نابالغ بچوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں ہیں، مگر انھیں روزہ کا عادی بنانے کے لیے بہتر ہے کہ ۷، ۸ برس کی عمر سے ہی کبھی کبھار روزہ رکھوایا جائے۔ روزہ رکھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ بچپن ہی سے اس اہم فریضہ کے عادی ہوجائیں گے اور بلوغت کے بعد روزہ ان کے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ نماز کے بارے میں بھی اللہ کے رسول ﷺ کا یہی ارشاد ہے کہ جب بچے سات برس کے ہوجائیں تو نماز چھوڑنے پر ان کی پٹائی کرو۔ یہاں بھی مقصد تربیت ہے کہ بچپن ہی سے نماز جیسی اہم عبادت کی اہمیت ان کے دل میں بیٹھ جائے اور وہ اس کے عادی بن جائیں کہ بڑے ہونے پر اس فریضہ سے غافل نہ ہونے پائیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ یہ حضرات اپنے چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے تھے اور ان کو بہلانے کے لیے کھلونے رکھتے تھے کہ جب یہ بھوک سے بے قرار ہوکر روتے اور کھانا پانی طلب کرتے تو انہیں کھلونے دے کر ان کی توجہ کھیل کود کی طرف پھیر دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت ربیع بنتِ معوذ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشورئہ محرم کی صبح کو انصار کی بستیوں میں قاصد بھیج کر اعلان کرایا کہ جس شخص نے روزہ رکھ کر صبح کی ہے وہ تو اپنا روزہ مکمل ہی کرے، مگر جن لوگو ںنے کچھ کھا پی لیا ہے اب وہ اس اعلان کے بعد نہ کھائیں پئیں اور دن کے باقی حصہ کا روزہ مکمل کریں۔ حضرت ربیعؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ہم روزہ رکھتی تھیں اور اپنے چھوٹے بچوں کوبھی روزہ رکھواتی تھیں، ہم انھیں لے کر مسجد جاتیں اور جب وہ بھوک سے (نڈھال ہوکر) روتے دھوتے تو روئی کا کھلونا دے کر ان کو بہلاتیں، یہاں تک کہ افطار کاوقت ہوجاتا۔ (بخاری و مسلم)
اسی طرح علامہ ذہبیؒ نے سیر اعلان النبلاء میں حضرت عبداللہ بن ابی الہذیل (تابعی) کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کے پاس رمضان المبارک میں ایک بوڑھا لایا گیا جو شراب پینے کی وجہ سے نشہ میں تھا، اسے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تمہارا برا ہو، تم رمضان میں شراب پیتے ہو جب کہ ہمارے بچے روزہ سے ہیں۔‘‘ پھر بطورِ حد آپؓ نے اسے اسی کوڑے مارنے کا حکم صادر کیا۔ (سیر اعلام النبلاء ۴/۱۷۱) امام بخاریؒ نے اس واقعہ میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ پھر اسے شام جلاوطن کردیا گیا۔ (بخاری :۱/۲۶۳)۔
یہ تو ہمارے اسلافِ کرام کی حالت تھی کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تربیت کے بارے میں کس قدر حساس تھے، مگر موجودہ زمانے میں کم ہی ایسے والدین ملیں گے جنھیں اپنے جگر گوشوں کی اخلاقی و دینی تربیت کی فکر واقعی ہو۔ اسی روزہ کے حوالے سے دیکھئے کتنے ہی نوجوان ہیں جو روزہ نہیں رکھتے اور ان کے والدین کو اس کی خبر ہوتی ہے مگر وہ ان پر سختی نہیں کرتے اور یہ بہانہ تراشتے ہیں کہ ابھی ان کو روزہ رکھنے کی ضرورت نہیں، کچھ اور بڑے ہوں گے تو یہ ضرور روزہ رکھیں گے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی یہ غفلت ان کے بچوں کو دین سے کس قدر دور کررہی ہے اور آگے اس کے کیا نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ اولاد کی بے دینی اور نماز روزہ سے ان کی غفلت پر والدین کا یہ رویہ بظاہر بچوں کے ساتھ ہمدردی وشفقت کا معاملہ نظر آتا ہے، مگر اس کے نتائج و عواقب پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اولاد کے حق میں زہر سے کسی قدر کم نہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کرکے حکم دیا ہے کہ : ’’تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘ اس آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تم نیک عمل کرکے خود کو جہنم سے بچاؤ اور اپنی اولاد کی بہترین دینی و اخلاقی تربیت کرکے انہیں اعمالِ صالحہ کا عادی بنادو کہ وہ بھی جہنم سے محفوظ ہوجائیں۔ گویا بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جس طرح والدین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے کھانے پینے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا انتظام کریں اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ وہ ان کی تربیت کریں۔
حدیث شریف میں صراحت سے یہ بات کہی گئی ہے : ’’تم میں سے ہر شخص راعی (ذمہ دار) ہے اور اس کی رعیت (جو اس کے زیر کفالت یا ماتحت رہتے ہیں) کے متعلق سوال کیا جائے گا اور وہ جواب دہ ہوگا۔
معلوم ہوا کہ بچوں کے روزہ نہ رکھنے اورنماز ترک کرنے کے ذمہ دار والدین بھی ہیں اور بلاشبہ وہ قیامت کے دن اپنے بچوں کی بداعمالیوں کے لیے جوابدہ ہوں گے۔
اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کی فکر کریں، انہیں اسلامی اخلاق و اعمال کا خوگر بنائیں، ان کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کریں، انہیں جملہ عبادات خصوصاً نماز روزہ کا پابند بنائیں اور ان کے اخلاق و کردار کی نگرانی کریں، انھیں تلاوتِ قرآن کی ترغیب دیں، جمعہ جماعت میں ساتھ رکھیں دینی مجلسوں میں ساتھ لے جائیں، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کریں اور ان کے اخلاق و کردار کو اسلامی سانچہ میں ڈھالنے کی ہر ممکن تدبیر کریں۔