انسان کا چھوٹا سا بچہ بھی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے۔ اس کی بھولی بھالی شخصیت میں کتنی کشش اور جاذبیت ہوتی ہے۔ اس کی معصوم ادائیں، اس کی مسکراہٹ، اس کی دلچسپ اور ٹوٹی پھوٹی باتیں، اس کی شوخیاں اور شرارتیں، اس کا کھیل کود غرض اس کی کون سی ادا ہے جو دل کو لبھاتی اور کیف و سرور سے نہ بھردیتی ہو۔
پھر ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے ہمیں نہیں معلوم کہ قدرت نے کس بچے میں کتنی اور کسی قسم کی صلاحیتیں رکھ دی ہیں اور وہ آگے چل کر کیا کارنامے انجام دے سکتا ہے کہ آج کے ان معصوموں میں کوئی کسان اور تاجر ہو سکتا ہے تو کوئی انجینئر اور صنعت کار۔ کوئی صحافی اور مصنف تو کوئی مدرس اور مقنن، کوئی سائنس داں اور فلسفی اور کوئی ماہر سیاست یا پھر مدبر و منتظم۔ ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کیا معلوم کہ خاندان ملک و ملت اور نوعِ انسانی کو ان میں سے کس کے ذریعے کتنا فائدہ پہنچے گا۔
اتنی بڑی صلاحیتیں جن بچوں کے اندر چھپی ہوتی ہیں وہ پیدائش کے وقت کس قدر کمزور اور بے بس ہوتا ہے۔ وہ اپنی نشو ونما اور پرورش کے لیے کتنی توجہ شفقت اور محنت کا طالب ہے کہ ذرا سی بے اختیاطی سے اس کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
اس کی ذہنی، فکری اور اخلاقی تربیت تو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ اس معاملے میں غلطی یا کوتاہی اسے بالکل غلط رخ پر لے جاسکتی ہے اور اس کا وجود پورے سماج کے لیے عذاب بن سکتا ہے۔ لیکن اگر صحیح نہج پر اس کی تربیت ہوسکے تو وہ سماج کو امن و چین اور سکون سے بھر سکتا ہے۔ پورے معاشرے کے لیے انسان کے ایک ایک بچے کی کس قدر اہمیت ہے سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی وہ ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے لیے سکون و راحت کا بعث اور خواہشات و تمناؤں کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اسے اپنا سب سے بڑا سہارا تصور کرتے ہیں اوران کی زندگی اسی کے گرد گھومنے لگتی ہے۔
بچوں کی تربیت کے اہم اصول
(۱) آپ اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت تلخ یا تیز لہجہ استعمال نہ کریں چاہے جس قدر بھی آپ پریشان اور مضطرب ہوں۔ آپ کے لہجہ میں مٹھاس ہو۔ بچے کے اندر اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ آپ کے اندازِ گفتگو اور زور کلام سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ آپ اسے کیا کہنا چاہتے ہیں؟
آپ کی آواز میں ہلکی پھلکی اونچ نیچ آجائے تو قابل برداشت ہے لیکن اگر آواز میں تیزی اور تلخی غیر فطری طور پر بڑھ جائے تو اس سے بچہ خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ بچے اور آپ کے درمیان دوری بڑھ جائے گی یوں وہ آپ کی عزت، آپ کا احترام اور آپ کی خواہشات کی تکمیل خوف اور ڈر سے کرے گا شاید اس میں محبت و الفت کا حصہ شامل نہ ہو۔ جب والدین نرم لہجہ سے بچوں سے بات کرتے ہیں اس وقت بچہ خود کو بہت محفوظ اور مطمئن تصور کرتا ہے۔ جبکہ سخت گیر والدین جلد ہی اپنے اور بچے کے درمیان ایسے حالات پیدا کرلیتے ہیں کہ بچے پر سے والدین کی گفتگو اور بات چیت اپنا اثر کھو دیتی ہے۔
جھوٹا وعدہ نہ کریں
(۲) سچ اور ایمان داری ایک ایسی صفت ہے جس کی طرف بچہ فطرتاً میلان رکھتا ہے۔ اگر آپ بچے کو دھوکہ دیں گے تو وہ سکون سے محروم ہوجائے گا۔ یوں اگر اس کے دل میں ایمان داری کو ضرب لگے گی تو آپ کا احترام اٹھ جائے گا اور وعدہ شکنی سے بچوں کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔
(۳)آپ کو بڑے اور چھوٹے بچے کے درمیان فرق بالکل نہیں رکھنا چاہیے اور بچوں کو ایک دوسرے پر طنز اور تبصرے کرنے سے روکنا چاہیے۔ جس سے ان کی خود داری کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
(۴) غیر متعارف اور اجنبی لوگوں کے سامنے بچوں میں نقص نہ نکالیں چوں کہ بچوں کی رسوائی، غلط ثابت کرنا جیسی چیزوں سے شخصیت مجروح ہوتی ہے۔
(۵) اسکول جاتے وقت زیادہ پیسے نہ دیں کبھی کبھار ضرورت سے زائد رقم دے بھی سکتے ہیں لیکن معمول نہ بنائیں۔ بلکہ بچے کو اسکول کی اچھی کارکردگی دکھانے کا احساس دلائیں اور اگر وہ گھر کے اندر اپنے کاموں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو اسے انعام کی صورت میں خوش کیا جاسکتا ہے۔
(۶) بچے پر کبھی بھی جسمانی تشدد نہ کریں۔ بہت سے والدین اس کا خیال نہیں کرتے ایسے والدین کا تعلق صرف جاہل طبقہ سے ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے طبقے کے لوگ بھی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتے ہیں۔
جسمانی تشدد کے دو نقصانات قابل ذکر ہیں:
lبچے کا عضو خصوصاً دماغ بہت نرم و نازک ہوتا ہے۔ مارپیٹ کے دوران غیر ارادی طور پر کوئی سخت چوٹ اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔
l ایک بار آپ کی مار پیٹ سہنے کے بعد وہ آپ کے رعب کو قبول نہیں کرتا بلکہ بدظن اور متنفر ہو جائے گا۔
(۷) بچوں کی جسمانی اور غیر اخلاقی باتوں کو کبھی نظر انداز نہ کریں۔ سمجھ دار والدین بہت سی بیماریوں جیسے اندھا پن اور بہرہ پن وغیرہ کی شناخت بچے کی ابتدائی دور ہی میں کرلیتے ہیں اگر ایسی کوئی شکایت ظاہر ہو تو اس کے علاج و معالجہ کی کوشش کرنی چاہیے۔
(۸) والدین کو اپنے بچوں کے سامنے بحث و مباحثہ نہیں کرنا چاہیے۔ بچے چوں کہ معاملہ کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے اس لیے وہ عجیب و غریب الجھنوں میں پڑ کر پریشانیوں کی راہ پر سفر شروع کر دیتے ہیں۔ بچے بڑوں کی گفتگو بہت توجہ سے سنتے ہیں اس لیے بچوں کی موجودگی میں مہذب گفتگو کرنی چاہیے۔
(۹) بچے جب کسی حوالے سے آپ سے سوال کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس کو محض اس وجہ سے نہ روکیں کہ آپ مصروف ہیں یا آپ کے پاس وقت نہیں ہے یا اس کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکیں یا جوابات تلاش کرنے میں مدد نہیں کرسکتیں۔
(۱۰) بچوں کو اچھی صحبت کا پابند بنانے اور ناروا پابندیوں کے لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔
حضورؐ نے ایک تمثیل کے ذریعے اس حقیقت کو نہایت ہی موثر انداز میں واضح فرمایا ہے:
’’اچھے آدمی کے پاس بیٹھنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص عطار کے پاس بیٹھ جائے۔ اگر اس سے عطر نہ لے تو کم از کم اس کا دماغ خوشبوؤں سے معطر ہوگا اور برے آدمیوں کی صحبت کی مثال اس طرح سے ہے کوئی شخص لوہار کی بھٹی کے پاس بیٹھ گیا ہو اگرچہ اس کو زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا مگر اس کے کپڑے تو سیاہ ہو ہی جائیں گے اور بھٹی کی چنگاریاں اڑ اڑ کے اس کے کپڑوں میں سوراخ تو بنا ہی دیں۔‘‘
(۱۱)بچے کو ہر طرح سے بڑا ہونے میں مدد کریں اس کے اندر خود اعتمادی کی پرورش کریں۔ یہی خود اعتمادی اسے بالغ نظر بنائے گی اور وہ زندگی کے مختلف راستوں پر سفر کرے گا۔
بچوں کو روز مرہ کی زندگی میں بے شمار مسائل در پیش ہوتے ہیں جن میں ہماری مدد اور رہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تجربہ و سلیقہ
بچے عام طور پر روز مرہ کی زندگی میں چھوٹے چھوٹے کام انجام دینے میں اس وقت دشواری محسوس کرتے ہیں جب تک مشق و تجربہ کے ذریعے خود انہیں انجام دینے کے لائق نہیں ہوجاتے ایک نو عمر بچہ پیالے سے دودھ پیتے وقت، جھولے میں پینگ لیتے وقت، منہ دھوتے اور دسترخوان پر نئے نئے کھانے کھاتے وقت غرض ہر موڑ پر ایک نئی آزمائش سے دو چار ہوتا ہے۔
لیکن جوں جوں بچہ بڑا ہوتا بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے جاتے ہیں۔
ہمارا فرض
والدین اور دستاد کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم بچوں کو مسائل سے دوچار ہونے ہی نہ دیں یا ان کے مسائل خود حل کریں۔ شخصیت کا بیشتر انحصار مشکلات کو سر کرنے اور ان پر غالب آنے پر ہوتا ہے۔
جب انسان ایک کام شروع کرتا ہے تو ایک خاص مرحلے پر اس کی ترقی رک جاتی ہے اور حصول مقصد میں دشواریاں نظر آنے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی کئی ایسا سابقہ تجربہ بھی نہیں ہوتا جو اس مشکل میں کام آئے تو اس وقت انسان اپنی ذہنی فراست و اپج سے کام لیتا ہے۔ بچوں کے معاملے میں یہ بات اور واضح طور پر سامنے آتی ہے۔
مشکلات سے مقابلہ کی عادت ڈال کر بچوں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں نئے حالات اور مسائل سے سازگاری حاصل کرنے کی اہلیت و صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
رفتہ رفتہ ان کے اندر اپنے ردعمل اور تاثرات و تجربات کا ایک خاصا ذخیرہ ہو جاتا ہے۔
مشکلات میں خود کوئی فیصلہ کر کے اور معاملات کو سلجھا کر بچوں میں خود داری اور خود اعتمادی کا احساس بڑھتا ہے۔ اپنے سے مسائل کا مقابلہ کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے میں بچوں کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے۔ انہی مراحل میں بزرگوں والدین اور اساتذہ کی رہ نمائی درکار ہوتی ہے۔
اسکول سے پہلے کے مسائل
جب بچے گود اور گہوارے کی منزل سے گزر کر کچھ بڑے ہوتے ہیں تو حقیقتاً اس وقت سے انہیں اپنے ذاتی مسائل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ اس دور میں اسے بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ مثلاً چلنا، دوڑنا، زینے پر چڑھنا وغیرہ۔ کچھ عادتیں ڈالنی پڑتی ہیں جیسے منہ دھونا،کھانا پینا اور سونا وغیرہ۔ اور پھر اس سے بھی زیادہ اسے نئے معاشرتی تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ایسے مراحل میں بچوں کے ساتھ کھیلنے اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہنے سہنے کے آداب سیکھنے میں والدین کی اور اس سے بھی زیادہ نرسری اسکول اور اوپری درجات کے اساتذہ کی بھی رہ نمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔
ابتدائی اسکول کے بچوں کے مسائل
سن بلوغ سے قبل کے چند سال ایسے ہوتے ہیں جن میں بچوں کو بہت سی مشکلات کا تجربہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے بڑوں پر مکمل بھروسہ نہ کرتے ہوئے انہیں اپنی دشواریوں سے آگاہ نہیں کرتے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں اپنی دشواریوں کا علم نہیں ہوتا۔ وہ محض خلفشار اور بے اطمینانی سی محسوس کرتے ہیں ایسی صورت حال میں انہیں مربی و محسن کی ضرورت پڑتی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ابتدائی اسکول کے بچوں کی توجہ بالعموم اپنی صحت، دوستی، اسکول میں ڈھنگ سے پڑھنے لکھنے اور گھر والوں کے ساتھ اچھی طرح نباہ پر مرکوز ہوتی ہے۔
بالغوں کے مسائل
آغاز شباب میں متعدد اور مختلف النوع مسائل ہوتے ہیں اور ہوتے بھی پریشان کن ہیں۔ بڑا ہونا بذاتِ خود ایک مسئلہ ہے۔ مستزاد یہ کہ زندگی کے اس دور میں ایک طرف تو بچوں کے دلوں میں اپنے بزرگوں کے اثر و تسلط کے خلاف بغاوت روز افزوں ہوتی ہے، دوسری طرف وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بزرگوں کی حمایت اور تائید کی ضرورت ہے۔ کچھ بالغ بچے ضرورت سے زیادہ ہی حساس اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ کچھ بہت خیالی پلاؤ پکانے کے عادی ہوتے ہیں تو بعض چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان ہو جاتے ہیں، بعض پر ہر وقت سستی اور کاہلی چھائی رہتی ہے۔
چودہ پندرہ سال کے بچے کے لیے یہ بات مزید پریشانی کا باعث ہوتی ہے کہ اس کے تعلقات گھر والوں، دوستوں اور دوسرے لوگوں سے تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ وہ بعض معاملات میں اپنے کنبے کے دوسرے افراد سے کھلم کھلا اختلاف رائے کرتا ہے۔ پیشے کے مسائل کی طرف وہ بہت توجہ کرنے لگتا ہے اور وہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی صلاحیت کے مطابق موزوں پیشے کا انتخاب کیسے کرے؟ اس سلسلہ میں ملازمت کے امکانات کو تو بہر صورت اسے اپنے مستقبل کے خانے میں جگہ دینی پڑتی ہے ۔ کچھ بالغ بچے اس لیے پریشان رہتے ہیں کہ انہیں صحیح طریقے سے مطالعہ کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ چند ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی صحت کا دھڑکا لگا رہتا ہے، کچھ اس آرزووں میں رہتے ہیں کہ کاش انہیں لچھے دار باتیں کرنے کا سلیقہ آجاتا۔
بچوں کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بلاشبہ اہم ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ جسمانی نشو و نما سے متعلق ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ خود بخود حل ہوجاتی ہیں لیکن بعض ایسی بھی ہیں جن پر انہیں باقاعدہ سوچنا اور فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور پھر اسی فیصلہ کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی رہنمائی
اسلامی نقطہ نظر سے جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ روحانی اور اخلاقی صحت کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اسلام کی نظر میں بہترین شخص وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے خوب ڈرنے والا ہے۔علم نفسیات کے مطابق تین سے دس سال کی عمر کا زمانہ شخصیت کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے۔
اس عمر میں بچہ نیم شعوری کی کیفیت سے شعوری حالت کی طرف بتدریج ترقی کرتا چلا جاتا ہے اس کے اندر آزادیِ فکر و عمل کی روح ابھرنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس دوران بچہ اسکول اور مدرسے کے ماحول سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ وہ اساتذہ کی نگرانی میں علم بھی حاصل کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے تعلقات بھی بڑھاتا ہے اس موقع پر والدین اور اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ذہن کی تعمیر کریں۔ والدین بچوں کو فضائل اخلاق، سچائی دیانت داری، ادب، اخلاق اور محنت کی تعلیم دیں اور رذائل اخلاق جیسے جھوٹ، بد دیانتی، غیبت، منافقت، بزدلی، کاہلی اور کام چوری جیسی برائیوں سے آگاہ کریں۔ کہنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی کریں، قول و عمل میں تضاد اور اختلاف نہ ہو۔ ان چیزوں کی وجہ سے بچے کی شخصیت منقسم ہوسکتی ہے اور غلط اور صحیح کے مابین فرق کرنے کی صلاحیت ختم ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ چھوٹے بچے کی تربیت کو اسلام میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ قرآن کی متعدد تعلیمات اور حضورؐ کی بہت سی احادیث سے لگایا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو اپنے نفس کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ (التحریم:۶)
بعض اجمالی تعلیمات سورہ لقمان کی ان نصیحتوں سے ملتی ہیں جو حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دیں۔ ان آیات کریمہ کا مفہوم یوں ہے ’’جب لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق حسن سلوک کی تاکید کی، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا۔ دو برس کا عرصہ دودھ چھڑانے میں لگا۔ تو میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کر، تجھے میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور تجھ پر اگر وہ دونوں (والدین) اس بات کے لیے زور دیں کہ میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کی تیرے پاس دلیل نہیں تو ان کی بات نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور میری طرف رجوع والے لوگوں کے راستے پر چلنا، پھر تم سب کو میری ہی طرف آنا ہے پھر میں تم کو جتلا دوں گا جو تم کرتے رہے ہو۔ بیٹا اگر عمل رائی کے دانے کے برابر ہو وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا زمین و آسمان کے اندر ہو اللہ تعالیٰ اسے لے آئے گا۔ بے شک باریک بیں اور باخبر ہے۔
بیٹے نماز پڑھ، نیکی کا حکم دیا کر اور برائی سے منع کیا کر اور جو مصیبت آئے اس پر صبر کیا کر، یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے اور لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیرا کر اور زمین پر اکڑ کر نہ چل بے شک اللہ تکبر اور فخر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں اعتدال پیدا کر اور اپنی آواز کو پست رکھ۔ بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔
مندرجہ آیات سے عقائد اور معاملات کی اچھی طرح وضاحت ہوجاتی ہے۔ بس ہم خیال کریں کہ ہمارے بچے ہمہ وقت ان نصیحتوں کو سامنے رکھ سکیں۔
٭ حضورؐ نے فرمایا ’’کسی باپ کا کوئی عطیہ اپنے بیٹے کے لیے اس سے بڑھ کر نہیں کہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے۔‘‘
دوسری جگہ آپؐ نے فرمایا:
’’جو شخص تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا بیٹوں کی پرورش کرے اور ان کو اچھی تعلیم دے اور عمدہ آداب سکھائے اور پھر اس کے بعد نکاح کردے تو ایسا شخص جنتی ہوگا۔‘‘ (ترمذی)
بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ حضرت ابو حفص عمرؓ بن ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ کی پرورش میں بچہ ہی تھا اور میرا ہاتھ پیالے میں گھومتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا اے لڑکے بسم اللہ پڑھو اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ، آپ کے ارشاد کے بعد میرے کھانے کا طریقہ یہی رہا۔
آپؐ نے فرمایا: ’’بچوں کی صحیح تربیت کرنے والا جنت میں جائے گا۔‘‘
’’جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دیں اور دس سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر ماریں اور ان کا بستر الگ کر دیں۔‘‘lll