بچوں کو ہر بات پر نہ ٹوکیے

اسماء شیخ

بچوں کی پرورش میں والدین کی طرف سے ذرا سی کوتاہی اور لاپرواہی ان کے مستقبل کو تاریک اور بچوں کے مستقبل کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ اس لیے بچوں کی پرورش کے دوران والدین کو ایسا کوئی رویہ نہیں اپنانا چاہیے جو ان کے معصوم ذہن کو الجھا دے۔ بعض والدین ہر بات پر بچوں سے سختی سے پیش آتے ہیں اور انہیں ہر بات پر روکتے ٹوکتے ہیں۔ ایسے والدین یہ خیال کرتے ہیں کہ بچے کو سختی سے روکنا یا سمجھانا ہی بہتر ہے، یہ بات سراسر غلط ہے کیوں کہ بات بات پر بچوں کو روکنا ٹوکنا نہ صرف انہیں چڑچڑا اور بدمزاج بناتا ہے بلکہ ان کے مستقبل کے لیے بھی بہت سے خدشات پیدا کردیتا ہے۔

بعض والدین اپنے بچوں پر بلا وجہ سختی کرتے ہیں ان کے بچے بڑے ہونے کے بعد احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوجاتی ہے۔ انہیں ہر لمحے یہی لگتا ہے کہ وہ جو کریں گے غلط ہوگا۔ اس لیے ایسے بچے بڑے ہوکر بھی فیصلہ کرنے کی سکت کھو دیتے ہیں۔ ان کی بے اعتمادی اور فیصلہ کرنے کی قوت کا فقدان انہیں ترقی کرنے سے روکتا ہے۔ جب کہ ایسے بچے جن کے والدین اپنے بچوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے مشاغل میں نہ صرف مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ انہیں سراہتے بھی ہیں، وہ بچے معاشرے میں ایک فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ بچہ ان سے اپنی ہر بات شیئر کرے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ اپنے بچوں کے بہترین دوست ہوں گے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے دوست نہ بن سکے تو پھر وہ اپنی باتوں کو شیئر کرنے کے لیے ادھر ادھر کے دوست تلاش کریں گے۔ وہ دوست اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ اس طرح وہ کئی مسائل کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ ماں باپ سے بڑھ کر بچوں کے لیے کوئی رشتہ مخلص نہیں ہوتا۔ اس لیے اپنے اس رشتے کو انمول بنانے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنائیے۔

بہ حیثیت والدین آپ اپنے بچوں کو اس بات کا بھرپور احساس دلائیے کہ آپ ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور ان کی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کریں گے تو انہیں بڑی خوشی ملے گی لیکن خواہشات کی تکمیل میں احتیاط بھی ضروری ہے۔ یہاں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو بتائیں کہ ہر خواہش ضروری نہیں کہ پوری کی جائے اور یہ کہ خواہشات کا بہت زیادہ بڑھنا پسندیدہ نہیں۔ یہاں ان کو یہ تمیز بھی سکھائی جائے کہ ضروریات اور تعیشات (Lusareis) میں فرق ضروری ہے۔ اگر بچہ کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ اس کی ہر خواہش پوری کی جاتی ہے تو بعد میں یہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ پھر بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات بڑے ہوکر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے غلط راستے تلاش کرنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات آپ اپنے بچے کو باہر نہیں لے جانا چاہتے اور بچہ اس پر بضد ہے کہ وہ باہر سیر کے لیے جائے تو آپ کو چاہیے کہ آپ بلاوجہ سختی کرنے کی بجائے اس کی خواہش کو پورا کردیں۔ یا اسے گھر پر کسی ایسی سرگرمی میں مصروف کردیں کہ وہ باہر جانے کی ضد چھوڑ دے۔ جیسے اس کے ساتھ مل کر کوئی گیم کھیلنا یا کلرنگ کرنا وغیرہ۔ یہ بات درست ہے کہ بعض اوقات بچوں کے ساتھ بچہ بننا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ بچے کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچیں۔ اس سے آپ اس کی ضروریات کو بہتر طور سے محسوس کریں گے اور آپ کا تعلق آپ کے بچوں کے ساتھ مضبوط ہوتا جائے گا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں