل کی بنیاد پر بچے کو قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم اس کے نظریات بدل نہیں سکتے تو اسے اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر ہم درست ہیں تو ایک نہ ایک دن بچے کو خود بخود اندازہ ہوجائے گا۔

(۵) یہ بچے میں احساس گناہ پیدا کرتا ہے کیونکہ جب بھی وہ ماں باپ کی کسی بات سے اختلاف کرے اور اسے بتایا جائے کہ اس نے خدا کے احکام کی نافرمانی کی ہے تو اس کے اندر بدی اور عیاری کا شدید احساس جگہ کرجائے گا۔ اس مغالطے کی جڑ احترام اور اختلاف رائے میں پایا جانے والا الجھاؤ ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بچہ آپ کا شدید احترام کرتا ہو، اس کے باوجود اسے آپ کی بات سے اتفاق نہ ہو۔ مستقل احساس گناہ بچے کو اپنے آپ سے متنفر کردیتا ہے اور کسی نفسیاتی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔

(۶) یہ مغالطہ بچے کو اپنے جذبات پر قابو پانے کے واحد ہتھیار یعنی دلیل دینے کی صلاحیت سے محروم کرتا ہے۔ بچے کی بہتری کے لیے ضرورت ہے کہ اسے عقل کا استعمال سکھایا جائے اور اس پر عیاں کیا جائے کہ اس کے خیالات کتنے غیر عقلی اور مہمل ہیں۔ چاہے اس کا مرض بستر پر پیشاب کرنا ہو یا اسکول میں اچھے نمبر نہ لینا۔ بچے کے غلط انداز فکر کی اصلاح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے دلیل دینے، اپنے اعتقادات کے بارے میں سوال پوچھنے، اپنے آپ سے اور بزرگوں سے مباحثہ کرنے اور ہر بات پر اس وقت تک مشکوک رہنے کی جب تک کہ پتہ نہ چل جائے کہ یہ ٹھیک کیوں ہے وغیرہ حوصلہ افزائی کی جائے۔

اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں رہ جاتا ہے کہ ہمارے اپنے بنائے ہوئے اعتقادات ذہنی اختلاج کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے اثرات علاج کے اثرات سے بالکل متضاد ہوتے ہیں۔ غلط اعتقاد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سوال کرنے اور دلیل دینے والے کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جبکہ علاج اس کی حوصلہ افزائی سکھاتا ہے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ اس مغالطے پر قائم رہنے والے والدین مستقبل کے جذباتی درد کے بیج بورہے ہوتے ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں