بچوں کوٹی وی ویڈیو گیمز سے بچائیے

ناصرہ بیگم، حیدرآباد

آج کل کم عمر بچوں میں ٹی وی دیکھنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مائیں گھر کا کام کاج جلدنمٹانے کے لیے چھوٹے بچوں کو ٹی وی لگا کر دے دیتی ہیں تاکہ وہ آرام سے بیٹھ کر ٹی وی پروگرام دیکھتے رہیں۔ وقتی طور پر تو یہ طریقہ ماؤں کے لیے بہت مفید ثابت ہوتا ہے مگر اس کے نتائج بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنے والے بچے اپنی پڑھائی پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ آج کل کیبل ٹی وی کی بدولت مختلف قسم کے پروگراموں کی بھر مار ہوچکی ہے۔ بچے جب یہ پروگرام دیکھتے ہیں تو وہ اسی کلچر کو اپنانا شروع کردیتے ہیں کیونکہ ان کا ذہن ابھی اس قدر پختہ نہیں ہوتا کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکیں۔ مسز عامر ایک ہاؤس وائف ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ گھر کے کام کاج کرنے کے دوران اپنی پانچ سالہ بیٹی کو ٹی وی لگا کر دیتی تھیں۔ اس طرح سے وہ بھی اپنے کام اچھی طرح سے نمٹالیتیں اور ان کی بیٹی بھی خوش رہتی۔ مگر آہستہ آہستہ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی بیٹی نہ صرف پڑھائی میں کم دھیان دے رہی ہے بلکہ حد سے زیادہ چڑچڑی اور بدتمیز ہوتی جارہی ہے۔ مسز عامر نے اپنی بیٹی کے اس رویے کا ذمہ دار خود کو ٹھہرایا اور آہستہ آہستہ اسے ٹی وی سے دور کرکے اس کے ساتھ خود وقت گزارنا شروع کیا تو اس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ہم اکثر و بیشتر اپنی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے جس کی وجہ سے وہ دوسری سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جن میں ٹی وی دیکھنا اور ویڈیو گیمز کھیلنا بہت عام ہیں۔ ظاہری طور پر دیکھا جائے تو یہ دونوں طریقے تفریح حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں مگر بچوں کے دماغ پر ان کے اثرات منفی ہوتے ہیں۔

ایک جدید تحقیق کے مطابق ٹی وی، کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچوں میں ہائپر ایکٹیویٹی اور موٹاپے کے امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات دوسرے ہم عمر بچوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ لگاتار ٹی وی دیکھنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے کے باعث دماغ ہر وقت چست رہنے لگتا ہے جس کا نتیجہ ہائپر ایکٹیویٹی سنڈ روم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا بچے نہ تو زیادہ دیر تک بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی توجہ کسی چیز پر مرکوز رکھ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کاتعلیم پر سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور وہ بہت جلد منفی رجحانات کو اپنا لیتے ہیں۔ ایسے بچے اخلاقی طور پر تباہ ہوجاتے ہیں۔

آج کل تقریباً سارے بچے مختلف چینلز دیکھنے کی بدولت ، جن میں ماردھاڑ اور جرائم کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی عشق و محبت کے قصے ہوتے ہیں، ایک نئے کلچر کو اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ٹی وی پر دیکھی ہوئی بہت ساری چیزوں کا عملی تجربہ بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کی زندگی اور ہماری سماجی، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کی تباہی کا باعث ہے۔ بلکہ بعض اوقات ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے جب ننھے منے بچوں نے اپنے پسندیدہ کارٹونز کی نقل کرتے ہوئے یا تو چھت سے چھلانگ لگادی یا پھر اپنے آپ کو کسی صورت میں نقصان پہنچالیا۔

نفسیاتی ماہرین کے مطابق دو سے تین سال کے بچوں کو کبھی بھی ٹی وی نہیں دکھانا چاہیے۔ جبکہ پانچ سال کے بچے آدھا گھنٹہ، بارہ سال کے بچے ایک گھنٹہ اور پندرہ سال کے بچے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ ٹی وی دیکھیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کو فاضل وقت میں کسی مثبت سرگرمی میں مصروف رکھیں جیسے باغبانی، پینٹنگ یا کتابوں کا مطالعہ یا پھر وہ اپنی مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیں کہ بچوں کی غیر موجودگی میں ضروری کاموں کو نمٹا کر باقی وقت ان کے لیے فارغ کریں تاکہ ان کے وقت کا مناسب ترین استعمال ہو اور والدین بچوں کے ساتھ کھیل کود اور مناسب و معقول تفریح بھی فراہم کرسکیں۔

ٹی وی اور ویڈیو گیمز کی وجہ سے جہاں بچے جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں وہیں ذہنی طور پر بھی الجھ جاتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔

بچوں کی بھر پور نشونما کے لیے والدین کی بھر پور توجہ ضروری ہے تاکہ بچے ٹی وی اور ویڈیو گیمز جیسی اشیاء کو استعمال کرنے کے عادی نہ ہوں ورنہ تنہائی کا شکار بچوں کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146