حمیدہ خود غرض کیوں ہے؟ سلیم ہمیشہ پریشان کیوں رہتا ہے؟ ریحان مہذب اور خوش اخلاق نہیں، نجمہ اپنے خدا داد جوہروں سے کام نہیں لیتی، مہذب والدین کا بیٹا مودب اور شائستہ قسم کے سوالات کے بارے میں کیوں نہیں سوچتا؟ آپ اپنے بچوں کو اپنی خواہشات کے مطابق تربیت کیوں نہیں دے سکتے؟ بچوں میں اپنی بھلائی کااحساس کیوں نہیں ابھرتا؟
ماہرینِ نفسیات نے ان سوالات کی بہت سی توجیہات کی ہیں اور ان سے احسن طریق سے نباہ کے خوب تر طریقے بھی بتائے ہیں، لیکن وہ ایک بات پر مصر ہیں۔ بچوں کے بارے میں والدین اس لیے فکر مند رہتے ہیں کہ وہ بچوں سے اس قسم کی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں، جنھیں پورا کرنے کی استعداد بچوں میں نہیں ہوتی اور خود والدین بھی اس قسم کی امیدوں بھرے امتحان میں پورے نہیں اترے ہوتے۔ سلیم صاحب ہمیشہ پریشان رہتے ہیں کہ ان کے دو بچے ذہین ہونے کے باوجود ڈاکٹر بننے کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتے۔ ان کے ذہن کے نہاں خانے میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ اپنے والد کی طرح وہ بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ سلیم صاحب لاشعوری طور پر اپنے بچوں کو وہ کچھ بنانے پر بضد ہیں، جس کی اہلیت ان کے بچوں میں نہیں اور نہ خود ان میں تھی۔
ہر انسان کی شخصیت میں، خواہ وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں، خلا ضرور ہوتا ہے۔ میری بیوی مرغیوں سے بڑی خوف زدہ ہے، وہ ان کو ہاتھ لگانے سے گھبراتی اور پَر چھونے سے کتراتی ہے، یہاں تک کہ مرغ کا گوشت کھانا بھی اسے منظور نہیں۔ اس کے برعکس وہ اپنے بچوں کو مرغ سے خائف ہونے پر ڈانتی ہے۔ اسی طرح بعض افراد کتوں سے بری طرح ڈرتے ہیں، اور اس خوف سے وہ آخر تک نجات حاصل نہیں کرپاتے، چنانچہ ان کے بچے بھی اس قسم کا خوف پالے رہتے ہیں۔ یاد رکھئے والدین گھر کے پورے ماحول پر حاوی ہوتے ہیں اور بچے ان کی شخصیت کا پرتو۔ شخصیت کی چھاپ کے اثرات، مثلاً غلط روی، ماحول سے نباہ کے طریقے اور کردار بچوں میں پوری طرح رج بس جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اچھے اور مہذب والدین پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں چند مفروضات گھڑ لیتے ہیں۔ بجائے اس کہ وہ ان مفروضات پر بچوں کی ذہنی افتاد مدنظر رکھتے ہوئے دیانت داری سے سوچیں، وہ ان پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ والدین کو مایوسی ہوتی ہے۔
والدین کو بچوں کا یہ چیلنج قبول کرلینا چاہیے کہ وہ ہو بہو ویسے نہیں اور کاربن کاپی کی طرح ہماری چھاپ نہیں ہیں۔ ان پر ماموں، چچا، خالہ ، پھوپھی اور دادا ،دادی کے اثرات کے علاوہ مدتوں کے بھولے ہوئے اجداد کی شخصیت کے نقوش بھی ہوتے ہیں اور ہمیں اس یقین باطل سے باہر نکلنا چاہیے کہ ہمارے بچے جب بھی ہمارے پاس ہوں وہ کورے کاغذ کی طرح نظر آئیں، جس پر جب اور جو چاہیں، لکھا جاسکے۔ بچے آپ سے اثر ضرور قبول کرتے ہیں، لیکن باقی رشتے داروں کے علاوہ اپنے ہم جولیوں کے کردار بھی ان کی توجہ کا باعث بنتے ہیں۔ دوستوں کے والدین اور رشتہ داروں اور سب سے بڑھ کر استاد کے کردار سے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ ان سب سے بچہ خود اپنی شخصیت بناتا ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ ہر بچہ اس دنیا میں اپنا مزاج الگ لے کر آتا ہے۔ یومِ پیدائش ہی سے بچے ایک دوسرے سے قدوقامت، وزن، جسم اور بالوں کی رنگت کے علاوہ پنپنے کے طور طریقوں سے بھی مختلف ہوتے ہیں، بعض بچے ہوشیار، موقع شناس اور مہذب ہوتے ہیں، بعض خاموش فطرت، دھن کے پکے اور ضدی۔ چند بچے چیزوں کے حصول کے لیے چیختے چلاتے ہیں اور چند مشکل ہی سے واویلا کرتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ حمیدہ، رشیدہ نہیں اور رشیدہ،حمیدہ نہیں۔ والدین اپنی تمام کوششوں کے باوجود رشیدہ کو حمیدہ میں نہیں بدل سکتے اور وہ اس تلخ حقیقت سے منحرف نہیں ہوسکتے کہ حمیدہ کے لیے تو وہ بہترین والدین ثابت ہوئے ہیں، لیکن رشیدہ کے لیے نہیں اور اسے موروثی اتفاق کہنا چاہیے کہ ایک بچہ گوارا سی شخصیت ہے، جو ہر ماحول میں نباہ کرسکتا ہے۔
والدین کو دنیادی چیلنج بھی قبول کرلینا چاہیے۔ وہ دنیا جس میں یہ بچے پرورش پارہے ہیں، ان کی اپنی دنیا سے مختلف ہے۔ دنیا اور دنیا کے تقاضے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں کسی طور تبدیلی ضرور ہورہی ہے۔ نئی پود، بدلے ہوئے ذہن، نئی قدریں، اپنی شخصیت اور اپنی راہیں لے کر ابھرتی ہے۔ بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ ہر چیز اور مشکل کو بچے کے بدلے ہوئے ذہن کے مطابق لیا جائے۔ ’’ہم جب چھوٹے سے تھے تو ایسا کبھی نہ کرتے تھے۔‘‘ والدین اکثر یہی کہتے ہیں، لیکن آہ! ہم ایسا کرتے تھے اور ہم یہ سب کچھ بھول گئے ہیں۔ ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ ہم جب کرسی جتنا قدوقامت رکھتے تھے تو کیا سوچتے تھے۔ کس بات پر اصرارکرتے تھے اور مایوسی کے وقت ہماری کیا حالت ہوتی تھی اور اب بحیثیت والدین ہم کو یہ سب باتیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئیں، بلکہ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ تیزی سے بدلتے ہوئے تقاضوں نے ہمارے اور بچوں کے درمیان کتنی بڑی خلیج حائل کردی ہے، جسے ہم ایک ہی جست میں پھلانگ نہیں سکتے۔ ہماری پریشانیوں کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں دو نسلوں کے درمیان اس خلیج کا احساس نہیں ہوتا، ہم اس خلیج کے وجود کو نظر انداز کرکے جست لگاتے ہیں تو — خود ہمیں چوٹ لگتی ہے۔
بچے والدین کے محصور ماحول ہی میں نہیں رہتے، بلکہ گھر کے علاوہ گلی، محلے اور اسکول کے ماحول میں بھی شخصیت کے تاروپود بنانے کے بعد کالج اور وسیع سماجی ماحول میں شخصیت کی نوک پلک سنوارتے ہیں۔ بچے ہر ماحول کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا چاہتے ہیں، جسے والدین کی محدود نظریں بھانپ نہیں سکتیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ریحان پڑھے لکھے، لیکن ممکن ہے ریحان کا بہت زیادہ کتابی کیڑا بننا، اس کے ہم جولیوں میں اسے قابل نفریں بنادے۔ والدین اسے تابعدار بنانا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے دوسرے بچوں کی نظروں میں وہ جی حضور، چاپلوس اور کم زور ہو۔ اس طرح بچے جب ایک ماحول کے تقاضے ٹھیک طور سے پورے نہ کررہے ہوں تو ان میں احساس کم تری پیدا ہوجاتا ہے، چنانچہ شخصیت کی اساس میں رخنہ پڑنے لگتا ہے اور آخر کار یہ رخنہ ایک کمزور اور بھدی شخصیت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ عظیم مصور کی تصویر میں ہم نے غلط رنگ بھر دئے، ہماری پسند، ہمہ گیر نہیں ہوسکتی۔ ہمیں پسند آنے والے رنگ دوسروں کے لیے جاذب نظر نہیں ہوسکتے۔
والدین بچوں کی اس طرح پرورش نہیں کرسکتے، جس طرح کہ وہ چاہتے ہیں۔ نہ ان میں وہ سب خوبیاں پیدا کی جاسکتی ہیں، جو والدین کے نظریات کی عملی تصویریں ہوں۔ والدین انہیں اپنا حاشیہ بردار نہیں بنا سکتے (کیوں کہ اکثر والدین کی خواہش یہی ہوتی ہے) بچوں کو یہ فطری حق (والدین نے بھی اسے استعمال کیا تھا) حاصل ہے کہ وہ والدین کے ہاں پرورش پائیں اور پھر ان سے الگ ہوجائیں۔ والدین کے لیے اپنے بچوں کو حاشیہ بردار بنانا اس وقت ناممکن ہے جب بچے میں محبت کی تشنگی یا اخلاقی اور سماجی جرأت کا فقدان ہو اور وہ اپنی ہر کوشش پر مشکوک ہو اورکام یابی کو ناکامی پر محمول کرے، کیا والدین ایسی کمزور اور بے بس شخصیت بنانے پر مصر ہیں، جو سماجی اور اخلاقی قدروں کے لیے بھی ایک مذاق ہو؟
’’یوں لگتا ہے جیسے میں کوئی چیز صحیح طور پر نہیں کرسکتی۔‘‘ ایک ماں نے آہ بھر ی، جو اپنی تیرہ سالہ بچی کی سال گرہ پر تجویزیں دیتی رہی، لیکن اس نے ہر تجویز رد کردی۔ نجمہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ جو کچھ وہ کرنا چاہتی ہے اس کی امی اسے ٹھکرا دیتی ہیں۔ بے شمار لڑکیاں ہیں، لیکن ان میں اکثریت ’’نجماؤں‘‘ کی ہے، جو والدین سے محبت اور تحسین کے ماحول میں پروان چڑھی ہیں، لیکن صرف اس لیے بغاوت پر اترآئی ہیں کہ وہ اس ماحول کو، جو ان پر مسلط کردیا گیا ہے، گھٹا ہوا پاتی ہیں۔ بات بات پر والدین کی روک ٹوک، اپنے گھریلو ماحول سے نفرت پیدا کردیتی ہے اور بچے آزادی سلب ہوجانے پر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات نے بار ہا یہ بتایا ہے کہ بچوں کا کام، خاص طور پر جوان بچوں کا ، والدین پر انحصار کا رشتہ توڑنا ہے۔ اس سے ان میں خود اعتمادی ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ قوتِ فیصلہ کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو نکھارنے کے لیے مزید مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ ایک بچہ نشو ونما پاکر بالغ ہی نہیں ہوجاتا، بلکہ وہ اپنے ماضی کو کھوکر نیا پن محسوس کرتا ہے۔ اس کی ذہنی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں، اس میں اپنائیت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ حقیقت میں الجھن یہ ہے کہ والدین نہیں چاہتے کہ بچے ان کی محبت کے تمام رشتے توڑ کر ایسے بیگانے ہوجائیں، جیسے والدین خود اپنی خواہشات، خواب اور خیالات اور اپنائیت کی تکمیل کے لیے بیگانے ہوئے تھے۔ یہ صرف ذہنی ارتقا ہی نہیں، شخصیت کے لیے تکمیل کا ایک میدان ہے اور جذبات اور فکر کی ہم آہنگی کے لیے بہترین دور ہے۔ والدین اس دور میں بچوں کے جذبات اور فکر کی قوتوں کو سلب کرکے اپنی ذمہ داریوں کا نہ صرف مذاق اڑاتے ہیں، بلکہ قوم و ملت کے لیے عظیم شخصیتوں کو پروان چڑھنے سے روک کر پوری ایک نسل کے تعمیری خاکے پر سیاہی پھیر دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بچے اپنی پسند اور انحصار کے لیے آزاد ہونے کی کوشش میں کسی حد تک روکھے بھی ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ تعلقات کو توڑنے کے لیے احسن طریقے بھی ہیں، لیکن بچہ، عمر کا کچا اور ناتجربہ کار ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ایسے طریقے نہیں جانتا۔ کیا یہ والدین کی بددیانتی نہیں کہ جو کچھ وہ خود اپنی بہتری کے لیے کرچکے ہیں، وہ اپنے بچوں کو کرنے کی اجازت نہیں دیتے؟
والدین بے جا قسم کی پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ بچہ بہر حال بچہ ہے، وہ انسان کے ارتقاء کی ابتدائی منزل میں ہے، اسے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے اور اس کے لیے اسے ایک مدت درکار ہے۔ بچے کی شخصیت آہستہ آہستہ بتدریج پروان چڑھتی ہے۔ کھڑا ہونے سے پہلے وہ بیٹھنا سیکھتا ہے۔ بولنے سے پیشتر وہ توتلی زبان سے کہنے کی کوشش کرتا ہے، ہاں کا اظہار کرنے کے بجائے اسے ’’نہیں‘‘ کا استعمال آتا ہے۔ قربانی کے جذبات کی نسبت خود غرضی کے جذبات کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ اپنے آپ پر انحصار کرنے سے پہلے وہ دوسروں پر انحصار کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس کی تمام حرکات و سکنات قوانینِ پرورش کے تابع ہوتی ہیں اور اچھے والدین سوائے اس کے کہ جہاں اس کی پرورش میں کچھ خلا رہ گیا ہے۔ اسے پُر کرنے میں ممکن مدد کرسکیں اور کچھ نہیں کرسکتے۔
بچے سے مختلف قسم کی امیدیں وابستہ کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ والدین اپنے آپ سے یہ سوال کریں: ’میں اپنے بچے سے چند دن میں وہ سب کچھ سیکھنے کی کیسے امید کرسکتا ہوں، جسے خود میں نے ۲۰ یا ۳۰ سال کی عملی زندگی میں تجربے کے بعد سیکھا ہے؟ اس سوال کے بعد والدین یہ حقیقت ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے کہ بچے ہو بہو ان کی چھاپ نہیں ہوسکتے۔ ایک باپ نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں یہ شکایت کی، ’’ناہید تیرہ برس کی ہوچکی ہے، لیکن چپاتیاں ابھی تک ڈھنگ سے نہیں پکاسکتی۔ گھر کے کسی کام میں بھی دلچسپی نہیں لیتی۔ بس سارا دن گڑیوں سے کھیلتی رہتی ہے۔ اس کی ماں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہے، لیکن اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کی ماں گھریلو معاملات میں جتنی دلچسپی لیتی ہے اور جتنے عمدہ کھانے پکاتی ہے، اتنا دنیا کی کوئی عورت نہیں کرسکتی۔ پس ناہید تو نکھٹو ہے۔ اس سے شادی کون کرے گا؟‘‘اور میں اب تک سوچ رہا ہوں کہ اسے اپنی بچی سے ذرا سا پیار بھی ہے یا نہیں؟
والدین کی یہ دلیل وزنی ہے کہ بچوں کو بالکل آزادنہیں کردینا چاہیے۔ ان پر کسی حد تک نگرانی میں سختی بھی ہونی چاہیے۔ ماہرینِ نفسیات بہت زیادہ لاڈ پیار کو بچے کے لیے زہرِ قاتل بتاتے ہیں۔ اس سے بچے ذہنی طور پر خود اعتمادی کی کمی اور ذمے داریاں قبول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔ ایک شخص نے دوسری شادی کی۔ بیوی کا ایک بیٹا پہلے خاوند سے تھا۔ ماں اپنے بچے سے بہت لاڈ پیار کرتی تھی اور بچہ بلا کا جھگڑا لو تھا، چنانچہ دن میں چار پانچ مرتبہ لڑنا بھڑنا اس کامعمول تھا۔ ماں ہمیشہ بچے کی ناجائز حمایت کرتی اور اپنے خاوند سے شکایت کرتی کہ وہ بچے کی حفاظت کے متعلق قطعاً توجہ نہیں دیتا۔ میں نے اس باپ کو ایک بار یہ کہتے ہوئے سنا : ’’تم بچے کی مدد نہیں کررہیں، بلکہ اس کی دشمن ہو۔ اس میں خود اعتمادی اور اپنی حفاظت خود کرنے کے جذبات ختم کررہی ہو، جب بچہ کئی مرتبہ دوسروں سے لڑے گا اور مار کھائے گا تو اسے یہ یقین ہوجائے گا کہ اسے اپنی حفاظت خود کرنی ہے، کوئی دوسرا مدد کو نہ آئے گا۔ تم اس کی ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں سے جھگڑے مول لے کر اسے اپنے آپ پر بھروسا نہ کرنے کے جذبات کو تقویت پہنچا رہی ہو۔ اور میں یہ پسند نہیں کرتا۔‘‘ میں نے سوچا۔ ان دونوں میں حقیقی کون ہے۔ باپ یا ماں؟ خوف زدہ بچے اپنے والدین کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اپنے معاملات خود نپٹانے دیجیے۔ انھیں اپنے آپ خود کا جائزہ لینے دیجیے۔ اور خود دور کرنے میں ان کی ممکن حد تک مدد کرنا چاہیے۔
شاید آپ کے لیے یہ بات حیران کن ہو کہ بچے بھی نظم و ضبط پسند کرتے ہیں۔ وہ صرف لاڈ پیار ہی نہیں چاہتے، بلکہ نگرانی میں سختی بھی پسند کرتے ہیں۔ چند سال ہوئے ایک سروے کیا گیا تھا۔ اس سروے میں ہر پانچ میں سے ایک بچے نے اس بات کی کسی نہ کسی طور شکایت کی تھی کہ نظم و ضبط کا ان کے ہاں فقدان ہے اور تیرہ فیصد بچے یہ محسوس کرتے تھے کہ بعض سنگین حالات میں فیصلہ کن سزا قابلِ تحسین طریقہ ہے اور والدین کو سنگین حالات کا اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ان کی نگاہوں میں نظم و ضبط کی قدریں رہیں۔
شاید والدین نظم و ضبط کے ٹوٹ جانے سے اتنے زیادہ خائف نہ ہوں اگر وہ یہ سوچ سکیں کہ جزا و سزا کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتا ہے اور ہمیں ہر فیصلہ سے پیشتر سوچنا چاہیے۔ حقیقتاً سوال یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں پر زیادہ سے زیادہ قابو کس طرح پاسکتے ہیں تاکہ وہ اپنی خداداد خوبیوں کو بروئے کار لاسکیں، لیکن افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ والدین میں سے شاید ہی ۲ فیصد والدین نے اس سوال کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہو۔ اولاً تو ہم اپنے بچوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اور جو تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ ہمارے اپنے نقد و نظر کا شکار ہوجاتا ہے۔ کیا یہ ہمارے ہاں کے والدین کی بدقسمتی نہیں ہے کہ وہ بچوں میں فیصلہ کرنے کی قوت پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
کاش ہم اپنے بچوں میں اپنی راہیں تلاش کرنے اور فیصلہ کن مراحل پر فہم و ذکا سے کام لینے کا ڈھنگ پیدا کرسکیں۔
سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ہمارے اس سماجی ماحول کے تاروپود میں بہت سی تہذیبوں کے دھارے ساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں۔ ہر لمحہ اور ہر آن ان میں ٹکراؤ کا گمان رہتا ہے۔ ایسے میں والدین کے پاس علم و عقل کی کوئی کسوٹی نہیں۔ جس سے وہ یہ اندازہ لگا سکیں کہ آیا ان کے بچے بہترین طریق سے تعلیم پار ہے ہیں یا نہیں۔ اظہار صاحب کا کاروبار خوب ہے۔ دولت کی فراوانی ہے، خوشحالی گھر کی لونڈی ہے، لیکن ذہنی طور پر قدامت پسندی کی طرف راغب ہیں۔ ایک بچہ ہے جو یورپین ٹائپ انگلش اسکول میں پڑھتا ہے، بیوی معمولی پڑھی ہوئی ہے۔ بچہ مغربی تہذیب کے اثرات میں ترتیب حاصل کررہا ہے۔ گھر میں مذہبی تعلیم کا معقول انتظام نہیں، ماں کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ بڑا ہو کر بہت بڑا آدمی بنے اور باپ چاہتا ہے کہ بچہ اس قابل ہوجائے کہ اس کا کاروبار سنبھالے۔ والدین کی خواہشات میں تضاد ، دو ماحول ہیں، جو ایک دوسرے سے مختلف اور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ماں اپنی خواہش ہر قیمت پر پوری کرنے کو تیار ہے اور باپ ہر بات پر تنقید کرنے کے انداز کا رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ بتائیے بچے کی تربیت اور اس کی شخصیت کے تاروپود کی کیا صورت ہوگی۔ ہمارے ۹۰ فیصد بچے اپنی صلاحیتوں سے صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ انہیں دو متضاد قسم کے ماحول سے نباہ کرنا پڑتا ہے۔ ان کی شخصیت بکھر جاتی ہے۔ والدین کے قول و فعل میں تضاد بچے کے ذہن کی الجھن بن جاتا ہے۔ اسکول کی تعلیم اور غیر معمولی تمناؤں کا بوجھ حقیقت شناسی اور مذہب کی تعلیمات ایک بچے کو بالغ نظری سکھاتی ہیں۔ وہ اسلام کو بحیثیت ایک عالم گیر دین دیکھتا ہے۔ لیکن جب برادری اور ذات کے مسائل اسے تنگ نظر بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو بتائیے اس بچے کاکیاحشر ہوگا؟ ایک طرف مذہب اس کی ہمہ گیر جاذبیت، تعلیمات اور زندگی گزارنے کا عظیم نظریۂ حیات ہوتا ہے اور دوسری طرف توہمات، تعصبات اور تنگ نظری۔ یہ ہماری سماجی اور مذہبی زندگی کی ضدیں ہمیں کہاں لے جارہی ہیں؟ والدین نے کبھی اس کے متعلق نہیں سوچا۔ اگر اس قسم کے حالات میں بچہ اپنا راستہ خود متعین کرتا ہے تو وہ معتوب گردانا جاتا ہے۔ والدین اسے اپنا بیٹا تک کہنے سے احتراز کرتے ہیں۔ یہ ضدیں کیوں اور کب تک؟