اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو رنگ برنگے پھولوں سے سجایا، ہر پھول کا الگ رنگ ہے اور الگ خوشبو۔ قدرت ہوا، روشنی، پانی کی غذا سے ان کی نشو و نما کرتی ہے۔ اگر یہی چیزیں ضرورت سے زیادہ مل جائیں تو پھول اپنی خوبصورتی کھو کر گل کر گرجاتا ہے اور اگر ضرورت سے کم ملیں تو وہ سوکھ کر اپنی زندگی کھودیتا ہے۔
اسی طرح ایک گھر کے بچے بھی معصوم رنگ برنگے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر ان کی پرورش ٹھیک ڈھنگ سے کی جائے تو یہ اپنی خوبصورتی چاروں طرف بکھیرتے ہیں اور اگر اسی پرورش میں لاپروائی کی جائے تو یہ نہ صرف خاردار درخت بن سکتے ہیں بلکہ مرجھا بھی سکتے ہیں۔
اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ والدین کو خریداری کے لیے بازار یا کسی کے گھر جانا ہو تو بچوں کو عام طور پر پڑوس میں، جان پہچان والوں کے گھر یا گھر میں ہی تنہا چھوڑ کر گھنٹوں کے لیے غائب ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو یہ ایک عام سی بات لگتی ہے مگر اس کے بعد جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ بہت سنگین ہوتے ہیں۔
’’الف‘‘ کے والدین جب بھی کہیں جاتے ہیں تو ’الف‘ اور اس کی ۶ سالہ بہن کو اس کے انکل کے گھر چھوڑ جاتے ہیں۔ ’الف‘ تیرہ سال کی ہے جبکہ ان کے انکل کا بیٹا سولہ سال کا ہوچکا ہے۔ ابتدا میں تو ’الف‘ ہچکچاتی تھی مگر آہستہ آہستہ عادی ہوگئی۔ ’الف‘ کا کہنا ہے کہ وہ انتظار کرتی ہے کہ کب اس کے والدین اسے وہاں چھوڑیں۔ اس پر ہر وقت انکل کے ہاں جانے کی دھن سوار رہتی۔
’ب‘ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے مگر وہ اس کو سخت ناپسند کرتی ہے اور والدین سے کھل کر بات کرتے ہوئے بھی جھجکتی ہے۔ دوستوں سے اپنی باتیں کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میں اپنی ماں سے کھل کر بات کرنا چاہتی ہوں مگر نہیں کرپاتی۔
’ج‘ کا کہنا ہے کہ ہمارے والدین ہمیں چھوڑ کر گھنٹوں کے لیے غائب ہوجاتے ہیں، پھر ہم بلا روک ٹوک ٹیلی ویژن پر تمام پروگرام دیکھتے ہیں اور انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتے ہیں۔
’د‘ کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ ہمارے ایک دور کے رشتے دار رہتے ہیں۔ ہمارے والدین ہمیں بے فکری سے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ وہ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ میں نے ایک دن ہمت کرکے اپنی امی سے کہا تو انھوں نے کہا کہ’’وہ رشتے میں تمہارے ماموں ہیں۔ انھوں نے ضرور کوئی مذاق کیا ہوگا۔‘‘
ایک صاحبہ جو ہماری جاننے والی ہیں صبح کو پہلے تفسیر قرآن کریم کی کلاس میں اور پھر تجوید قرآن کریم کے لیے جاتی ہیں۔ اس کے بعد شام کو کسی کلب میں جاتی ہیں۔ گھر میں ان کے بچے نوکرانی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی سات سالہ بیٹی نے کھیل کھیل میں بہت سی شکایتیں کرڈالیں جنھیں سن کر میں ششدر رہ گئی۔
کیا صرف اپنے آپ کو سدھارنا اور دنیا کو سدھارنا ہی زندگی کا مقصد ہے۔ کیا بچوں کی دیکھ بھال اچھی طرح کرنا ہمارا فرض نہیں جو لوگ اپنے بچوں کو نوکروں یا پڑوسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بے فکر ہوجاتے ہیں، ان کے ساتھ بیتنے والے واقعات آئے دن اخبارات میں پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
ایک گھر میں بچیاں اکٹھی ہوتی ہیں، گھنٹوں کھیلتی رہتی ہیں۔ ان کی ماں مطمئن ہے کہ لڑکیاں کھیل رہی ہیں۔ کھیل کیا کھیل رہی ہیں کہ پرچیاں اچھالی جاتی ہیں۔ دو لڑکیاں مل کر ایک پرچی اٹھاتی ہیں۔ پرچی پر لکھا ہے کہ فلاں فلم کی ہیروئن کی نقالی کرکے دکھاؤ۔ یہ باتیں خواہ کھیل میں ہی کی جارہی ہوں مگر معصوم بچیوں کاذہن پراگندہ کرتی ہیں۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا والدین کا فرض نہیں کہ وہ اپنی اولاد پر بھر پور توجہ دیں؟
میری بیٹی کی سہیلی کی والدہ کا فون میرے پاس آیا کہ میری بیٹی آپ کی بیٹی کی ہم جماعت ہے، وہ آپ کی بیٹی کے ساتھ مل کر کھیلنا چاہتی ہے۔ اس لیے ہم اس کو جمعرات کی رات آپ کے گھر چھوڑ دیتے ہیں اور جمعہ کو لے جائیں گے۔ میں حیران تھی کہ یہ کیسے والدین ہیں مجھے، گھر کے ماحول کو اور میرے گھر والوں کو دیکھے اور پرکھے بغیر کس طرح اپنی بیٹی کو میرے گھر بھیجنے پر آمادہ ہیں۔
اب تو یہ فیشن بن گیا ہے بچوں کو دوستوں کے گھر چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ وہ کس مزاج کے لوگ ہیں یا ان کے گھر کا کیا ماحول ہے۔ گھر میں کتنے اور کون کون لوگ ہیں۔ حیرت ہے جن بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری پوری طرح ہماری ہے انہیں اس طرح بنا سوچے سمجھے کہیں بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کو بچوں کا مربی بنایا ہے۔ ان بچوں کی پرورش، تربیت اور حفاظت کی پوری ذمہ داری والدین کی ہے۔ مگر آج کل اکثر والدین اس ذمہ داری کو چھوڑے ہوئے ہیں اور پھر میڈیا کی یلغار بھی ہے جس نے بچوں کا بچپن چھین لیا ہے۔ میڈیا ان کے معصوم اذہان پر منفی اثرات ثبت کررہا ہے۔
بہت سے والدین یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں پر پورا بھروسہ ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ بچوں پر بھروسہ ہونا بھی چاہیے۔ مگر جن کے رحم وکرم پر آپ اپنے بچوں کو چھوڑ رہے ہیں کیا آپ ان پر بھی بھروسہ کرسکتے ہیں؟
ہم یہ دیکھیں کہ بچوں کے دوست کیسے ہیں، وہ فون پر کس کس سے بات کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر کیا کرتے ہیں۔ اگر ضرورت کے تحت ہم انہیں کسی کے گھر چھوڑتے ہیں تو ان کے گھر کا ماحول ہمیں اچھی طرح جانچ لینا چاہیے۔
والدین کا بچوں کے ساتھ رویہ دوستانہ ہونا چاہیے۔ تاکہ بچہ ہر قسم کی بات والدین کے ساتھ کرسکے۔ ہم نے بچوں کو آزادی تو دی ہے مگر وہ ماحول نہیں دیا۔ خاص طور پر اگر کوئی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو وہ والدین سے کھل کر بات نہیں کرپاتیں۔ ہمیں ان بچیوں میں پائی جانے والی یہ جھجک ختم کرنی چاہیے۔
والدین کو چاہیے کہ اگر ان کا بچہ کوئی بات بتائے تو اسے سنجیدگی سے لیں اور اگر ضرورت ہو تو اس کی بات پر ایکشن بھی لیں۔ اگر بچہ اپنی کوئی غلطی بتائے تو اسے فوراً نہ ڈانٹیں بلکہ اسے سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ بھی انہیں بات بتانے کی ہمت اور جرأت کرسکے۔
کیا ہم اپنا قیمتی سرمایہ انجان لوگوں کے گھر یا جان پہچان والوں کے یہاں روز روز چھوڑ کر جاسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، کیونکہ اس کی تو ہم حفاظت کرتے ہیں اور ہمارے بچے جو ہمارا بیش قیمت سرمایہ ہیں انھیں بنا سوچے سمجھے لوگوں کے پاس چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر ہماری دولت ضائع ہوجائے تو اتنا بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کوئی بچوں کے اخلاق تباہ کردے تو یہ نقصان کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ جن بچوں کے ساتھ بچپن میں ایسا کوئی واقعہ ہوجاتا ہے ان کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔پھر وہ زندگی بھر کسی پر بھروسہ نہیں کرپاتے۔ وہ احساس محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں یا ان کا کردار منفی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے بچوں کو ہماری دولت سے زیادہ ہمارے وقت اور توجہ کی ضرورت ہے۔
——