بچوں کی تربیت اور نگرانی کے چند پہلو

ابوالفضل نور احمد

بچوں کی تربیت اور نگرانی کا کام بڑا نازک کام ہے اور اسی حیثیت سے یہ مشکل بھی ہے۔ ذیل میں ہم چند ایسے پہلوؤں کا تذکرہ کررہے ہیں جن کاتربیت اور نگرانی میں دھیان رکھنا ضروری ہے۔ اگر ان پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو بھی غفلت کا شکار ہوگیا تو بچے کی شخصیت کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور آپ اپنے بچے کی تربیت میں کامیابی سے محروم رہ سکتی ہیں۔
ایمانی پہلو
یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے شعور اور اس کی فرمانبرداری کے لیے توحید کے بنیادی اصول کے بچے کے اندر راسخ کرنے کے سلسلے میں مربی اپنی اہم ذمہ داری کو پوری کرے تاکہ بچہ لایعنی اور بے مقصد زندگی کے تصور سے بچ سکے اور الحادی تعلیمات اور خطرناک لادینی نظریات و افکار سے محفوظ رہ سکے۔ نیز مربی کو اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ بچہ کون سی کتابیں اور رسالے مطالعہ کرتا ہے۔ پس اگر ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے جن میں زیغ و ضلال، الحاد و بیگانگی وغیرہ کی گمراہی کا سامان ہے تو پھر اپنے بچے کو اس سے دور رکھے اور اس کے ضرر سے اس کو آگاہ کرے۔
نیز مربی کو چاہیے کہ اس بات کا بھی خیال رکھے کہ بچہ کس قسم کے ساتھیوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور کن جماعتوں اور پارٹیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پس اگر ان میں بے دینی اور الحاد و بیگانگی کا مرض ہے تو بچے کو ان سے دور رکھنے کی نہایت سمجھداری کے ساتھ سعی کرنی چاہیے۔
اخلاقی پہلو
یہ ہے کہ مربی بچے میں سچ بولنے کی عادت پر نظر رکھے یعنی اگر وہ دیکھے کے بچہ وعدہ خلافی کرتا ہے یا بات چیت میں جھوٹ سے کام لیتا ہے، تو اس کو چاہیے کہ بچہ جیسے ہی جھوٹ بولے اسی وقت اس کی اصلاح کرے۔ اسی طرح مربی کو امانت داری کے وصف کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ پس اگر بچہ معمولی چوری بھی کرے تو مربی کی ذمہ داری ہے کہ فوراً اس کی طرف توجہ کرے اور اس مرض کا علاج کرے۔
نیز مربی کو چاہیے کہ بچہ اگر گالی بکتا ہے اور زبان سے برے کلمات نکالتا ہے تو حکمت و دانائی سے اس کی اس عادت کا علاج کرے، اس کے سامنے بااخلاق بچوں کے اوصاف بیان کرے تاکہ وہ اچھے اخلاق و صفات کی طرف مائل ہو۔ مربی بچے کے اٹھنے بیٹھنے اور طور واطوار کی نگرانی رکھے اوراس میں کہیں بھی خامی کی نشاندہی ہوتی ہو تو اس کی اصلاح کرے۔
جسمانی پہلو
یہ ہے کہ کھانے پینے اور سونے جاگنے میں حفظانِ صحت کے ان اصولوں کا خیال رکھے جن کااسلام نے حکم دیا ہے۔ کھانے کے سلسلے میں مربی کو چاہیے کہ وہ بچے کو بدہضمی سے بچائے اور ضرورت سے زیادہ کھانے پینے سے روکے اور پہلا کھانا ہضم ہونے سے پہلے دوبارہ کھانا نہ کھانے دے۔ اسے دو یا تین سانس میں پانی پینے کی تعلیم دے اور برتن میں سانس لینے سے روکے اور کھڑے ہوکر اور بائیں ہاتھ سے پانی پینے سے روکے۔ سونے کے سلسلے میں بچے کو داہنی کروٹ پر لیٹنے کا حکم دے اور کھانا کھاکر فوراً سونے سے منع کرے۔ غرض مربی کو ان تمام چیزوں پر نظر رکھنی چاہیے جو جسم کو تباہ اور صحت کو برباد کرنے والی ہیں، نیز مربی کو چاہیے کہ بچے میں جب کسی بیماری کا اثر یا علامت ظاہر ہو تو علاج کے لیے کسی ماہر طبیب کی طرف رجوع کرے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد پاک ہے:
یا عباد اللّٰہ تداووا فان اللّٰہ عزو جل لم یضع داء الا وضع لہ شفاء۔ (احمد)
’’اے اللہ کے بندو! علاج کرواس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کے لیے دوا اور شفا بھی ناز ل فرمائی۔‘‘
پس اگر اسلامی طریقے پر بچے کا علاج ہوگا تو بچہ بہت سے امراض سے بچ جائے گا اور وہ پیش آنے والے بہت سے خطرات و امراض سے چھٹکارا حاصل کرلے گا۔
نفسیاتی پہلو
اس سے مراد یہ ہے کہ مربی بچے میں شرمندگی کی عادت پر نظر رکھے۔ اگر وہ دیکھے کہ بچہ یکسوئی، تنہائی کا اور مجلسوں سے دوری کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ بچے میں جرأت پیدا کرے اور لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اسے تلقین کرے اور اس میں سمجھ بوجھ اور فکری و معاشرتی پختگی کو بڑھائے۔ اسی طرح بچے میں ڈر اور خوف کی عادت پر نظر رکھے، اگر یہ محسوس ہو کہ بچے میں بزدلی، خوف اور حادثات کے سامنے شکست خوردہ بننے اور مشکلات سے بھاگنے کی عادت ہے تو مربی کو چاہیے کہ بچے میں خود اعتمادی پیدا کرے اور شجاعت کا پہلو اجاگر کرے تاکہ دنیوی زندگی کی مشکلات و آفات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرسکے۔
ماں پر خصوصی طور سے یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ بچے کو سائے، تاریکی یا جن، بھوت ، چڑیل اور خوفناک مخلوق سے نہ ڈرائے،تاکہ بچہ ڈر اور خوف کا عادی نہ بن جائے۔
اسی طرح مربی پر لازم ہے کہ بچے میں احساسِ کمتری کی بیماری پر نظر رکھے، اگر بچے میں اس کا اثر معلوم ہو تو سبب معلوم کرکے اس کا علاج کرے۔
بچے میں غصے کی عادت پر بھی نظر رکھے، اگر بچے کو معمولی معمولی سی بات پر ناراض ہوتا دیکھے تو اس کا سبب معلوم کرکے اس کا ازالہ کرے اور اس عادت کو ختم کرنے کی سعی کرے۔
معاشرتی زندگی کا پہلو
اس سے مراد یہ ہے کہ مربی بچے میں یہ بات بھی بغور دیکھے کہ وہ دوسروں کے حقوق ادا کررہا ہے یا نہیں؟ اگر محسوس ہو کہ بچہ اپنے والد، والدہ، بہن، بھائیوں، رشتے داروں یا اساتذہ یا بڑوں کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے تو چاہیے کہ بچے کے سامنے اس کو تاہی و تقصیر کا انجام اور اس حرکت کے نتائج بیان کرے تاکہ وہ سمجھ کر اپنے رویے میں تبدیلی کی طرف مائل ہوسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ان باتوں پر مکمل نظر رکھی جائے تو بچہ ایک ایسا ہوشیار، سمجھدار، باادب، بااخلاق شخص بن جائے گا جو دنیوی زندگی میں ہر شخص کے حق کو بلا کسی کمی و کوتاہی کے ادا کرنے والا ہوگا۔
اسی طرح مربی کو چاہیے کہ بچے کے قلب میں ایمان و تقویٰ اور مراقبہ کے اصول جاگزیں کرے اور دل میں ایثار و محبت اور الفت و ہمدردی اور پاک باطنی کے جذبات واحساسات پیدا کرے، تاکہ بچہ جب جوان ہو تو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرے اور مخلوق کے بھی۔
روحانی پہلو
اس کا مطلب یہ ہے کہ مربی بچے میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے پہلو پر نظر رکھے اور اس کو ہمیشہ یہ بتلاتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی باتیں سن رہا ہے اور اس کا ظاہر و باطن جانتا ہے اور آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید سے آگاہ ہے۔ مربی کو خشوع و خضوع اور تقویٰ الی اللہ کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی کو سمجھنے کے لیے بچے کی چشم بصیرت کھول دے جو چھوٹے بڑے، جاندارغیر جاندار، اگنے والے درختوں، مہکدار پھولوں اور عجیب و غریب قسم کی کروڑوں اربوں مخلوق کو محیط ہے۔ نیز ابتدائے شعور سے نماز میں خشوع، خضوع اور قرآن پاک کی تلاوت سے متاثر ہونے کا عادی بنایا جائے۔
مربی کو نماز روزے کی پابندی پر شروع ہی سے نگاہ رکھنی چاہیے۔ نیز اگر وسعت ہو تو چاہیے کہ حج کے لیے بھی ساتھ لے جائے تاکہ حج کے مناسک سیکھ لے۔ اسی طرح مربی کو چاہیے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کاعادی بنائے۔اسی طرح مربی کو چاہیے کہ دعاؤں کی پابندی کے پہلو پر نظر رکھے،جس کا طریقہ یہ ہے کہ بچے کو وہ اہم دعائیں یاد کرادی جائیں جو صبح و شام سونے جاگنے، کھانے پینے، گھر میں داخل ہونے اور نکلنے وغیرہ کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں۔
بلاشبہ اگر مربی بچوں کو یہ دعائیں سکھلادے گا اور وقت پر پڑھنے کی ترغیب دے گا تو بچے میں اللہ تعالیٰ کا خوف بڑھے گا اور اس کے قلب میں تقویٰ جاگزیں ہوگا اور مراقبہ ومحاسبہ کی عادت پڑے گی، ایسی صورت میں بچے کے حالات درست اور اس کے اقوال وافعال صحیح ہوجائیں گے، پھر وہ بچہ پاکیزگی اور صفائی میں روئے زمین پر چلنے والے فرشتے کی مانند سمجھا جائے گا۔
سزا کے ذریعے تربیت
اسلامی شریعت کے بہترین عادلانہ احکام اور اس کے عظیم بنیادی قواعد اس غرض کے لیے مقرر کیے گئے ہیں تاکہ انسان کی بنیادی ضروریات کی حفاظت ہوسکے جن سے کوئی بھی انسان نہ مستغنی ہوسکتا ہے اور نہ ان کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔ بچوں کے لیے سزا کی تجویز حقیقت میں اس کے دین، اس کے نفس، اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ہے۔ لیکن اس کے باوجود اصل یہ ہے کہ بچے کے ساتھ نرمی اور پیار کا برتاؤ کیا جائے۔چنانچہ امام بخاریؒ اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں روایت کرتے ہیں کہ نرمی اختیار کرو اور سختی اورفحش گوئی سے بچواور آجریؒ روایت کرتے ہیں کہ سکھاؤ لیکن سختی نہ کرو۔خطا کار بچے کو سزا دینے میں اس کی طبیعت کی رعایت کی جائے۔
بچے ذکاوت اور سمجھداری میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کی اصلاح و تنبیہ کے لیے ان کی طرف ترچھی اور تیز نگاہوں سے دیکھنا بھی کافی ہوتا ہے، جبکہ دوسرا بچہ سزا میں سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کا محتاج ہوتا ہے اور کبھی مربی کو اصلاح و نصیحت اور ڈانٹ ڈپٹ میں ناکامی کے بعد خفیف ضرب کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ غرض مربی کو سزا دینے میں نہایت حکمت سے کام لینا چاہیے اور ایسی سزا دینی چاہیے جو اس کی ذکاوت اور مزاج کے موافق ہو۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146