کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب فارغ اوقات میں اور بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کی طرح ٹیلی ویژن، کیبل یا انٹرنیٹ سے دل بہلانے کے بجائے دادا دادی اور نانا نانی کے پاس جمع ہوجاتے اور ان سے پرستان کی پریوں اور کوہ قاف کی حیرت انگیز شہزادیوں کے بارے میں کہانیاں سنا کرتے تھے جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا تھا۔ تاریخِ اسلام کے سچّے واقعات، صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔ غرض، ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بچوں کا ذہنی، قلبی اور جسمانی قرب و تعلق بزرگوں کے ساتھ قائم رہتا تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز، چھوٹی سورتیں اور دعائیں یاد کروانا انھی ’بزرگ والدین‘ کا کام ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔ غربت، جہالت، بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ ’بزرگ والدین‘ کی حکیمانہ باتیں اور دادی، نانی کی لوریاں اب پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی۔وی۔ انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔
’بزرگ والدین‘ تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی سے عملی طور پر معطل ہوجانے کا احساس ان کو نفسیاتی اور جسمانی عوارض میں مبتلا کررہا ہے۔ بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ بھی انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت کا سامان تلاش کرتے ہیں، یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں ان کو گھریلو ماحول سے دور رکھتی ہیں۔ بچوں پر ہوم ورک، ٹیوشن، نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد میں مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سوجاتے ہیں اور موجودہ دور کا المیہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے کہ والدین اور والاد میں فاصلہ تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ ان حالات میں اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے رکھ رکھاؤ اور اخلاقی اقدار کی عمارت کو قائم رکھنا ہی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ مشترک خاندانی نظام ہو تو بیٹوں کی اولاد کے ساتھ روابط کا سلسلہ پہلے روز سے ہی براہِ راست شروع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر میں مگر علیحدہ گھر میں رہنے والی اولاد دوسرے شہر میں مکین یا پھر بیرون ملک مقیم اولاد کے ساتھ ’بزرگ والدین‘ اپنا تعلق اور ذمہ داریاں کیسے نبھائیں، یہ ہمارا اصل موضوع ہے۔
اولاد کہیں بھی مقیم ہو، دور، بہت دور یا نزدیک بہرحال دل کے پاس ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہیے۔ مگر محبت کا جب تک اظہار نہ ہو وہ ایک ایسی شے ہے جو ملفوف ہو۔ حجم اور قیمت میں کتنی ہی زیادہ ہو جب تک ظاہر نہ ہو، کسی کام کی نہیں۔ محبت کو چھپائے رکھنا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ابھی اظہارِ محبت کی تلقین کی ہے۔ لیکن آج کے مشینی دور میں، والدین اپنے بچوں کو بھر پور شفقت و محبت نہیں دے پاتے۔ دادا، دادی اور نانا، نانی کے پاس یہ فرصت کتنی مفید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جس انداز سے محبت نہ دے سکے اب وہ اس کمی کو اپنے بچوں کی اولاد کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔
تربیت کے مختلف اسلوب:
محبت کے اظہار کے لیے آپ اپنی صوابدید (حالات، صحت، ماحول، فاصلے) کے مطابق تدابیر متعین کرسکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
٭ براہِ راست تعلق: اظہارِ محبت اور شفقت کے لیے براہ راست تعلق کی حسب ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں: اسکول لانا اور لے جانا،ہوم ورک میں تھوڑی بہت مدد، بچوں کے دوستوں سے دل چسپی، اسکول کے معمولات پر خوش دلی سے بات چیت، شام کو ہلکی پھلکی تفریح، ہفتہ وار مجلس، کارکردگی پر انعام (چاہے معمولی ہی ہو)، بچوں کی باتوں کو توجہ سے سننا، حوصلہ افزائی، شاباشی دینا وغیرہ محبت و شفقت کی بنیاد ہیں۔
دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعہ بات کرنا، کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے، گاہے بگاہے ان کو خطوط ای میل، تصاویر بھیجنا، اور ان سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ، تصویر کا تقاضا کرنا، باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔
٭ تحفے تحائف دینا: یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر تحفہ میں دی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے، خصوصاً وہ چیز جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجائے اسکول/ کالج کی لازمی ضرورت کی چیز خرید کر دینا ان کے اور ان کے والدین کے دلوں میں قدرومنزلت بڑھا دے گی۔
٭ ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی: بچوں کو پڑھ کر سنانا ایک انتہائی دل چسپ عمل ہے۔ اپنے بچپن کی کتابیں ان کو پڑھنے کے لیے دی جائیں یا ان کے والدین کے بچپن میں زیر استعمال رہنے والی کتابوں کو مل کر پڑھنے پڑھانے میں خاص مزہ ہے۔ بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ اس سے تلفظ، روانی عبارت، لہجہ اور تقریر کی مشق ہوگی۔
٭ ماضی کی یادیں اور تجربات: بچوں کو اپنے ماضی کی دلچسپ کہانیاں اور واقعات سنائیں، اپنے محلے اور شہر کے خاص کرداروں کا اور ماحول کا تذکرہ کریں۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی، نظم، باہم بچوں کی مجلس، بات چیت کا ریکارڈ کرکے بھیجا جائے یا ویڈیو فلم بنالی جائے۔ اپنے بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور نقصانات کو واضح کریں کہ ان کی کیا وجوہات تھیں۔ بچوں سے سوال کیا جائے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کیا کرتے؟
شخصیت کی تعمیر: جب بھی موقع ملے بچوںکی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے بنائے ہوئے گھروں میں مہمان بن کر جایا جائے۔ فٹ بال اور اندرون خانہ کھیلوں میں شریک ہوا جائے۔ بچوں میں ہار جیت کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروں کی کامیابی پہ خوش ہونے کی تربیت کی جائے۔
بچے ننھے ہوں یا نوجوان، ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا، بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہوتو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔
ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہئیں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا راز داں ساتھی سمجھتے۔ یقین کیجیے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے راز داں ساتھی بن گئے، ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔
٭ گھریلو امور میں دلچسپی لینا: اگر والدین اور بچوں میں کوئی تنازعہ ہوجائے، (تعلیم، روزگار یا شادی کے معاملے میں) تو غیر جانب داری سے حالات کا جائزہ لینا اور بچے کے مؤقف کو ٹھنڈے دل سے سننا اور والدین اور بچوں کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کرکے دینا ’بزرگ والدین‘ کا فرض ہے۔
٭ بچیوں سے خصوصی لگاؤ: لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو شایستگی اور رکھ رکھاؤ سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ بچیوں کے رجحانات کا ان کی عمر کے مطابق خیال رکھا جاناچاہیے۔ بچیوں کی جذباتی عمر ایک مضبوط، بااعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ لڑکیاں قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت و شفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔
چند احتیاط
کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیے۔
٭ کھلانے پلانے میں بے اعتدالی: ’بزرگ والدین‘ کو اپنے بچوں کی نسبت ان کے بچوں کو کھلانے پلانے، ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے میں لطف آتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ معاملہ خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کو ان کی عادتیں خراب کرنے میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ قریب رہنے والے بچے اور دور رہنے والے بچوں میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ قریب رہنے والے بچوں کی عادات، مزاج، گھریلو ماحول اور روز مرہ کے اتار چڑھاؤ سے آپ واقف ہوتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کے والدین خصوصاً والدہ نے ان کے کھانے پینے کا جو معمول بنایا ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچے کو کس وقت، کتنا اور کیا کھانے کو دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ جو چیزیں آپ اپنے بچپن میں کھاتے تھے یا اپنے بچوں کو بے دریغ کھلاتے تھے، ان کے لیے بھی مناسب ہوں۔
٭والدین کو بے وقعت کرنا: بچوں کے قلب و نظر میں ان کے والدین کو بے وقعت کرنا ایک اخلاقی گرواٹ ہے۔ خصوصاً بہو یا داماد کے بارے میں منفی طرز عمل اختیار کرنا، ان کی گستاخیوں یا نافرمانیوں کو بچوں کے سامنے زیر بحث لانا، یا بچوں کے ذریعہ اپنی کسی حق تلفی یا رنجش کا انتقام لینا، اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا ہے۔ بچے ایسے لوگوں کی ہر گز قدر نہیں کرتے جو ان کے والدین کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہوں۔ بہو اور داماد کا آپ سے ’صہر‘ کا رشتہ ہے مگر ان کے حوالے سے بچوں کے ساتھ آپ کا ’نسب‘ کا رشتہ ہے۔ اپنے نسب کے بارے میں حد درجہ حساس اور محتاط رویہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے والدین کو عزت و توقیر سے نوازیں گے۔
٭ رویے میں فرق:گھروں میں جہاں ایک سے زیادہ بیٹے بیٹیاں موجود ہوتے ہیں، ان کے بچوں کے ساتھ بڑوں کا رویہ بھی قابلِ غور ہے۔ جس بیٹے سے ماں باپ خوش ہیں، اس کی بیوی بھی پیاری لگتی ہے، اور اسی لحاظ سے اس کے بچے بھی دادا دادی کے دلارے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی بہوؤں میں سے کسی سے کسی خاص رشتہ داری یا نسبت یا کوئی اور وجہ بہوؤں کے درمیان تفریق کا باعث بنتی ہے، اور پھر بچے بھی خواہ مخواہ خاندانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غیر مناسب ہے۔ ساس سسر (خصوصاً ساس کو) گھریلو معاملات میں عقل و دانش کا ثبوت دینا چاہیے۔ اسی طرح دامادوں کے ساتھ یا نواسے نواسیوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ لگاؤ اور محبت اپنی جگہ، مگر معاملات مبنی برعدل اور یکساں ہونے چاہئیں۔
٭ بے جا طرف داری: ایک اہم معاملہ جو عموماً گھروں میں بے چینی کا باعث بنتا ہے، بیٹی کی اولاد کے سامنے بیٹوں کی اولاد یا اس کے مخالف معاملے میں ترجیح اور افراط و تفریط ہے۔ ماموں، پھوپھی یا چچا، تایا کے بچوں میں دوری، منافرت، بلا وجہ مسابقت، شریکے کا احساس پیدا کرنا، بزرگوں کے طرزِ عمل کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔ کسی ایک داماد یا بہو کی بے جا حمایت، طرف داری بچوں پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔
٭ توہین آمیز رویہ: عموماً دادی کی طرف سے اس طرح کے جملے’میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا‘ جب سے تمہاری ماں آئی ہے …، سن کر بچے ہر گز اپنی دادی سے الفت محسوس نہیں کرسکتے۔ ان سے لازماً اجتناب کیا جائے۔
٭ اپنی رائے پر اصرار و ضد: اگر بچوں کی تربیت کے معاملے میں ’بزرگ والدین‘ کی رائے بچوں کے والدین سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو بزرگوں کو زیادہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اختلاف کی صورت میں والدین کی خواہشات کے پیش نظر اپنی رائے سے دست بردار ہوجانا چاہیے، تاہم اولاد کو بھی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اور بے جاضد نہ کرنی چاہیے اور درست بات کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بعض اوقات بچے کا نام رکھنے سے لے کر جو مخالفت شروع ہوتی ہے تو بچوں کے رشتے کرنے تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں فیصلہ اور حتمی رائے بہر حال ان کے والدین کا حق ہے۔
بعض ’بزرگ والدین‘ رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنالیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کو باغی تو بنایا جاسکتا ہے، اپنا حامی نہیں۔ یہ طرز عمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اور قابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہرحال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔ اپنی رائے دینا، اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگر جبر کرنا، ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا، بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا، خوشی سے شریک نہ ہونا، دل میں رنجش رکھنا، قطع تعلق کرلینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہے اور ’بزرگ والدین‘ کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔
٭ بچوں کو مشتعل کرنا: بچوں کو ہر وقت دوسروں کے سامنے نظمیں، تقریریں وغیرہ سنانے پہ مجبور نہ کریں۔ بچے کی ذہنی اور قلبی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ ہر ملاقات پر ان کو کتابیں سنانے یا ان کو پڑھنے پر مجبور کرنا دل میں تنگی اور انقباض پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت ہر کام، ہر کھیل، ہر واقعہ، کہانی، لطیفہ یا ایک ہی جیسا طرز عمل (ہر بچے کے ساتھ) مناسب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو بچوں سے قلبی تعلق پیدا کرنا ہے تو جبر سے یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ پورے صبرو ثبات کا متقاضی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ قابو میں لانے کی کوشش کرنا ان کو مشتعل کرنا ہے۔
٭ بچوں میں امتیاز برتنا: اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں کسی ایک سے کبھی ایسی بات نہ کیا کیجیے کہ ’یہ تو سب سے ہوشیار ہے، ذہین ہے، یہ میرا فرماں بردار ہے، یہ تو اپنے باپ کی طرف فرماں بردار ہے اور یہ اپنے باپ یا ماں کی طرح ہمیشہ سے ضدی اور گستاخ ہے۔‘ اپنے ان بچوں کی کامیابیوں پہ یکساں خوشی کا اظہار کیجیے۔ اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کی حد درجہ محبت میں آکر ان کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھنا اور کسی دوسری اولاد کے بچوں کے ساتھ معاندانہ رویہ، ان کی کامیابیوں اور خوشیوں میں دل کے پورے جذبات کے ساتھ شریک نہ ہونا سخت نا انصافی ہے۔ یقین کیجیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس رعیت کے بارے میں سوال کرے گا۔ جذبات، احساسات، خوشی، غمی اور مالی و اخلاقی طور پرسب کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے اجر و ثواب کو قائم رکھے گا۔ کسی بچے کو خوب بڑھانا اور کسی کی اہمیت کو گھٹانا اپنے خاندان کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔
٭ ننھیال ددھیال کا فرق رکھنا: لڑکوں کو لڑکیوں پہ ترجیح دینا، یا ننھیال / ددھیال والوں کی برائیاں کرنا، یا بچوں کا ننھیال / ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا، لڑکیوں کی پے در پے پیدائش سے دل تنگ ہونا اور ان کے مقابلے میں لڑکے کی آؤ بھگت کرنا، لڑکیوں کے والد کو بے چارہ، بوجھ کے تلے دبا ہوا جیسے احساسات دلانا، ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔
٭ خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا: بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ سلام کروانے کے لیے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تو یہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں، محبت سے، پیار سے، اور یہی سنت رسول اللہ محمدﷺ ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔
بحیثیت والد، اور نانا کے آپؐ کا طرزِ عمل ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اپنے دوست احباب کے چھوٹے ننھے بچے، راستے چلتے ہوئے، اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ آئی ہوئی ان کی اولاد، دور و نزدیک کے قرابت دار بچے، اجنبی بچے، غرض بچوں سے حضورؐ کی محبت ایسی تھی گویا کہ ان کی اپنی اولاد ہو۔ بچوں کو گود میں بٹھاتے، کندھے پہ سوار کرتے، نماز میں بچوں کو اٹھا لیتے، منہ چومتے، غمگین بچوں کا دل بہلاتے، بچوں کو تحفہ دیتے، غرض اپنی دلی محبت کا اظہار ہر ممکن طریقے سے کرتے، اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ حضور اکرم محمد ﷺ نے فرمایا:
’’جنت میں ایک گھر ہے جسے ’دارالفرح‘ (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش رکھتے ہیں۔‘‘ (کنز العمال)
اس دور میں جب کہ ہر مسلمان غفلت و بے ہوشی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ نابالغ بچوں کی شخصیت ایسی ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بچہ نابالغ ہوتا ہے، معصوم ہوتا ہے۔ ان سے اس احساس کے ساتھ ہی رحمت و شفقت کی جائے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس بیدار ہوجائے گا۔ ایک بڑے سے بڑے دین دار آدمی سے بہر حال ایک معصوم بچہ اللہ کی نظر میں زیادہ پیارا ہے۔
دعا:
دعا ایک لازمی امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ فرقان میں دعا سکھائی:
ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریّٰتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔
(۲۵:۷۴)
’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘‘
اس دعا میں ’متقین کا امام‘ بننے کی خصوصی درخواست سکھائی گئی، یعنی وہ نسل جو ہم پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ ’متقین‘ میں سے ہو — اور ہم بحیثیت راعی کے رعیت چھوڑ کر جارہے ہیں۔
بچوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہیے اور ان کی عادت بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کے لیے ہمیشہ دعا گو رہیں، نیز فوت شدہ بزرگوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کی نیکیوں کو یاد کرنا، کروانا اور دعا کرنا ایک اہم نکتہ ہے۔
ہمارے ہاں والدین کے حوالے سے تو بہت لٹریچر موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنا فریضہ کس طرح ادا کریں، لیکن غور کا مقام یہ ہے کہ خاندان میں ’بزرگ والدین‘ کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ’بیاج‘ کو خسارے سے بچا سکیں۔ ایک جوڑے کی اولاد کا دائرہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتاجاتا ہے۔ کل تک جو صرف ماں باپ تھے، دادا دادی اور نانا نانی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی دیتا ہے تو ان کے سہرے کے پھول بھی کھلتے دیکھتے ہیں۔ اس طرح نئے خاندان بھی وسیع تر خاندان بن جاتے ہیں۔