یہ زیادہ پرانی بات نہیں، پندرہ بیس برس قبل بھی والدین اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں خاصی سختی برتتے تھے جس میں انھیں رشتوں کا احترام کرنا بھی سکھایا جاتا۔ آج کل نہ جانے کیوں والدین بچوں کی تربیت پر توجہ دینا ہی نہیں چاہتے۔ یقینا تمام والدین اس میں شامل نہیں لیکن اکثریت کا یہی حال ہے۔ وہ بچوں کے دوست بننے اور ان کی ہر خواہش پوری کرنے کے چکر میں اپنی اصل ذمہ داری سے بخوبی عہدہ برآ نہیں ہو پا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تہذیب و تمیزکی بنیادی باتیں ہی بچوں کو نہیں سکھائی جاتیں۔ مثلاً بڑوں کا احترام کس طرح کیا جائے؟ مہمانوں سے کس طرح پیش آنا ہے؟ ان کی بدتمیزیوں پر ’’بولڈ نیس‘‘ بہادری اور’’ کانفیڈنس‘‘ اعتماد کا لبادہ ڈالا جاتا ہے۔
ہم نے تو یہی سیکھا، چاہے کسی کے گھر جائو یا کوئی تمھارے گھر آئے، سب سے پہلے اسے سلام کرو۔ مہمانوں کے سامنے کوئی بے جا فرمائش نہ کرو۔ شامت کے مارے ہم کسی مہمان کے سامنے کوئی فرمائش کرتے تو بعد ازاں ایسی تواضع ہوتی کہ چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ یوں آئندہ کے لیے سبق ہو جاتا کہ آئے گئے کے سامنے ادب و شائستگی کے دائرے میں رہنا ہے۔ آج کسی کے گھر جانا ہو تو خاتون خانہ آپ سے زیادہ اپنے بچے کی تواضع کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ شکایت ہوتی ہے کہ میرا بچہ تو کچھ کھاتا ہی نہیں حالانکہ یہ کہنا چاہیے کہ:
کھا گیا ہے میرے بھی حصے کی سب غذا
ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آپ کے گھر آئے مہمان بچے خواہ کتنا ہی نقصان کریں، مجال ہے جو ان کے والدین انھیں ٹوکیں۔ اور اگر آپ انھیں منع کریں تو وہ اس بے دردی سے اپنے بچے کو مارتے ہیں کہ آپ اپنی جگہ مجرم بن جاتے ہیں۔ یہ رویہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ دراصل بے جا لاڈپیار اور پیسوں کا بے دریغ خرچ بچوں میں بری عادات کو جنم دیتا ہے۔ جو والدین بچوں کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کریں، وہ اکثر اوقات شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے کو چوری کی عادت پڑ گئی۔ اگر پہلے ہی بچے کو کفایت شعاری سکھائی جائے اور اسے بتایا جائے کہ ہر شے خرید کر دینا آپ کی استطاعت میں نہیں تو پریشانی سے کسی حد تک بچا جا سکتا ہے۔
کئی خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ چغلیاں کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتیں کہ بچے آس پاس موجود ہیں۔ بعض خواتین تو باقاعدہ بچوں سے کرید کرید کر پوچھتی ہیں کہ فلاں نے کیا کہا؟ نتیجتاً بچوں میں بھی لگائی بجھائی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ بچوں کا ذہن تو کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے جس پر جو بھی عکس پڑے، وہی واضح ہوتا ہے۔
بعض اوقات والدین اپنے بچوں کے دوست بننے کے چکر میں اْن کی غلطیوں کو صرفِ نظر کر دیتے اور سوچتے ہیں کہ روک ٹوک سے کہیں بچہ باغی ہی نہ ہو جائے۔ لیکن ضروری ہے کہ ہم بحیثیت ماں باپ بھی ان سے ملاقات کریں۔ اپنے اس روپ سے بھی انھیں روشناس کرائیں اور نسل نو کو ان کے روشن مستقبل کے لیے اچھائی کی طرف مائل کریں۔lll