بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتیں سکھائیں

اسماء سید

شبیر نے کہا: ’’دادی جان! آپ ہمیشہ کہتی ہیں کہ لائٹ بند کرو، کبھی کہتی ہیں کہ نل بند کرو، پانی کا قطرہ بھی نہ ٹپکے۔‘‘ آج کے دور میں تقریباً ہر گھر میں پیارے بچوں کو اس قسم کی پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔ گھر کے تمام افراد بچوں کو اچھی باتیں سکھانے کے ذمہ دار ہیں، لیکن خصوصی طور پر ماں بچوں کی ہر لمحہ تربیت کی ذمہ دار ہے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے، جب ماں خود بھی بہترین تربیت یافتہ ہو۔
جب ایک نومولود دنیا میں آتا ہے، ہر چہرے پر خوشی رہتی ہے، اس کو سلام کیجیے، سلام تو اللہ کا نام ہے، جس کو بچہ بھی پہچانتا ہے۔ جب بھی بچہ روئے اس کے سامنے اللہ کا نام پڑھیے۔میری ماں تو یہ پڑھتی تھیں:
اللّٰہ اللّٰہ لا الہ الا اللّٰہ لا الٰہ الا اللّٰہ۔ نور محمد ﷺ حسبی ربی جل اللّٰہ۔ ما فی قلبی غیر اللّٰہ، حق لا الٰہ الا اللّٰہ۔
روتے ہوئے بچے کے سامنے بار بار پڑھنے سے وہ چپ ہوجاتا ہے، یہ میرا تجربہ ہے۔ بجز اس کے کہ اس کو کوئی جسمانی تکلیف ہو۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ بچے کی تربیت تین سال میں مکمل ہوجاتی ہے۔ چھوٹا بچہ نیند سے جاگے، اس کو سلام کیجیے، آپ کو دیکھ کر وہ بھی سلام کرنے کا عادی ہوگا۔
کھیلتے وقت بچے شور ضرور کرتے ہیں، لیکن ان کوحد سے زیادہ چیخ و پکار کرنے سے منع کیجیے۔ قرآن خود کہتا ہے کہ ’’سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘ اور خود بھی بچوں کو جھڑکیاں دینے سے احتراز کیجیے۔ نہ ہی ان کے سامنے اس کا اظہار کیجیے کہ آپ ان سے تنگ ہیں، جتنی نرمی اور پیار سے ان کو سمجھایا جائے گا، اتنی ہی جلد وہ بات مان جائیں گے۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت کرنا سکھائیے۔ اپنے کھانے کی چیز سے دوسروں کو بھی دینے پر آمادہ کیجیے تاکہ ان کو اس کی عادت ہوجائے کہ ہماری چیز میں دوسرے بھی حقدار ہیں۔
بسکٹ، چپس، جو بھی چیز بچے کھائیں یا پینسل کی نوک بنائیں، ہر قسم کا کچرا ڈسٹ بین میں ڈلوائیے، تاکہ کچرا گھر میں اڑتا نہ پھرے اور مہمانوں کی آمد پر آپ کے لیے شر مندگی کا باعث نہ ہو، بعد میں آپ بچوں کو سرزنش کریں، لیکن پہلا قدم ماں کو ہی اٹھانا ہے کہ وہ خود ہر چیز جگہ پر رکھے اور گھر کی صفائی ستھرائی کا بہترین اہتمام کرے۔
بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا سکھائیے۔ انھیں سکھائیے کہ اسکول سے آنے پر بڑوں کو اور گھر کے افراد کو سلام کریں۔ کسی بڑے نے کوئی چیز مانگی ہو تو بچے فوراً ان کی بات پر عمل کریں، یہ نہ کریں کہ منہ پھیر کر ان سنی کرکے چلے جائیں۔
بیٹیوں کی تربیت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیوں کہ یہی تو آگے چل کر اگلی نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار ہوں گی۔ سنا تو ہے ہم نے کہ ’’جیسی ماں، ویسی بیٹی۔‘‘
جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں، ان کو یہ بھی بتائیے کہ اللہ نے جتنے قدرتی وسائل ہم کو دیے ہیں، ان کو احتیاط سے استعمال کریں۔ بلاوجہ پانی نہ بہائیں، نہ ہی گیس کا چولہا بلا ضرورت کھلا چھوڑدیں کہ اب دوسری ہانڈی چڑھانی ہے۔ ماچس کی ایک تلی کی خاطر گیس کا ضیاع مناسب نہیں۔ یہ تو وہ نعمتیں ہیں جن کی ہم سب کو قدر کرنی چاہیے۔
جس کمرے میں ہوں وہیں کا بلب روشن کرنا چاہیے۔جہاں کوئی نہ ہو وہاں بلب اور پنکھا وغیرہ چلانا درست نہیں۔ گلیوں میں بھی کچرا پھینکنا ٹھیک نہیں کہ گھر تو صاف کرلیا اور کوڑا اٹھا کر گلی میں پھینک دیا۔ بعض خواتین کا خیال ہے کہ چاول، روٹی اور کھانے کی چیزیں مرغیاں، پرندے اور جانور کھالیتے ہیں ، اس لیے ڈسٹ بن میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ تجربے سے ثابت ہے کہ کھانے کی اشیاء اکثر پیروں کے نیچے ہوتی ہیں۔ اکثر چلنے والوں کی نظر بھی ان پر نہیں پڑتی۔ پھر اس گناہ میں کون شامل ہوا؟
بچوں کو سمجھائیے کہ اگر کوئی سویا ہوا ہو تو شور نہ کریں، کیوں کہ اس صورتحال میں تو قرآن بھی اونچی آواز میں پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کہ سونے والے کی نیند میں خلل نہ ہو۔
اچھی تربیت یافتہ بیٹیاںسسرال جاکر بہترین رویہ اختیار کرکے گھر کو جنت بنائیں گی۔ نئی نسل کی بہترین تربیت کرکے بہترین قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں گی۔ نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمھیں اچھی قوم دوں گا۔
اسلام سلامتی کا مذہب ہے۔ پیارے نبی ﷺ نے زندگی کے ہر لمحے کا اصول اور قانون بتادیا۔ دین کا علم سیکھنے کے لیے ماؤں کا ڈگری یافتہ ہونا ضروری نہیں، کیوں کہ علم کسی ڈگری کا محتاج نہیں ہے۔ البتہ ذہن کے دریچے کو وا کرنے کی ضرورت ہے۔ دلچسپی اور لگن آپ کے علم کے شوق کو مہمیز دے گی اور آپ اس قابل ہوجائیں گی کہ کردار کے چمکتے موتی ذہن پر بکھیردیں جس کا نام مسلم ومجاہد ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہؓ، امام شافعیؒ، عبدالقادر جیلانیؒ، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مائیں ڈگری یافتہ تو نہ تھیں، لیکن دین کے علم سے پوری واقفیت رکھتی تھیں، جن کی گود سے وہ بزرگ ہستیاں نکلیں، جن کے علم سے تاقیامت فیض حاصل کیا جاسکے گا۔
——

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں