مشاغل ایسے اختیار کرنے چاہئیں جن سے کوئی اخلاقی سبق حاصل ہو۔ اعصابِ جسمانی مضبوط ہوں۔ دماغی قویٰ میں ترقی اور طبیعت میں شگفتگی پیدا ہو۔
کپڑے پہننا، اتارنا، غسل کرنا، کھانا کھانا، سیر کرنا، چلنا پھرنا اور سونا اگرچہ معمولی مشاغل ہیں لیکن تھوڑی سی توجہ سے ہم ان مشاغل سے بچوں کو سلیقہ سکھا سکتے ہیں۔ اس سے ان کی صحت اور دماغ پر اچھا اثر پڑسکتا ہے۔ وہ وقت کے پابند ہوسکتے ہیں اور ان مشاغل کی اہمیت کو بھی جان سکتے ہیں۔
ایک بچہ جو نہایت ذہین تھا مگر اس کے مشاغل کی طرف والدین کی توجہ نہ تھی۔ ہمیشہ چیزوں کو توڑتا پھوڑتا جس سے ہر ہفتے کچھ نہ کچھ والدین کو مالی نقصان پہنچ جاتا۔ ایک مرتبہ وہ دیا سلائی سے کھیل رہا تھا، اتفاق سے کمرے کے پردوں میں جلتی ہوئی دیا سلائی جالگی۔ جس سے پردوں میں آگ لگ گئی۔ اگر فوراً نہ بجھا دی جاتی تو خدا جانے کس قدر نقصان ہوتا۔ اسی بچے کی مثال پر موقوف نہیں۔ روز مرہ والدین کے بے توجہی سے ایسی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔
اب ایک دوسری مثال لیجیے۔ ایک ماں اپنے بچوں کو ایسے مشاغل میں مصروف رکھتی ہے۔ جن سے ان کے اخلاق سدھر جاتے ہیں۔ وہ ضبطِ اوقات کے خوگر ہوتے ہیں اور اپنی چیزیں سنبھال کر رکھتے ہیں۔
ان میں سے کسی ایک بچہ کا کمرہ دیکھئے اول تو ایک مصفیّٰ فرش نظر آئے گا۔ کمرے میں کہیںبھی جالے وغیرہ کا نشان نہ ملے گا۔ سب سے پہلے نظر دیواروں پر پڑے گی۔ جن پر قوم و ملک اور دنیا کے مشاہیر اور ان لوگوں کی جن کو وہ عزیز رکھتا ہے تصاویر نظر آئیں گی۔ پھر ایک طرف کچھ آرائشی چیزیں دکھائی دیں گی۔ دوسری طرف کھیلنے کا سامان ہوگا۔ اس کے بعد ایک چھوٹی سی الماری پر نظر پڑے گی جو اس سلیقہ مند بچے کا مختصر کتب خانہ ہوگا۔ الماری کھولنے کے بعد کتابیں مجلد اور قرینے سے رکھی نظر آئیں گی۔ اسی کے ساتھ ان کتابوں کی ایک فہرست بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اب بچے کو دیکھئے تو گو لباس معمولی ہے۔ مگر نہایت صاف ستھرا، کہیں داغ دھبے کا نشان تک نہیں۔ غرض ہر چیز قاعدے اور قرینے سے ملے گی۔
مشاغل، صرف تھوڑی سی ہنسی اور دلچسپی کے لیے نہ ہوں بلکہ کارآمد اور مفید ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ٹائم ٹیبل یعنی نقشہ تقسیمِ اوقات بنایا جائے جس میں مشاغل بلحاظِ موسم اور وقت معین کیے جائیں۔ حساب کتاب کے سہل اور آسان گروں کے کھیل، اخلاق کہانیاں سنانا، ملکی اور قومی نظمیں یاد کرنا بہت دلچسپ اور مفید مشغلے ہیں۔ تجارت سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے سودا گری کا کچھ مختصر مصنوعی سامان ضرور ہونا چاہیے۔ ابتدا ہی سے تجارت کے ساتھ دلچسپی پیدا کرنا اشد ضروری ہے۔ تجارت پیشہ قومیں آسودہ و خوش حال ہیں۔ اور اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو اس وقت ساری دنیا میں تجارت ہی حکمرانی کررہی ہے۔ حتی کہ سلطنتیں محض تجارت کی بدولت مضبوط ہوتی ہیں۔
چٹھی رساں، انجن ڈرائیور، فائرمین، پولیس کے ملازم، ڈاکٹر مجسٹریٹ، مزدور، وکیل بننا اچھے کھیل ہیں۔قصے کہنا یا قوم کے اعلیٰ مصنفین کی روایات پڑھنا، مذہبی پیشواؤں اور بزرگوں کے حالات سننا قوم و ملت کے رہنماؤں اور دعوت دین کا کام کرنے والو ںکے واقعات بیان کرنا، نیز اپنے معاشرتیخصائل اور قومی روایات کا تذکرہ بھی بہت نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ اگر بچے اخبارات پڑھ لیتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ روز مرہ کے واقعات پر ایک دوسرے سے بات چیت کریں۔
ایسے مشاغل بھی ضرور ہوں جن سے ہر قسم کے حالات معلوم ہوں۔ کمرے کی دیواروں پر ایک نقشہ دنیا کا ہو، ایک یورپ کا، ایک ایشیا کا اور ایک اپنے ملک کا۔ ایک یا چند ایسے نقشے ضرور ہوں اس طرح جغرافیہ کی ضروریات پوری ہوجائیں گی۔
کمرے کی ضروریات کے انتخاب میں خاص سلیقے کی ضرورت ہے۔ خوش نما مناظر کے فوٹو ہوں یا ان لوگوں کی تصویریں ہوں جو ملک اور قوم کے رہنما ہوں۔ یا جنھوں نے اپنی دولت،وقت اور قابلیت کا ایثار کرکے ملک اور ملت کو فائدہ پہنچایا ہو۔ اسی قسم کے البم بھی میز پر ہوں، اور ان تصاویر کے نیچے ان لوگوں کے مختصر حالات لکھے ہوئے ہوں۔ ایسی تصویروں سے دلوں میں اولو العزمی، ہمدردی اور ایثار کا مادہ پیدا ہوگا۔ تصاویر کے مسئلے میں مذاقِ طبیعیت کو بہت دخل ہے۔ تاہم انتخابِ تصاویر میں سلیقے اور مصلحت کا لحاض ضروری تصور کرنا چاہیے۔
خاصیت اشیاء کے بیان کی کتابیں ہوں۔ اور ان کے ساتھ رنگین پلیٹیں بھی ہوں، کچھ چیزیں جانوروں، چڑیوں اور پودوں کے متعلق ہوں۔ انسان کے جسم کا ا گر ڈھانچا ہو تو اور بھی بہتر ہے۔
نقشہ کشی کا سامان، کھریا، پنسل، کاغذ اور ڈرائنگ کی ابتدائی ضرورتوں کی چیزیں بھی ہوں۔ خوردبین، دور بین، مقناطیس کاٹکڑا اور ایک نقشہ آفتاب اور اس کے گرد پھرنے والے اجسام کا ہونا چاہیے۔
سال میں ایک مرتبہ عجائب خانوں، تصویر خانوں اور ان کے باغوں میں جہاں جانور رکھے جاتے ہیں، جانا چاہیے اور وہ قومی درس گاہیں بھی دیکھنی چاہئیں جو کسی شخص کی فیاضی یا قوم کی متفقہ امداد و اعانت سے قائم ہوئی ہوں۔
اس بات کا بھی انتظام ہونا چاہیے کہ جن کارخانوں میں صفائی اور حفظانِ صحت کا اہتمام ہے ان کو اور دوسری کاروبار کی جگہوں کو بھی دیکھیں خصوصاً جس جگہ عوام کے صرفے کی چیزیں بنائی جاتی ہیں جیسے کپڑے کی ملیں، جوتوں کا کارخانہ، مطبع وغیرہ۔
بڑے بچوں کو سائنس اور کیمسٹری (علم کیمیا) وغیرہ کے تجربوں کی جگہیں بھی دیکھنی چاہئیں۔ طوطا مینا، بلی اور ایسے ہی پرند اور پالتو جانور گھروں میں پالے جائیں تو اچھی بات ہے۔ ان سے سمجھ بڑھے گی، حلم اور نیکی کرنے کی عادت پیداہوگی۔
غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ اور ان کے ذہن و فکر کو معلومات بہم پہنچانے کے اور بھی بہت سے مشاغل ہوسکتے ہیں۔بچوں کو پیپر اور رنگ فراہم کرکے پینٹنگ کی طرف متوجہ کرنا انھیں اچھا آرٹسٹ بنادے گا۔ اس کے علاوہ ٹکٹ جمع کرنا بھی بہترین مشغلہ ہوسکتا ہے جو بچوں کو معلومات بھی دے گا اور وقت کا بہترین استعمال بھی سکھائے گا۔ اسی طرح پرانے سکے جمع کرنا بھی بچوں کے لیے اچھا مشغلہ ہے جس کی آپ ترغیب دے سکتے ہیں۔ اور اگر یہ تمام چیزیں ممکن نہ ہوں تو بچے کو ایک فائل خرید کر دے دی جائے اور کہا جائے کہ اس میں مختلف پودوں اور درختوں کے پتے جمع کرے۔ نیز ان پودوں کے بارے میں ضروری معلومات بھی اپنی فائل میں لکھتا جائے۔ بہ ظاہر یہ معمولی کام نظر آتا ہے مگر چند ہی مہینوں میں بچے کو پودوں ، درختوں، ان کی خصوصیات اور استعمال سے متعلق معلومات کا زبردست خزانہ مل جائے گا۔
محدود و مختصر مشاغل کا فائدہ بہت ہے اور ایسے مشاغل سے ذہنی ترقی بھی ہوتی ہے اور سستی نہیں آتی اور آسانی کے ساتھ تعلیم اور پیشوں سے دلچسپی بھی ہوجاتی ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سکون حاصل کرنے کے لیے تنہائی کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح کہ تنہائی میں طبیعت اکتا جانے سے ہم جولیوں یا دوسروں کے موجود ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پس ایک کمرہ آرام کرنے کا ہونا چاہیے تاکہ جب کھیل یا مشاغل سے تھک جائیں تو خاموشی اور سکون کا موقع مل سکے۔
بچوں کو دوسروں کا محتاج بننے کے بجائے دوسروں کا رہنما بننا چاہیے۔ اور جو ان سے بہتر ہوں ان کی تقلید کرنی چاہیے۔
لڑکیوں کے لیے مخصوص گڑیوں کا وہی پرانا کھیل جو تمام شریف خاندانوں میں رائج ہے۔ کسی قدر اصلاح کے ساتھ بہتر مشغلہ ہے۔ اس کھیل سے عملی طور پر خانہ داری کے اصول کی تعلیم ہوتی ہے اس میں سینے پرونے، پکانے اور گھر کی چیزوں کے رکھنے کا قرینہ اور سلیقہ آجاتا ہے۔