بچے کی پرورش کے لیے اسے سزا دینا، اس میں احساسِ گناہ پیدا کرنا اور اسے ملزم ٹھہرانا فائدہ مند ہو یا نہ ہو مگر صدیوں سے ماں باپ کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ غصے کے ساتھ اپنی اولاد کو سزا دیتے آرہے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی برا کام کرنے کے بعد بچہ لازماً یہ سوچے کہ وہ برا بچہ ہے اور پھر اس احساسِ گناہ میں مبتلا رہے۔ حقیقت میں ایسی حرکات اکثر و بیشتر بچے کو تابعدار اور فرمانبردار بنانے میں کامیاب رہی ہیں، لیکن اس کی بہت بھاری قیمت اداکرنی پڑتی ہے۔ بچے کی صحیح پرورش کے لیے تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے: (۱) نظم و ضبط کو بذات خود ایک نیا جرم نہیں بن جانا چاہیے۔ (۲) ناپسندیدہ کارکردگی کو کسی طرح پسندیدہ بن جانا چاہیے اگر انگوٹھا چوسنے والا بچہ انگوٹھا چوسنا چھوڑ کر بستر پر پیشاب کرنا شروع کردے تو فائدہ؟ (۳) بچے کا صرف ظاہری چال چلن تبدیل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے اندازِ فکر میں تبدیلی بھی لازم ہے۔ اگر کوئی مجرم اپنے پرانے چال چلن کے ساتھ ہی جیل چھوڑتا ہے تو قید نے کیا فائدہ پہنچایا؟ ایک بچہ جسے تبدیل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن وہ اندر سے تبدیلی کے لیے آپ کے دلائل کا قائل نہیں ہوتا تو وہ بزرگوں کے سامنے تو ان کے کہے پر عمل کرے گا لیکن ان کی غیر حاضری میں وہی کچھ کرے گا جو وہ خود سوچتا ہے۔
جسمانی سزا دینے، الزام تراشی اور احساسِ گناہ بیدار کرنے سے درج بالا کوئی بات پوری نہیں ہوتی بلکہ یہ باتیں ہی اوپر کی گئی تنقید کا سبب بنتی ہیں۔ آئیے باری باری ان باتوں کا جائزہ لیں۔
جسمانی سزا اور الزام تراشی کا مقصد اصلاح کی نسبت بدلہ لینا ہوتا ہے۔ سویہ کام ہمیشہ ایسے وقت میں سرانجام پاتے ہیں جب ماں یا باپ غصے میں ہوں گے۔ غصے کی حالت میں نظم و ضبط قائم کرتے وقت کم از کم درج ذیل پانچ غیر صحت مندانہ اثرات پیدا ہوتے ہیں:
(۱) بیوقوف اور جاہل جیسے الفاظ جو غصے میں بچے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، آخر کار اپنا اثر دکھاتے ہیں، اور بچہ خود ویسا ہی سمجھنا شروع کردیتا ہے، کیوںکہ اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے والدین یا استاد اس سے نفرت کرتے ہیں، سو وہ خود بھی اپنے آپ سے نفرت کرنا شروع کردیتا ہے۔
(۲) دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ بچے کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں رہتا۔ بچے کا رویہ کچھ اس قسم کا ہوجاتا ہے کہ ’’جب میری کوئی وقعت ہی نہیں تو میں اپنے آپ پر اعتماد کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘ اس قسم کے خیالات اور احساس کا واضح اشارہ ہمیں اس احساس کمتری سے ملتا ہے جو بچے میں پیدا ہوجاتا ہے۔
(۳) کسی بالغ آدمی کے لیے بھی ایسے کسی کام کو جاری رکھنا مشکل عمل ہوتا ہے جس میں وہ ناکام ہورہا ہو، جبکہ کامیابی ناکام ہو کر اور ناکامیوں پر غور کرکے اور ان سے کچھ سیکھ کرہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسے لوگ جو اس سارے عمل سے گزرے ہوں وہی اس کے بارے میںبہتر طور پر جان سکتے ہیں اور انھیں ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ بچے کا اس صورت میں کیا حال ہوسکتا ہے۔
ایسا بچہ جسے غصہ سے جھاڑ پلاکر یا سزا دے کر ٹھیک کیا گیا ہو مستقبل میں ہمیشہ ایسے سلوک سے خوفزدہ رہے گا اورجلد ہی سیکھ لے گا کہ کام کرنے کا محفوظ طریقہ یہ ہے کہ کوئی کام ہی نہ کیا جائے۔ وہ دوسری بار کوئی کام کرنے سے خوفزدہ رہے گا ،جبکہ کسی کام کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے اس کا بار بار کیا جانا بہت ضروری ہے۔ یوں وہ زیادہ سے زیادہ کاموں میں زیادہ سے زیادہ نا اہل ہوتا جائے گا اور آخر کار وہ اپنے آپ کو ایک ناکام انسان سمجھنے لگے گا۔
(۴) یہ بات انتہائی فطری ہے کہ لوگ بے عیب بننا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک بار ناکام ہوجانے اور ناکامی کی سزا بھگت لینے کے بعد کامیابی ان کے لیے ’’سب یا کچھ بھی نہیں‘‘ قسم کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ یہاں سے اپنے لیے کامیابی کا خواہشمند ہونے اور کاملیت کا متقاضی ہونے کی معمولی لیکن غیر صحت مند تبدیلی جنم لیتی ہے۔ اگر ایک مرتبہ یہ ذہنی رویہ بن جائے تو انسان ہر کام کرتے وقت انتہائی پریشانی کے عالم میں ہوگا۔ اور چونکہ نوعِ انسان میں کاملیت کم ہی پائی جاتی ہے سو اس کا نتیجہ ذہنی پریشانی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
(۵) اگر بچے کو یہ احساس ہو بھی جائے کہ اس کے کام کے بارے میں ماں باپ کا نقطۂ نظر ٹھیک ہے تو بھی اس کے اندر سزا دینے والوں کے خلاف غصہ اور نفرت پیدا ہوں گے۔ جلد ہی بچہ والدین کے غلط یا صحیح ہونے کا مسئلہ بھول جائے گا لیکن اس میں بدلہ لینے کا رویہ پیدا ہوجائے گا۔
سزا دینے سے بہتر ہے کہ بچے کو اس کی بدتمیزی کے منطقی نتائج سے آشنا کیا جائے۔ مثلاً اگر وہ اپنا بستر خود نہ بچھائے تو اسے بستر میں نہ لیٹنے دیا جائے۔ سو ہمیں اسے سزا دینے کی بجائے عمل کرکے دکھانا چاہیے۔ بچے کے پاس سوچنے کے لیے بہت سا وقت ہوتا ہے اور پھر چونکہ وہ کسی جسمانی تکلیف کے عالم میں نہیں ہوتا اس لیے وہ مسئلے پر اچھی طرح غور کرنے کا اہل ہوتا ہے کہ وہ بستر میں نہ لیٹنے جیسے ناخوشگوار عمل سے کیسے بچ سکتا ہے۔
ہمارے ہاں روایتی طور پر احساسِ گناہ کو خصوصاً اچھا اخلاق سکھانے کے لیے بہتر آلہ کار تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن کروڑوں ایسے مجرم دنیا میں پائے جاتے ہیں جو اپنے ماضی کے بارے میں شدید احساس گناہ میں مبتلا ہونے کے باوجود پھر جرم کرتے ہیں۔
ایک درد انگیز صداقت یہ ہے کہ احساس گناہ بچے کو الجھن کا شکار کردیتا ہے اور اسے اس سے بچنے کا راستہ نظر نہیں آتا۔ چوری اور اس کے نتیجے میں ملنے والی سزا سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بچے کے ہاتھ سے عقل کا دامن نہ چھوٹے اور وہ پسندیدہ شئے حاصل کرنے کے متبادل طریقوں پر غور کرسکے۔ جیسے کام کرنا، بچت کرنا وغیرہ۔ سو مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اسے ذہنی طور پر آزاد ہونا چاہیے۔ لیکن جب وہ احساس گناہ میں مبتلا ہوگا تو اس کا دماغ اس کا اہل نہ ہوگا کہ آزادی سے اپنے مسائل پر غوروفکر کرسکے اور کوئی راستہ نکال سکے۔ بلکہ وہ یہی سوچے گا کہ وہ کتنا برا ہے اور پریشانی کے عالم میں رو رو کر سوتے وقت وہ یہ سوچنے کے قابل نہ ہوگا کہ چوری سے کیسے بچا جائے۔
مختصراً یہ کہ جسمانی سزا (سوائے آخری حربے کے طور پر) الزام تراشی اور احساسِ گناہ، ذہنی اور جذباتی عارضوں کو کم کرنے کے بجائے ان کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔ محتاط انداز سے لاگو کی گئی سزاؤں کا نظام (کہ احساس گناہ پیدا نہ کرے) اس قابل ہوتا ہے کہ ایسے اثرات پیدا کرے جن کی خواہش ان کا نشانہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے نہ کہ بچہ۔
بچے اپنے عمل کی نسبت بزرگوں کے اقوال سے زیادہ سیکھتے ہیں؟
بزرگوں کی طرف سے عام طور پر بچوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ ’’وہ کرو جو میں کہتا ہوں‘‘ یہ یقین کہ درس و تدریس اور گفتگو بچوں کی تربیت کے لیے کافی ہے۔ اس قدر مانی ہوئی بات ہے کہ ہم ایک ہی نصیحت بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ جبکہ ہمیں عملی طور پر وہ کچھ کرکے دکھانا چاہیے جو ہم کہتے ہیں۔ اگر کوئی والدین اپنے طرزِ عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنی پریشانی پر کم ہی غصے میں آتے ہیں تو وہ اس بات کا ثبوت مہیا کررہے ہوتے ہیں کہ جو وہ کہتے ہیں وہ قابل عمل ہے۔ اور اگر یہ والدین کے لیے ممکن ہے تو اولاد کے لیے بھی ممکن ہے۔
کوئی بچہ جسے غصہ ضبط کرنے کاسبق دیا جاتا ہے، جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے ماں باپ تو اکثر جھگڑتے رہتے ہیں تو وہ اس سبق کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ فطری طور پر وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ماں باپ جو اسے کہتے ہیں خود کیوں نہیں کرتے۔ شاید وہ کہتے تو ہیں لیکن خود اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ ایسے ماں باپ جو خود بچت کرتے ہیں جب اپنے بچے کو نصیحت کریں گے تو وہ ان بچوں کی نسبت آسانی سے یہ بات سمجھ جائے گا جن کے ماں باپ خود بچت نہیں کرتے۔
ہمارے اعمال ہماری شخصیت کا اس قدر حصہ ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کیا کررہے ہیں۔ کوئی والد کسی بات پر ٹال مٹول کرنے پر اپنے بچے کو یہ جانے بغیر ڈانٹ سکتا ہے کہ یہ تو اس کی اپنی بھی عادت ہے۔ اپنے بچوں کی عادات کا بغور مشاہدہ کرنا اپنی لا شعوری عادات سے واقف ہونے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ وہ ہماری اس سے زیادہ نقل کررہے ہوتے ہیں جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں۔