بچوں کی تربیت: تجربات اور عملی باتیں

محمد اسلم غازی

تحریکی لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے افرادِ خاندان کو کاروانِ تحریک میں لانے کی زیادہ کوششیں کریں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ دیگر لوگ تحریک میں شامل نہ ہوں تو کوئی توجہ نہیں دیتا مگر تحریکی لوگوں کے اہلِ خانہ، خصوصاً بیٹے اگر تحریک میں شامل نہ ہوں تو لوگ ضرور محسوس کرتے ہیں۔ بیوی/شوہر، والدین، بھائیوں، بہنوں، رشتہ داروں اور احباب کو متاثر ومطمئن کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ پختہ شعور کے حامل اور کسی نہ کسی فکر و نظر سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کا ایک رخ متعین ہوچکا ہوتا ہے۔ البتہ بچوں کو اگر وہ پختہ شعوری کی عمر کو نہ پہنچ گئے ہوں تو اسلامی و تحریکی فکر میں ڈھالنا قدرے آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے ذہن و دل ایک سادے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اولاد مال و دولت کی تو وارث ہوتی ہے مگر یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ والدین کے نظریۂ حیات کی بھی وارث ہو۔ تحریک میں تو اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ باپ کے مرنے کے بعد گھر سے تحریک کا جنازہ بھی اٹھ گیا۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ باپ تو پوری زندگی جماعت کے استحکام کے لیے کوشاں رہا لیکن اولاد جماعت کی جڑیں کھودنے میںلگی ہوئی ہے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ بعض بڑے بڑے تحریکی ذمہ داروں کی اولاد تحریک میں شامل نہیں ہوئیں۔

تحریک میں آنے کے بعد بار بار یہ سوال سامنے آتا رہا اور جب اپنے بچوں کی تربیت کا وقت آیا تو مذکورہ بالا صورتحال سے بچنے کے لیے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہوگیا۔ کافی غوروفکر کرنے کے بعد میں اس سوال کے درج ذیل ۶ ممکنہ جواب تلاش کرسکا۔

(۱) ابتدائی دور میں تحریک کے ہمہ وقتی کارکنوں کو جو ’’کفاف‘‘ (تنخواہ) دیا جاتا تھا اس میں بیوی بچوں کی ضرویات کم ہی پوری ہوتی تھیں۔ بعض بچوں کے دلوں میں یہ خیال بیٹھ گیا ہوگا کہ ہماری محرومی اور تنگی کی وجہ ہمارے باپ کا تحریک سے منسلک ہونا ہے۔

(۲) تحریکی کاموں میں گہرے انہماک کی وجہ سے چونکہ ہمارے ذمہ داروں کو اپنے تن بدن کا ہوش تو رہتا نہیں اس لیے ممکن ہے ان میں سے بعض اپنے بیوی بچوں کو مناسب وقت نہ دے پائے ہوں اور بچوں کی فکری، علمی و عملی تربیت میں کمی رہ گئی ہو۔

(۳) ممکن ہے بعض تحریکی بزرگوں اور ان کے اہل خانہ نے اس خیال سے کہ بچوں کی وجہ سے ان پر اور جماعت پر انگلی نہ اٹھے، گھر کے ماحول کو زیادہ اسلامی، سنجیدہ اور باوقار بنانے کے لیے بچوں کے سیروتفریح، کھیلنے کودنے اور ہنسنے بولنے پر پابندیاں لگادی ہوں جس کے ردعمل میں بچوں کو جماعت سے وحشت ہونے لگی ہو؟

(۴) بچوں کو تادیب و سزا کے ذریعہ ’’اچھا مسلم بچہ‘‘ بنانے کی کوششوں نے ان میں سے بعض کو باغی بنادیا ہو۔

(۵) جماعتی لوگوں نے بار بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ ان کی اولاد کے دلوں میں یہ ڈر بیٹھ گیا ہو کہ اس سے تعلق رکھنے والوں کو یہ مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔

(۶) والدین کی تربیتی کوششوں کے باوجود بچوں نے دین اور تحریک اسلامی پر دنیا کو ترجیح دی ہو۔ حضرات نوحؑ اور لوطؑ کی مثالیں سامنے ہیں۔

یہاں میں اپنا یہ احساس درج کرانا چاہتاہوں کہ شریعت نے کفاف کا معیار عسرت، تنگی اور مشکل کی بجائے خوشحالی، فراخی اور سہولت مقرر کیا ہے۔ اسی لیے نبیؐ، خلفائے راشدینؓ اور دیگر ہمہ وقتی کارکنان کو بیت المال سے گھروں کے کام کے لیے باندیاں، غلام اور سواریوں کے لیے اونٹ اور گھوڑے ملا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اپنی ذات کے لیے عزیمتوں کی راہ منتخب کی ہو۔ اپنے لیے عزیمت اور دوسروں کے لیے رخصت کی حکمت بھی اسلاف کا طریقہ تھا۔ چنانچہ اپنے لیے سادگی، فقر اور درویشی پسند کرنا اچھی بات ہے لیکن اپنی پسند کو اہل خانہ اور بچوں پر تھوپنا ظلم ہے۔ انہیں تو ان کا پورا پورا حق پہنچانا عین فریضہ ہوتا ہے جس میں کوئی اچھا مسلمان کبھی کوتاہی نہیں کرسکتا۔

اپنے گھر اور خاندان کو اس سانحے سے بچانے کے لیے میں نے چند بھر پور کوششیں کی ہیں مثلا: (۱) میرے بچے کسی طرح کے احساس محرومی اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ (۲) ان کی فکری ،علمی و عملی تربیت کے لیے میں کافی وقت دوں۔ (۳) ان کی فطرت کی پوری رعایت کروں۔ (۴) وہ جماعت کو باعث زحمت سمجھنے کی بجائے باعث رحمت سمجھیں۔ (۵) جماعت کے تئیں ان میں محبت اور تشکر کے جذبات پیدا ہوں۔

(۱) احساس محرومی اور تنگی سے بچانے کے لیے میں نے انہیں اچھا کھلایا پلایا، گھر میں کھانے پینے کی ہر چیز اعلیٰ کوالٹی کی استعمال کی۔ دودھ، گھی، مکھن اور پھلوں کی کمی نہ ہونے دی۔ ان کو اچھا خاصا جیب خرچ دیا۔ اسکول فیس کبھی معاف نہیں کرائی۔ کبھی سیکنڈ ہینڈ کتابیں نہیں خریدیں۔ ہمیشہ ۲ جوڑے یونیفارم، نئے بستے اور اسکول شوز دلائے تاکہ ہم جماعتوں میں نمایاں رہیں۔ انہیں نئے سے نئے فیشن کے مہنگے سے مہنگے کپڑے پہنائے۔ انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوائی نیز ان کی تمام جائز خواہشیں اور فرمائشیں پوری کیں۔ الغرض انہیں امیرانہ ٹھاٹ باٹ نہ سہی لیکن اوسط سے بہتر وسائل حیات بہم پہنچانے کی انتھک کوششیں کیں۔

(۲) قرآن و سنت اور اسلامی و تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کیے بنا اسلام اور تحریکِ اسلامی کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ لٹریچر عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں موجود ہے۔ بچوں کو عربی و فارسی پڑھانے کے مقابلے میں اردو پڑھانا آسان تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل کروایا۔ (اس میں بڑا دخل اردو زبان سے میرے لگاؤ کو بھی تھا)۔ اس کے علاوہ بچوں کو کہانیاں سناسنا کر ان میں کہانیوں سے دلچسپی پیدا کی۔ جب انہیں روانی سے اردو پڑھنا آگیا تب انہیں مائل خیرآبادیؒ کی شاہین سیریز اور مکتبہ جامعہ وغیرہ کی کہانیاں نیز بچوں کے ماہنامے ہلال، نور اور پیامِ تعلیم وغیرہ پڑھنے کا چسکا لگایا۔ میرے ذاتی کتب خانے کی الماریوں کا ایک گوشہ ہمیشہ میرے بچوں کی لائبریری کا کام دیتا رہا۔ اس طرح میں نے انہیں مطالعہ کا خوگر بنایا۔ وہ چھوٹے چھوٹے تھے تب سے ہی انہیں اپنے ساتھ مسجد لے جاتا رہا ہوں اور نمازِ فجر کے بعد تلاوت اور مطالعے کے لیے لے کر بیٹھتا ہوں۔ الحمدللہ نماز اور تلاوت سے انھیں نیند اور نسیان کے سوا دیگر اور کوئی مصروفیت باز نہیں رکھ سکتی۔ میں نے اور میری اہلیہ نے نیز محلے کی مسجد کے امام صاحب نے بچوں کو ناظرہ پڑھایا۔ بچوں نے قرآن (ناظرہ)، ترجمہ و تفسیر، سیرت، حدیث اور آثارِ صحابہ پر کئی کتب اور بہت سا تحریکی لٹریچر پڑھ لیا ہے۔ اور مزید لٹریچر کا مطالعہ جاری ہے۔ الحمدللہ فکری طور سے وہ تحریکِ اسلامی سے جڑے ہوئے ہیں۔

(۳) بچے اسلام اور تحریک سے وحشت محسوس نہ کریں اس کے لیے میں نے ان کی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں سیروتفریح، کھیلنے کودنے اور اسپورٹس میں حصہ لینے کی ہمیشہ آزادی دی۔ کھیل کود اور اسپورٹس میں حصہ لینا بچوں کا فطری حق ہے۔ کھیل ان کو بگاڑتے نہیں بلکہ ان کی جسمانی چستی و پھرتی، ذہنی نشوونما اور اسمارٹ شخصیت کے ارتقاء کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ میںنے اپنے بچوں کو بشمول لڑکی، ۸، ۹ سال عمر ہونے پر سائیکلیں خرید دی تھیں۔ میرے دونوں لڑکے رولر اسکیٹنگ میں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہیں۔ کم عمری سے ہی ان کے پاس کرکٹ کا مکمل سامان، بیڈ منٹن، فٹ بال، رنگ بال اور دیگر کھیلوں کے سامان موجود ہیں۔ اسکول میں انہیں اسپورٹس اور دیگر مقابلوں، جوڈو کراٹے کلاس اور اسکاؤٹ میں بھرتی کرایا۔ میں نے اپنے بچوں کو پتنگ اڑانے، لٹو پھرانے اور گولیاں کھیلنے سے کبھی نہیں روکا۔ میں نے اپنے بچوں کو شطرنج کھیلنا بھی سکھایا۔ کیونکہ مجھے خود ان تمام کھیلوں سے دلچسپی ہے اور اب میں بھی کبھی کبھار بچوں کے ساتھ کھیل لیتا ہوں۔ میں نے اپنے بچوں کو ایک حد تک شرارتیں کرنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی کیونکہ جو بچے شریر نہیں ہوتے وہ کم ذہین ہوتے ہیں۔

میں نے اپنے بچوں کی سیروتفریح کا خاص خیال رکھا۔ گاہے گاہے انہیں تفریحی اور تاریخی مقامات کی سیر کرایا کرتا۔ ممبئی کی تمام تفریح گاہوں اور اہم مقامات کے علاوہ انہیں پنچگنی، ماتھیران، مہابلیشور، اورنگ آباد، آگرہ، دہلی اور راجستھان کے کئی مقامات کی سیاحت کرائی ہے۔ اسکول اور کالج کی طرف سے جب بھی پکنک وغیرہ کے پروگرام بنتے، میں بچوں کو ان میں لازماً شریک کراتا۔ میں نے اپنے بچوں کو کافی وقت دیا ہے۔ صرف ان کو پڑھانے کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ کھیلنے، ہنسنے بولنے، سبق آموز کہانیاں اور صاف ستھرے مزیدار لطیفے سنانے کے لیے بھی۔ اسی لیے میرے بچے اپنی ماں کی بجائے میرے پاس سونا پسند کرتے تھے۔ میں نے بچوں کی دلچسپیوں کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں سرکس، جادوگروں کے شو اور بچوں کے لیے بنی خاص فلمیں بھی دکھائی ہیں۔

یہ سب میںنے اس لیے کیا کہ انہیں گھر کے دینی ماحول سے وحشت نہ ہو اور وہ سمجھ جائیں کہ اسلام اور تحریکِ اسلامی گھر کے ماحول کو ہر وقت اس طرح خشک، بوجھل اور سنجیدہ نہیں بنائے رکھتے گویا وہ گھر نہیں مدرسہ یا مسجد ہوں۔ سیروتفریح اور کھیلوں میں بچوں کو مصروف رکھنے سے وہ پڑھائی اور گھر کے کاموں میں نکمے نہیں ہوئے۔ الحمدللہ میری لڑکی سائنس گریجویٹ، بڑا لڑکا MBAاور چھوٹا لڑکا بارہویں Civil Eng.سے کررہا ہے۔ البتہ سیروتفریح، کھیل کود اور تعلیمی مصروفیات نے انہیں ٹی وی کی مہلک بیماری سے بچالیا۔ الحمدللہ نہ میرے گھر میں ٹی وی ہے، نہ میرے بچوں کو اس کا بے جا شوق ہے۔ ورنہ عموماً گھر کا یا پڑوس کا ٹی وی تمام تربیتی کوششوں کو برباد کردیتا ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ اس نے ان حقیر کوششوں کو میرے اور میرے بچوں کے حق میں مفید تر بنادیا ہے۔

(۴) میں نے اپنے بچوں کو تحریک سے نزدیک تر رکھنے کے لیے ان میں یہ احساس پیدا کیا کہ ننہالی اور ددیہالی رشتہ داروں یعنی ماموؤں، چچاؤں، خالاؤں اور پھوپھیوں کی طرح ہی تحریک کے رفقاء بھی ان کے رشتہ دار لگتے ہیں۔ اس لیے میں گاہے گاہے اپنے گھر پر رفقاء کی دعوت بھی کیا کرتا ہوں۔ بعض رفقاء تو میرے گھر بے تکلف آیا جایا کرتے ہیں۔ الحمدللہ اس سے مجھے بچوں کو تحریک سے جوڑنے میں بڑی مدد ملی۔

(۵) بچوں میں تحریک کے لیے جذباتِ احترام، محبت اور تشکر پیدا کرنے کے لیے بھی میں نے خاصی کوششیں کی ہیں۔ مختلف زاویوں سے بار بار یہ بات ان کے ذہن نشین کرانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا کہ تحریک ہماری محسن ہے۔ یہ ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ اس ملک اور دنیا کے بہت سے انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زحمت تو کسی کے لیے بھی نہیں ہے۔ میں انہیں سمجھاتا رہتا ہوں کہ فضل خدا اور تحریکِ اسلامی کی وجہ سے ہی ہم لوگ اچھے مسلمان، نیک انسان اور شریف شہری بن سکے ہیں۔ اللہ کے فضل اور تحریک سے وابستگی کی وجہ سے جن برائیوں اور ان کے خطرناک نتائج سے نجات ملی ان کا تذکرہ بھی کرتا رہتا ہوں۔اس کی وجہ سے اور بھی جو بے شمار فوائد حاصل ہوئے وہ بھی ان کو گناتا رہتا ہوں۔ مثلاً صلاحیتوں کو جلا ملی۔ پہلے دو لفظ بول اور لکھ نہیں سکتا تھا۔ اسی کی تربیت سے تقریری و تحریری خوبیاں پیدا ہوئیں ۔تعمیری و اخلاقی شاعری اور نثر کی طرف بھی توجہ ہوئی۔ ذہنی اورقلبی سکون کی وہ نعمت حاصل ہوئی جس کے لیے دنیا ترس رہی ہے اور لاکھوں جتن اور کثیر دولت صرف کرنے کے بعد بھی حاصل نہیں کرپاتی۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ میرے والد 45-40سال اور میں تقریباً ۱۸؍سال محنت سے ملازمت اور کاروبار کرنے کے بعد بھی دیگر لاکھوں لوگوں کی طرح ممبئی میں سرچھپانے کی جگہ حاصل نہیں کرسکے تھے۔ شادی کے بعد میں بیوی بچوں کو لیے دربدر پھرتا رہا تھا لیکن جیسے ہی تحریک کے لیے ہمہ وقتی فارغ ہوا اس نے ایک رہائشی کوارٹر فراہم کردیا جس میں ۲۰ سالوں سے ہم رہ رہے ہیں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ جماعت کے عملی اور مالی تعاون کے بغیر نہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرپاتے نہ میں ادھیڑ عمر میں پوسٹ گریجویشن کرسکتا۔ جب برادری، خاندان اور دوستوں میں یا محلے میں میری پذیرائی ہوتی ہے یا جب اخبارات میں تحریکی سرگرمیاں انجام دینے پر میرا نام اور کبھی کبھی تصویر چھپتی ہے یا ٹی وی پر نظر آتا ہوں تو بچے فخر سے پھولے نہیں سماتے۔ اس وقت ان کو یہ ذہن نشین کرانا بے حد آسان ہوتا ہے کہ یہ سب تحریک کی برکت اور اسی کے طفیل ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب بچے بہ آسانی تسلیم کرلیتے ہیں کہ اللہ اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کو آزمائشوں میں ڈالتا ہے تو نوازتا بھی ہے۔ اور یہ بھی کہ دولت کے بل پر جو شہرت اور عزت ملتی ہے وہ مصنوعی اور عارضی ہوتی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کے سیاہ کارنامے اور تحقیر و تذلیل بھی وہ اپنی آنکھوں اور کانوں سے دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ الغرض بچوں کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ ہمیں جو آرام و سکون، علم و صلاحیت اور شہرت وعزت حاصل ہے وہ بفضل خدا اور تحریک اسلامی کی وجہ سے ہی ہے۔

اس سے قطع نظر کہ بچے ہمارے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریکِ اسلامی میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، ان کی تربیت ہم پر ہرحال میں فرض ہے۔ ہمیں ان کی ہمہ جہت تربیت کی بھر پور اور انتھک کوشش کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں بھی میں نے جو کچھ تجربات کیے ہیں وہ افادئہ عام کے لیے پیش کررہا ہوں۔

٭ چھوٹے بچے رو کر اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ جب وہ بولنا سیکھ جاتے ہیں تب اکثر اپنی ضرورتیں پوری نہ ہونے پر رونے لگتے ہیں۔ بچہ جب یہ سمجھنے لگتا ہے کہ رونے سے ہی اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں تو وہ رو رو کر اپنی ہر مانگ پوری کرانے کا عادی ہوجاتا ہے۔ آخر کار ایسے بچے بے حد ضدی ہوجاتے ہیں۔ بچے کو ضدی بننے سے بچانے کے لیے والدین کو چاہیے کہ وہ چھوٹے بچوں کی ضرورتوں کا پورا لحاظ و خیال رکھیں اور روکر چیزیں مانگنے سے پہلے ہی ان کی ضرورتیں پوری کریں۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی ضرورت ان کی پسند کے مطابق پوری کی جائے۔ لیکن اگر ان کی پسند غیر معیاری ہو تو ان کو سمجھانا چاہیے۔ بچوں کے بڑے ہونے تک ان کی پسند کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔ یہاں تک کہ تعلیم اور شادی بیاہ کے معاملات میں بھی ان پر اپنی پسند نہیں تھوپنی چاہیے۔

٭ بچوں کے ہاتھوں سے صدقہ خیرات کراتے رہنے سے ان میں انفاق کی عادت پڑتی ہے۔ سوالیوں اور بھکاریوں میں جو واقعی محتاج ہوں مثلاً اندھے، لولے، لنگڑے، کوڑھی وغیرہ کو بچوں کے سامنے دیجیے یاان سے دلوائیے تاکہ ان میں دینے کی عادت بھی پڑے اور وہ نقلی اور حقیقی ضرورتمندوں میں تمیز کرنا بھی سیکھیں۔

بچے سب سے بڑے نقال ہوتے ہیں۔ وہ والدین اور اپنے اطراف رہنے والوں سے ہی سب کچھ سیکھتے ہیں۔ بچوں کی اس عادت سے بہت سے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً چھوٹے بچے عموماً بال کٹواتے وقت بہت روتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ اس قدر مچلتے ہیں کہ زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔ میں نے اپنے بچوں کی تربیت میں اس معمولی سی بات کا بھی خیال رکھا ہے۔ میں صرف یہ کرتا تھا کہ اپنی حجامت ان کے سامنے بیٹھ کر بنواتا تھا اور وہ دیکھتے رہتے تھے اس کا بہترین نتیجہ یہ نکلا کہ میرے بچے حجامت بنواتے ہوئے کبھی نہیں روئے۔

بچے جھوٹ بولنا بھی والدین سے ہی سیکھتے ہیں۔ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے لیکن بچوں کے سامنے تو اس سے خاص طور پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً کسی بے تکلف دوست کا رات گئے فون آنے پر بچوں کے سامنے بیوی سے یہ ہرگز مت کہیے کہ ’’کہہ دو سوگئے۔‘‘ آج جب کہ جھوٹ بولنے کو ہوشیاری سمجھا جاتا ہے، بچوں کی تربیت کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ممکن ہے محلے کے دوستوں یا ہم جماعت لوگوں کی وجہ سے یہ بری لت انہیں لگ جائے۔ چنانچہ بچے پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ اس کے معاملات کی جانچ پڑتال کبھی اس کی لاعلمی میں اور کبھی اس کے علم میں لاکر کرتے رہناچاہیے۔ جب اس کے علم میں لاکر کسی معاملے کی جانچ کریں تو بچے کی سچائی پر اسے انعام سے ضرور نوازیں اور غلطی ثابت ہونے پر سزا دیں۔ ایک بار میں نے اپنے لڑکے کو فیس جمع کرانے کے لیے روپے دیے۔ اسکول سے واپسی پر کہنے لگا روپے ایک لڑکے نے چھین لیے۔ میں فوراً اسے ساتھ لے کر اس لڑکے کے گھر پر پہنچا۔ اس کی ماں نے پوری بات سن کر فوراً اپنے لڑکے کی تلاشی لی اور اس کی جیب سے فیس کی پوری رقم برآمد کرلی۔ میں اپنے بیٹے کی سچائی پر بے حد خوش ہوا اور اسے انعام دیا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس نے رقم کہیں گم کردی اور ڈر کے مارے جھوٹ بول رہا ہے۔

٭ بچوں میں بہادری اور جرأت پیدا کرنے اور خوف و ہراس سے انہیں بچانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ بعض مائیں بچوں کو شرارتوں سے باز رکھنے کے لیے انہیں خیالی ناموں اور چیزوں سے ڈراتی ہیں۔ ایسے بچوں میں بڑا ہونے پر بھی خوف کی نفسیات باقی رہتی ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو خوف سے عاری بنانے کے لیے بچپن سے ہی کوششیں کیں۔ کبھی انہیں جنوں، بھوتوں اور چڑیلوں کے فرضی قصے نہیں سنائے نہ گھر میں کسی کو سنانے دیا۔ خصوصاً اپنے والد محترم کو میں نے اس کے لیے بار بار ٹوکا۔ بچے اندھیرے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اندھیرے سے ان کا ڈر دور کرنے کے لیے میں انہیں کسی اندھیرے کمرے میں یا اندھیرے میں گھر کے باہر اکیلے بھیج دیتا۔ بچے مردوں اور موت کے تذکرے سے بھی ڈرتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کو میتوں میں اور خاص طور سے قبرستان لے جاتا تھا جس سے ان کا ڈر نکل گیا۔

٭ بچوں کو بہادر اور جری بنانے کے لیے بھی انہیں خاص تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا: (۱) انہیں محنت و مشقت کا عادی بنانا چاہیے۔ (۲) انہیں مختلف قسم کے اسپورٹس کے ذریعہ جسمانی صحت کی طرف متوجہ رکھنا چاہیے۔ (۳) جوڈ و وغیرہ دفاعی کھیلوں کی بھی تربیت فراہم کرنی چاہیے۔ (۴) جب ایسے مواقع آئیں کہ مردوں کو گھر سے باہر نکل کر تحقیق و معلومات کرنے کی ضرورت آپڑے تو ایسے وقت خود آگے بڑھ کر معلومات حاصل کرنے کے لیے باہر نکلنا چاہیے۔ اس وقت بچوں کو گھر میں دبک کر بیٹھنے کی تلقین کرنے کی بجائے موقع و حالات کی مناسبت سے بڑے بچوں کو بھی ساتھ لینا چاہیے۔

٭ ٹرینوں اور بسوں میں سفر کرنا بھی ایک طرح سے بڑی جرأت کا کام ہے۔ بچوں کو اس کی تربیت ملنی چاہیے۔ میں اپنے بچوں کو جب وہ بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ جاتے تھے اکیلا میرا روڈ کا سفر ٹرین سے کرواتا تھا۔ کبھی کبھی تو انہیں راجستھان کے سفر پر اکیلا بھیجا ہے۔

٭ برے دوستوں سے بچوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ بری صحبت کی وجہ سے اکثر اچھی تربیت کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں۔ یہ بات اکثر والدین سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں کو غلط صحبت سے بچانے کے لیے فکر اور کوشش کرتے ہیں۔ عموماً جھونپڑ پٹیوں اور گنجان غریب بستیوں میں رہنے والے شرفاء اس مسئلے کی وجہ سے بے حد پریشان رہتے ہیں کیونکہ ان بستیوں میں اوباش لڑکے رات دن گلیوں، نکّڑوں اور ہوٹلوں پر آوارہ گردی کے لیے جمع رہتے ہیں۔ منشیات فروشوں اور اسمگلروں کو اِنہی آبادیوں میں سے اپنے مطلب کے کارندے ملتے ہیں۔ کرلا بھی، جہاں میں رہتا ہوں، ایک ایسی آبادی ہے اور یہاں ارد گرد ایسا ہی ماحول ہے۔ میں نے یہاں اپنے ۲۰ سالہ قیام میں کتنے ہی نوجوانوں کو برے راستوں پر جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ مجھے اپنے بچوں کے بارے میں بھی ایسی برائیوں میں پڑنے کے اندیشے تھے۔ پڑوسی بھی بہت اچھے نہ تھے۔ دو تو ایسے تھے جو رات دن شراب کے نشے میں رہتے تھے۔ بری بری فحش گالیاں بکنے میں تو اکثر پڑوسی ایک دوسرے سے آگے تھے۔ ان کے بچوں کے ساتھ ہی میرے بچے کھیلتے کودتے تھے۔ میری بیٹی کی ایک سہیلی تو میرے گھر میں چوریاں کیا کرتی تھی۔ بڑے لڑکے کا ایک دوست اپنے گھر میں چوریاں کرتا تھا۔ ایک بار پکڑا گیا تو اس نے میرے لڑکے پر الزام لگادیا اور اس کا باپ مجھ سے لڑنے آپہنچا۔ بچوں کی لڑائی میں اکثر والدین بچوں کی حمایت میں لڑنے لگتے تھے۔ کئی بار مجھ سے اور میری اہلیہ سے پڑوسی لڑنے کے لیے آپہنچے اور ہمیں فحش گالیاں دیں لیکن ہم لوگ خاموش رہے۔ ہم نے بچوں کے جھگڑوں میں کبھی ان کی حمایت نہیں کی۔ وہ اگر لڑجھگڑ کر مار کھاکر روتے ہوئے آتے تب بھی انہیں یہی کہتے کہ اپنے جھگڑے خود نپٹاؤ۔ البتہ اگر کسی کو مار کر آتے اور ان کی شکایت آتی تو انہیں سرزنش کرتے اور لڑنے جھگڑنے سے منع کرتے۔ اس صورتحال کے اثرات سے بچوں کو بچانا بے حد مشکل اور دشوار تھا۔ لیکن الحمدللہ میں نے اور اہلیہ نے ہمت نہیں ہاری۔ ہم نے پڑوسیوں اور ان کے بچوں سے نفرت اور بیزاری کا سلوک نہیں کیا بلکہ ان کی اصلاح کی کوشش کی۔ میری اہلیہ کے سخت پردے اور لڑائی جھگڑے کرنے آنے والوں کے مقابلے میں ہمارے خاموش رہنے سے لوگوں پر اچھا اثر ہوا۔ میں نے بعض پڑوسیوں کے جھگڑے اور گھریلو تنازعات بھی ختم کرائے۔ اس کے علاوہ میری بیوی پڑوسی بچوں کو فری ناظرہ اور ٹیوشن پڑھاتی، عورتوں کو اجتماعِ خواتین میں مدعو کرتی اور رمضان میں تراویح اور ترجمہ قرآن سنانے کا اہتمام کرتی۔ میں نے اپنی حیثیت کے مطابق اپنے پاس سے بھی اور جماعت کے بیت المال اور اصحابِ خیر سے بھی بیماروں، بیواؤں، مطلقہ خواتین، مسکینوں اور غریبوں کو مالی مدد پہنچائی۔ غریب بچیوں کی شادیاں کروائیں، بچوں کو اسکولوں میں داخلے اور طلبہ کو اسکالر شپ دلوانے کے کام کیے۔ پڑوس کے چھوٹے بچوں کو چلڈرن سرکل میں شامل کرانے اور انھیں اپنے بچوں کی کہانیوں کی کتابیں پڑھوانے سے ان میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔ انہیں اپنے بچوں کے کھیلوں کے سامان سے کھیلنے کی اجازت دی، پھر ٹیم بناکر کھیلوں کے سامان خریدنے کے لیے روزانہ پیسے جمع کرنے پر آمادہ کیا۔ اس طرح میرے بچوں میں بھی ٹیم ورک اور ایک دوسرے کے ساتھ شرکت کرنے کے جذبات پروان چڑھے۔ ٹیم کا سامان اور پیسے میرے بچوں کے پاس ہی رہتے تھے گویا میرا گھر محلے کے بچوں کا مرکز بن گیا تھا۔ ان بچوں سے میں نے جماعت کے پمفلٹ اور دعوت نامے تقسیم کرانے، پوسٹر لگوانے، دستخطی مہمات میں محلے کے لوگوں سے دستخط حاصل کرنے کے بہت سارے کام لیے۔ بعض بڑے لڑکوں کو مدرسہ کی عمارت میں امتحانوں میں رات دن پڑھنے کی سہولت فراہم کی اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ماحول سے بچانے کی کامیاب کوشش کی۔

بازاروں میں دھوکہ فریب کرنے والوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی تربیت بھی بچوں کو دینی چاہیے تاکہ وہ دنیا کے ہنگاموں میں اپنی آئندہ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لڑکپن سے ہی انہیں گھر کے سودا سلف لانے کے کام دیے جائیں۔ بالغ ہونے پر زیادہ اہم کام کرنے کی ذمہ داری دی جائے مثلاً بینک میں رقم جمع کرانا/ نکالنا، بجلی، پانی اور کرایے کے بل بھرنا، چھوٹے بھائی بہنوں، والدین اور گھر بھر کی ضروریات کی چیزیں بازار سے لانا۔ گھر کے حسابات رکھنا، بجٹ بنانا وغیرہ کام ان کے ذمے کیے جائیں۔ غلطی اور نقصان ہونے پر انہیں سمجھایا جائے لیکن ان کے ذمہ سے کام واپس نہ لیے جائیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے غلطیاں نہیں ہوئیں، اپنی اہلیہ اور بچوں پر کئی بار مجھ سے زیادتیاں ہوئی ہیں۔ غصے میں انہیں اول فول بھی کہا ہے اور مارا پیٹا بھی ہے لیکن بعد میں ان سے معافی بھی مانگی ہے اور ان کی دلجوئی بھی کی ہے۔ اس طرح بچوں میں اپنی غلطی تسلیم کرنے اور تلافی کرنے کی عادت پڑی ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں نے جو تدابیر اختیار کیں وہ صد فیصد کامیاب رہیں، لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجھے اپنی تدابیر سے فائدہ ہوا اور ان کے خاطر خواہ اور اطمینان بخش نتائج نکلے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں