سنٹرل بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) کے امتحانات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں طلبہ سے زیادہ والدین کی تشویش اور ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور طلبہ پڑھائی سے زیادہ والدین کے دباؤ میں آتے جارہے ہیں۔والدین کو اس بات کی فکر ہے کہ کیسے ان کا بچہ زیادہ بہتر گریڈ حاصل کرے اور ٹاپرس کی فہرست میں اپنا نام درج کرائے۔
’’میں بارہویں کلاس میں پڑھتی ہوں۔ میں نروس ہورہی ہوں کیونکہ میرے والد کا سخت اصرار ہے کہ مجھے 90%سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے ہیں۔ اور وہ اس کے لیے مسلسل مجھ پر دباؤ بنائے رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں ہر وقت بس پڑھتی اور پڑھتی ہی رہوں۔ نہ باہر جاؤں، نہ فون پر بات کروں اور نہ بھائی بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپی اور بات چیت کروں۔‘‘ یہ حال صرف اسی طالبہ کا نہیں بلکہ سیکڑوں ہزاروں طلبہ و طالبات کا ہے جنھیں اگلے ماہ امتحانات میں شریک ہونا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طلبہ سے زیادہ امتحانات کا بوجھ ان کے والدین پر سوار ہے جس کے سبب بچوں کی عام زندگی معطل ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سے ان پر امتحان کا ذہنی دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے اور ان کی قوت کار بھی متاثر ہوتی ہے۔
دہلی میں اس وقت امتحان کاؤنسلر اور ہیلپ لائنوں پر زیادہ تر کال بچوں کے والدین کی ہوتی ہیں۔ وہ زیادہ تر پریکٹیکل امتحان کے بارے میں پوچھتے ہیں۔‘‘ یہ کہنا ہے ڈی پی ایس آر کے پورم کے کاؤنسلر کا، وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’والدین میں سے کوئی نہ کوئی آج کل آفس سے چھٹی لے کرگھر پر رہنا پسند کرتا ہے تاکہبچے کی تعلیم کی نگرانی کی جاسکے۔‘‘ بچوں کی نگرانی ٹھیک ہے لیکن ان کے سر پر اس طرح سوار ہوجانا کہ ان کی عام معمول کی زندگی متاثر ہونے لگے اور وہ خود کو نروس محسوس کرنے لگیں کسی بھی طرح ان کے مستقبل کے لیے مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔ والدین کا یہ دباؤ اور اچھا گریڈ لانے کی تمنا ایک طرف تو ان میں تناؤں پیدا کرتے ہیں، دوسری طرف امیدوں پر کھرا نہ اتر پانے کی صورت میں مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال کئی طلبہ و طالبات سی بی ایس ای کا رزلٹ آنے کے بعد خود کشی کرلیتے ہیں اور اس طرح کے واقعات ہمارے سماج میں بہ تدریج بڑھتے جارہے ہیں۔
امتحان بہ ہر حال امتحان ہے۔ چاہے سی بی ایس ای کا ہو طلبہ کا عام سالانہ یا ششماہی امتحان، اگر اسے ایک غیر معمولی ذہنی بوجھ کا سبب بنالیا جائے تو بہتر نتائج کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ذہنی تناؤ سے آزاد اور خوش و خرم ماحول ہی بچوں کی تیاری اور اچھا کر دکھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اور اس سے بچے کی قوت کار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہنسی خوشی رہنا آپس میں خوش گپیاں (مناسب حد تک ) اور کھیل کود و چہل قدمی و تفریح بچوں پر اچھے اثرات مرتب کرتے اور امتحان کی بہتر تیاری میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ بچے ان دنوں خود اپنے آپ بھی امتحان کے سلسلہ میں فکر مند ہوتے ہیں اور لا ابالی قسم کے طلبہ و طالبات بھی ان دنوں امتحان کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ایسے میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے ٹینشن کو ختم کرنے کا ذریعہ بنیں نہ کہ مزید اپنے ٹینشن کا بوجھ ڈال کر بچوں کو اضافی ذہنی دباؤ میں مبتلا کریں۔
والدین کے لیے قابل توجہ
ان دنوں میں والدین کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچے کی ذہنی اور جسمانی صحت پر خاص نظر رکھیں۔ ذہنی صحت کا مطلب ہے کہ اسے نہ خود امتحان کی تیاری کے دباؤ میں مبتلا کریں اور نہ اسے خود اس میں مبتلا ہونے دیں۔ اگر یہ محسوس ہو کہ بچہ پڑھائی کے سلسلہ میں بہت زیادہ پریشان ہے اور غیر معمولی حد تک رات کو جاگ رہا ہے تو اسے تسلی دلائیں اور ممکنہ حد تک اس کی تیاری میں مدد دیں۔ ایسے طریقے اور ٹیکنکس اسے سجھائیں جن کو استعمال کرکے اس کی ذہنی صلاحیت اور سمجھنے کی قوت میں اضافہ ہو۔ اگر اس کے ایک دو یا سبھی مضامین میں اس کی عملی مدد کرسکتے ہیں تو ضرور کریں اور اس کے سوالوں کو حل کرنے میں معاون ہوں۔ نیز اسے تسلی دیں کہ امتحان امتحان ہے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں اس طرح اسے ذہنی سکون حاصل ہوگا اور ذہنی صلاحیت یکجا و یکسو ہوگی جو یقینا اس کی تیاری میں مدد دے گی۔
جسمانی صحت کا خیال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ مناسب غذا اور ضروری حد تک معمول کے کھیل کود میں اس کی شرکت کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس سے جسم بھی فٹ رہے گا اور ذہن بھی۔ کیونکہ ان دنوں بچے کی ذہنی و جسمانی قوتوں کا نسبتاً زیادہ استعمال ہورہا ہے اس لیے متوازن، جلد ہضم ہونے والی اور قوت بخش غذا اسے فراہم کریں۔ اگر بچہ دیر تک جاگتا ہے تو اس کے وقت وقت پر ریفرشمنٹ کے لیے ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں یا مشروب بناکر دے دیا جائے تو بہتر ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی گھومنے پھرنے کے لیے بھی اگر ساتھ لے جائیں تو بہتر ہے۔
ہم سب مسلمان ہیں اور بہ حیثیت مومن ہمیں سب کچھ اللہ ہی سے مانگنا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس بات کی تلقین کرنی چاہیے کہ وہ نماز پابندی سے پڑھیں اور اپنی اچھی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ یہاں یہ بتانا نامناسب نہ ہوگا کہ مضمون نگار جس اسکول میں پڑھتا تھا وہاں بچوں کو اس طرف متوجہ کیا جاتا تھا۔ صبح کو اسکول کی دعا سے پہلے بچوں کی ایک بھیڑ ہوتی تھی جو اسکول کے سامنے والی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کے لیے پہنچتی تھی اور سبھی بچے خوش خوش امتحان گاہ پہنچتے تھے۔ اور امتحان حال کے لیے جہاں پرچہ حل کرنے سے پہلے بہت سی ہدایات دی جاتی تھیں وہیں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ پرچہ ہاتھ میں آتے ہی یہ دعا پڑھیں:
رَبِّ یَسِّرْ وَ لَاتُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ۔
’’اے میرے رب! اسے میرے لیے آسان کردے اور مشکل نہ بنا اور خیر کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔‘‘
اس کے علاوہ والدین کو چاہیے کہ وہ درج ذیل چیزوں پر خاص دھیان دیں:
٭ بچے کے ساتھ نہ خود ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کریں اور نہ دوسروں کو کرنے دیں۔
٭ اپنے بچوں کا دوسروں سے مقابلہ نہ کریں۔
٭ گھر میں پرسکون اور پڑھنے کا ماحول بنائے رکھیں۔
٭ بچے کی غذا اور مناسب آرام کا خیال رکھیں۔
٭ امتحان کا بھوت اس پر سوار نہ کریں۔
٭ یاد رکھیں کہ بچہ کوئی مشین نہیں جو مسلسل گھنٹوں چلتی رہے۔
٭ پڑھائی کے دوران وقفہ اور چند منٹ آرام کی تلقین کریں۔
٭ بچے کی مشکلات کو دیکھیں اور سمجھیں انہیں خود حل کریں یا مناسب فرد کو اس کام پر لگائیں۔
بعض طلبہ کے ساتھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ گھر سے ایک سوال کا جواب اچھی طرح تیار کرکے جاتے ہیں مگر امتحان ہال میں اگر وہی سوال آجاتا ہے تو اس کا جواب بھول جاتے ہیں۔ ایسا اکثر ذہنی دباؤ کے سبب ہوتا ہے۔ اس لیے ہر طرح سے اسے ’تناؤ مکت‘ بنائیں۔ اپنے جگر گوشوں کی اچھی کامیابی کے لیے دعا کریں اور نتیجہ اللہ کے سپرد کرکے مطمئن ہوجائیں۔