بغاوت کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ کا اور آپ کے بچوں کا کوئی سخت نوعیت کا جھگڑا ہو رہا ہے بلکہ بغاوت سے مراد یہ ہے کہ آپ کا بچہ آپ کی کہی ہوئی بات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ آپ اسے جس کام سے منع کر رہی ہیں وہ وہی کام جان بوجھ کر کر رہا ہو۔ اگر ایسا ہے تو کیوں ہے؟ غلطی کس کی ہے اور کہاں ہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ماں باپ بچے کی نفسیات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ آپ اپنے بچے کی نفسیات کو پس پشت ڈال کر اس پر اپنی خواہشات لاگو کریں، اسے سمجھیں۔ بہ صورتِ دیگر بچے باغی ہوجائیں گے اور کسی بھی ماں باپ کو بچے کا یہ باغی پن ہرگز برداشت نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ ماں باپ کے خلاف ضدی پن کا مظاہرہ کرتا ہے اور ماں باپ اسے بدتمیز اور ناپسندیدہ لسٹ میں شامل کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی ہے اور گھر کی فضامکدر ہو جاتی ہے۔
دوست بنیں
اگر آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو دس میں سے تین بچے ضدی، اکھڑ اور کسی حد تک بگڑے ہوئے ملیں گے۔ کیا کبھی آپ نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے؟ ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب بچے پر بے جا سختی کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’حد سے زیادہ نرمی بچے کو بگاڑ دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح حد سے زیادہ سختی بھی بچے کو بگاڑنے کا سبب بنتی ہے۔‘‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کو ڈانٹنے کی بجائے ان کے دوست بنیں، تاکہ اگر آپ کے بچے کبھی کوئی غلط کام کریں تو آپ کے ڈر سے اسے چھپانے کی بجائے آپ سے شیئر کریں۔ اس سے نہ صرف آپ اپنے بچے کی تمام باتوں اور کاموں سے آشنا رہیں گی (جو اس کے دل اور دماغ میں چل رہی ہوں گی) بلکہ آپ اسے دوستی کی آڑ میں اچھے اور برے کی تمیز بھی سکھا سکتی ہیں، جو کہ بچوں کی تربیت میں مثبت کردار ادا کرے گی۔
صلاحیتوں کو سراہیں
بجائے اس کے کہ آپ اپنے بچوں کے کام کو تنقید کی نظر سے دیکھیں، آپ کو چاہیے کہ ان کے ہر اچھے کام کو سراہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ کسی بھی بچے کی حوصلہ افزائی اسے ایک قدم آگے بڑھنے کی ہمت دیتی ہے، جب کہ ڈانٹ اور تنقید اسے چار قدم پیچھے دھکیل دیتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کل جب آپ کا بچہ عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو وہ بڑے سے بڑا کام کرنے میں ہچکچائے گا نہیں بلکہ وہ ہر کام بہت ہمت اور بہادری کے ساتھ سر انجام دے گا اور وہ اس تیز رفتار اور ترقی یافتہ معاشرے میں آگے بڑھے گا۔ لہٰذا چھوٹی عمر سے ہی ان کے کاموں کو سراہنے کی عادت اپنائیں اور اپنے بچے کی شخصیت کو نکھاریں۔ کسی بھی ریاست کو چلانے کے لیے ایک سربراہ مقرر کیاجاتا ہے۔ اس ریاست کے نظام کو بہتر او راحسن طریقے سے چلانے کے لیے وہ سربراہ جہاں اپنی مرضی اور حکم لاگو کرتا ہے وہیں وہ رعایا کی بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ جس طرح آپ بچے پر اپنا حکم لاگو کرتی ہیں وہیں آپ بچے کی بات کو بھی اہمیت دیں، وہ جو کہے اسے توجہ اور غور سے سنیں یہ بات اس کی جھجک اور شرم ختم کردے گی اور یوں آپ کا بچہ اسکول، کالج میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ہچکچائے گا نہیں۔ ایسا کرنے سے بچے کا اعتماد بڑھے گا بلاشبہ اعتماد اور دلائل دے کر منوانے والے بچے معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحفے اور انعامات
تحفوں کا تبادلہ خاص موقعوں کے علاوہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً جب بچہ ٹسٹ میں کامیابی حاصل کرے تو اس کی کارکردگی پر اسے کوئی اچھی سی کتاب تحفے میں دیں۔ جس سے ناصرف آپ کے بچے میں اچھی کتابیں پڑھنے کی عادت پختہ ہوگی بلکہ اس میں دوسروں کو تحفہ دینے کا رجحان بھی بڑھے گا، اس کی سال گرہ پر اس کی پسند کے مطابق تحفہ دیں۔ دوسرے بچوں کی سال گرہ پر تحفے دلائیں۔
ساتھ وقت گزاریں
فارغ اوقات میں اپنے بچے کے ساتھ وقت گزاریں۔ اس کے ساتھ نت نئے ایجادات کے متعلق بات کریں کسی کتاب کے متعلق سوالات کریں یوں بچہ معلوماتی گفتگو میں دلچسپی لیتے ہوئے آپ کی طرف سے کیے گئے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرے گا، جس سے ناصرف اس کا آئی کیو لیول بہتر ہوگا بلکہ وہ اس عادت کے باعث کسی بھی مجمع یا اسکول میں کیے گئے سوالات کے جوابات دینے سے نہیں ہچکچائے گا جو کہ آپ کے لیے ایک خوش آئند بات ہوگی۔
نظر رکھیں
اس ترقی یافتہ دور میں ہم جہاں بہت سی دوسری اشیاء سے مستفید ہو رہے ہیں وہیں سر فہرست موبائل بھی ہے۔ جب آپ اپنے بچے کے ہاتھ میں موبائل دیتی ہیں تو آپ کی ذمہ داری ختم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے، اس پر نظر رکھیں ہ وہ موبائل فون کن کن اوقات میں اور کیسے استعمال کر رہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ آپ کے سامنے کتاب کھولے بیٹھا ہو اور آپ یہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ پڑھ رہا ہے، جب کہ وہ کتاب کی آڑ میں موبائل سے کھیل رہا ہو۔ اس میں تفریح کا سامان چھپا ہو۔ اگر ایسا ہے تو آپ تھوڑا ہوشیار رہیں اور پڑھائی کے اوقات میں ان سب خرافات کو اپنے بچے سے دور رکھیں۔ ان چند چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کر کے آپ اپنے بچے کی تربیت احسن طریقے سے کرسکتی ہیں۔