میں صبح صبح اپنے کام پر جانے کی تیاری کررہا تھا کہ میری ایک بیٹی اپنی دو سالہ بچی کے ساتھ شام تک میکے میں رہنے کے لیے آگئی۔ آتے ہی اس کی نظر میز پر رکھی بچوں کی تربیت سے متعلق دو کتابوں پر پڑی، جو مجھے گزشتہ شام ہی تحفے میں ملی تھیں۔
’’ارے!‘‘ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ’’ابا جی یہ کتابیں میں لے جاؤں پڑھنے کے لیے؟‘‘ اس نے حسبِ دستور کتابوں کے معاملے میں اپنے ندیدے پن کا مظاہرہ کیا۔
’’ہاں بیٹی کیوں نہیں، میں تو خود یہی کہنے والا تھا۔ بچوں کی اصلاح میں بہت کام آئیں گی۔‘‘ میں نے خوش دلی سے کہا۔
’’بچوں کی اصلاح…! ابا جی آپ کے منہ سے یہ جملہ کچھ جچ نہیں رہا، لگتا ہے اسے کسی اور طرح ہونا چاہیے تھا، بچے تو معصوم پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
بات کچھ دل کو لگی، لیکن میں جلدی میں تھا، وہ کیا کہنا چاہتی تھی پوری طرح سمجھ نہیںپایا۔ ’’اچھا بیٹی آپ بیٹھ کر باپ کے جملے سدھاریں، میں تو چلا۔‘‘
خلافِ معمول بہت رات گئے بیٹی کا فون آیا: ’’ابا جی! جملہ مکمل ہوگیا …!‘‘
’’کیا اب تک اسی کام پر لگی ہوئی تھیں؟ اچھا کیا بنا؟‘‘ میں نے نیند میں ڈوبی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’اباجی! میرے خیال میں جملہ یوں ہونا چاہیے تھا کہ دراصل یہ بچے ہیں، جو اللہ کی طرف سے ہماری اصلاح کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
میں چونکا… جملے کی گہرائی اور گیرائی سے میری نیند اُڑگئی… وہ کہہ رہی تھی:
’’اباجی! بچے تواللہ کی فطرت پر معصوم پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ہم ہیں جو بعد میں انہیں اچھا یا برا بناتے ہیں۔ ہر بچے کی پیدائش پر ماں باپ کو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ اس بچے کی صحیح تربیت اب ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان کا فرض ہے کہ اپنے مثالی اعمالِ حسنہ کے مظاہرے سے اس کی شخصیت کو ایسے پروان چڑھائیں کہ احکامِ الٰہی کی اطاعت اس کی شخصیت کا خاصہ بن جائے۔‘‘
میں حیران اپنی بیٹی کے پختہ شعور اور اللہ کی مطیع سوچ پر اللہ کا شکر ادا کررہا تھا، اور بیٹی کی آواز میرے کانوں میں رس گھول رہی تھی:
’’ابا جی! بچے کی پیدائش کے بعد ملنے والے اس احساسِ ذمہ داری کے شعور سے والدین پابند ہوجاتے ہیں کہ اپنی گفتگو، ایک دوسرے سے سلوک، معاشرے میں اپنے فرائض کی انجام دہی، امانت اور دیانت میں بچے کے سامنے کوئی ایسا عمل نہ کریں، جو احکامِ الٰہی کے خلاف ہو اور بچوں کی شخصیت پر منفی اثر ڈالے، تو ابا جی! اب بتائیے اصلاح کس نے کی اور کس کی ہوئی… یا … ہوسکتی ہے!!!‘‘