ماں اپنے بچے کو سنجیدہ اور عقل مند بنانا چاہتی ہے تاکہ وہ گفت و شنید سے اپنے معاملات حل کر لیا کرے، جبکہ باپ اس کو نڈر اور بے باک بنانا چاہتا ہے تاکہ اسے اپنا حق وصول کرنا ہو توطاقت اور قوت کے بل پر حاصل کر لیا کرے اور اس کے دوست بھی اس کی بیباکی اور طاقت سے خائف رہا کریں۔
ماں یہ سوچتی ہے کہ اگر وہ بچے کے سلسلے میں ہر وقت فکر مند رہے گی اورضرورت سے زیادہ اس کی نگرانی کرے گی تو وہ مصیبتوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہے گا۔باپ کا خیال اس کے بر عکس ہوتا ہے کہ بچے کی حد سے زیادہ نگرانی اسے بگاڑ سکتی ہے۔ اس طرح وہ خود کو ذمہ داریاں اٹھانے اور مسائل کو اپنے طور پر حل کرنے کے قابل نہیں ہو پائے گا۔
اتنا ہی نہیں، بچوں کے سلسلے میں ماں باپ کے درمیان اس بات پر بھی اختلاف ہوتا رہتا ہے کہ وہ کیا کھائے گا، کیا پہنے گا، حتی کہ اسے کس اسکول میں داخل کرانا ہے۔ اب یا تو دونوں میں سے کوئی ایک اپنی رائے سے دست بردار ہو کر دوسرے کے لیے راستہ صاف کردیتا ہے کہ وہ جیسا چاہے کرے، یا پھر اختلاف برقرار رہتا ہے اور نتیجتاً دونوں ہی اصل مقصد، یعنی بچوں کی صحیح تربیت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ بلکہ مزید آگے بڑھ کر وہ اپنی اولاد کی زندگی کے لیے کوئی واضح پلاننگ کرنے کے قابل بھی نہیں رہ پاتے ہیں۔
تربیت کس انداز میں اور کن ذرائع سے ہو، اس سلسلے میں والدین کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں:
٭ والدین کا خاندانی پس منظر یا خاندانی تجربات و روایات۔٭دونوں کے خاندان کی الگ مخصوص تہذیب اور ماحول ۔٭دونوں کی تعلیم کے معیار میں اختلاف۔
بہر حال سبب کچھ بھی ہو ، ضروری ہے کہ دونوں کسی ایسے نقطے پر پہنچنے کی کوشش کریں جودونوں کی مشترکہ امانت یعنی اولاد کے مفاد سے وابستہ ہو۔
شخصیت کی چار قسمیں
والدین کی شخصیت کی چار قسمیں ہیں۔ یہ دراصل انفرادی صفات ہیں جو باپ یا ماں کسی میں بھی ہو سکتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح اولاد کی شخصیت اور ان کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔یہ چار صفات درج ـذیل ہیں:
جابر شخصیت:
اس قسم کی شخصیت کا حامل شخص اپنی اولاد سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کی پابندی کرے گی۔اگر اولاد کسی وجہ سے اس کے قائم کیے ہوئے کسی اصول یا ضابطے کی پابندی نہیں کر پاتی ہے تو اس کے نزدیک اس کا واحد کارگر اور حتمی علاج صرف اور صرف سزا ہے۔اس قسم کی شخصیت کے حامل والدین اپنے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے پیچھے کارفرما اسباب کی وضاحت کرنے سے قاصر ہی رہتے ہیں۔اگر ان سے اس سلسلے میںسوال کیا بھی جاتا ہے تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ :’’میںایسا ہی چاہتا ہوں، بس‘‘۔ایسی جابر شخصیت کے مطالبات تو بہت ہوتے ہیں لیکن یہ مطالبات کسی بھی مثبت شکل میں اولاد کی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوتے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فرماں بردار قسم کے بچے والدین کے ان کے احکام کو بجا تو لاتے ہیں ، اپنے کام میں انہیں مہارت بھی حاصل ہوجاتی ہے لیکن خوشی میں سے انھیں بہت کم حصہ مل پاتا ہے۔ سوسائٹی سے بھی وہ بہت کم خود کو ہم آہنگ کر پاتے ہیں ۔ اسی طرح ان کے اندر خود اعتمادی کی بھی کمی رہ جاتی ہے۔
دور اندیش اور ذمہ دار شخصیت
ایسی شخصیت کے حامل ماں باپ اصول وضوابط بناتے تو ہیں اور اپنی اولاد سے ان پر عمل کی توقع اور امید بھی رکھتے ہیں لیکن یہ ضوابط کافی حد تک جمہوری طرز پر اور بچوں کی ذمہ داریوں کا خیال رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ایسی شخصیت بچوں کو مطمئن کرنابھی جانتی ہے اور ان ضابطوں اور اصولوں کے تعلق سے پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب بھی ان کے پاس رہتا ہے۔اگر بچے کسی ایک ضابطے پر عمل نہیں کر پاتے تو اس سلسلے میں سنجیدگی کو اپنا شیوہ بناتے اوردرگذر کا رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ ایسی شخصیات محتاط تو ہوتی ہی ہیں لیکن بلا وجہ کی سختی ان میں نہیں پائی جاتی ، بلکہ ضرورت پڑنے پر مناسب انداز میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کو محتاط اور دور اندیشی کے ساتھ ذمہ داری کا احساس رکھنے والا شخص بنانا چاہتے ہیں۔ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اولاد کاخود اپنے اوپر بھی کنٹرول ہو اور وہ اپنی مددخود بھی کر سکتے ہوں۔اس قسم کی شخصیت خوش نصیب بچوں کو جنم دیتی ہے جو اپنے مفوضہ کام کو انجام دینے پر قادر بھی ہوتے ہیں اور اکثر اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔
تساہل پسند شخصیت
ایسے والدین اپنے بچوں سے کوئی زیادہ مطالبات نہیں کرتے الا یہ کہ کبھی ذاتی یا اخلاقی اعتبار سے کسی بات کی طرف توجہ دلا دیں۔ایسے والدین کی شخصیت غیر منظم ہوتی ہے جو بچوں کی تربیت کرنے میں یکسر ناکام رہتی ہے۔عام طور پر وہ بچوں سے خوب مل جل کر رہتے ہیں ، ان سے خوب باتیں کرتے ہیں۔ ان کے اور بچوں کے درمیان باپ یا ماں سے زیادہ دوستی کا رشتہ ہوتا ہے۔بچے جتنا چاہتے ہیں اس سے زیادہ بڑھ کر ان کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ ایسے والدین کے بچے کے بھی زندگی میں کم ہی خوشی حاصل کر پاتے ہیں، بلکہ اکثر پریشانی کا شکار رہتے ہیں کیوں کہ وہ اپنا ہوم ورک بھی خود سے کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔
تنہائی اور صلح پسند شخصیت
ایسے اشخاص کا امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بہت ہی کم کسی بات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ اس قسم کی کوئی ذمہ داری بھی اپنے سر لینا نہیں چاہتے ہیں۔اپنے ہی بچوں سے ان کا تعلق بہت کمزور ہوتا ہے۔باوجود اس کے کہ وہ اولاد کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے نہیں چوکتے مگر ان کی زندگی سے خود کو دور ہی دور رکھتے ہیںاور بعض برے حالات میں وہ بچوں کی ضروریات کی تکمیل سے بھی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔
جن بچوں کو ایسی شخصیت کی تربیت نصیب ہوتی ہے، ان کے اندر خود اپنی ذات کا بھی کوئی احترام نہیں ہوتا۔ اپنے ہم عمروں اور دوستو ں کے ساتھ مل کر باہر کے ماحول میں وہ کوئی کام کرنے کے اہل نہیں ہو پاتے۔
ٹھو س قدم
شخصیت کے ان مختلف معیارات کے اسباب بھی مختلف ہیں: ذاتی اسباب، تہذیبی و ثقافتی اسباب، قدیم خاندانی تجربات و روایات، نفسیاتی حالات اور تعلیمی و مذہبی حیثیت۔
گھر کو ایک خاص رنگ اور ایک خاص مزاج عطا کرنے کے لیے ماں اورباپ کی شخصیتیں باہم مدغم ہوجاتی ہیں۔ لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ دونوں کی شخصیت چاہے جو ہو، انھیں اپنے بچوں کے مستقبل کی پلاننگ کے لیے کوئی ٹھوس طریقہ ایجاد کرنے کی غرض سے کسی ایک نقطے پر باہم متفق ہوجانا چاہیے۔ تاکہ بچہ زیادہ خوشیوں سے ہمکنار اورخود اعتمادی سے بھر پور ہو۔
کچھ مشورے
لیکن اگر والدین کو اس طریقے سے تربیت کے لیے کوئی راہ نکالنے میں دشواری پیش آرہی ہو تو چندمشورے حاضر ہیں:
٭ والدین کے درمیان بچے کی تربیت کے سلسلے میں اس بات پر اتفاق ہو کہ وہ کس خاص پہلو سے تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ یا تربیت کے ضمن میں ان کے پیش نظر کیا چیز ہے۔یہ اتفاق زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری شکل میں بھی ہو سکتا ہے۔پیش نظر تربیت کا مقصد صرف ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ ہے بچے کامفاد۔ ظاہر بات یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔اس نقطے پر محض اتفاق کر لینے سے ہی باہمی تعاون کا آغاز ہو جاتا ہے۔
٭ تربیت کے ذرائع پر اتفاق ہونا چاہیے۔ یعنی تربیت کے لیے کیا ذریعہ اختیارکیا جائے گا۔نیز دونوں ایک دوسرے کو اس رائے سے مطمئن کریں جسے وہ مناسب سمجھتے ہیں۔مختلف مواقع پر بچے تک پیغام پہنچانے میں ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کریں۔ البتہ سب سے اہم یہ ہے کہ بچہ آپ کے طرز عمل سے یہ محسوس کرے کہ جو بات اسے بتائی جارہی ہے اس پر آپ دونوں متفق ہیں اور دونوں اس سے یہی چاہتے ہیں کہ وہ یہ بات مان لے۔
٭ اس کو جب کوئی سزا دی جارہی ہو تو اس کے سامنے آپ اس سزا کے خلاف اپنا اختلاف ظاہر نہ کریں۔کیوں کہ اس طرح بات بننے کے بجائے بگڑ جائے گی اور اسے یقین ہوجائے گا کہ اگر سزا والدین میں سے کسی ایک ہی کی طرف سے ہے تو سزا ملتوی ہو سکتی ہے۔
٭ کبھی کبھی سزا کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے اس کے تعلق سے والدین کے درمیان اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً باپ سمجھتا ہے کہ سزا کا فلاں طریقہ بچے کی تربیت کے سلسلے میں نامناسب ہے لیکن ماں اس کے بر عکس اسے ضروری سمجھتی ہے۔ یہ واضح رہناچاہیے کہ بچہ بہت ذہین ہوتا ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد پر وہ دونوںمیں سے اس سے نفرت کرنے لگتا ہے جو سزا کے اس طریقے کا حامی ہے۔بچے کی تربیت کے دوران اس صورت حال سے بچنے اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
٭جب ماں باپ دونوں میں سے ایک کا مزاج سخت اور جابرانہ ہو اور دوسرے کا مزاج بے پروا قسم کا ہو تو معاملہ بہت پیچیدہ ہو جاتا ہے۔تاہم یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اگر والدین بعض مشترک امور پر متفق ہو جائیں۔ایسی صورت حال میں ماہرین درج ذیل باتوں کا مشورہ دیتے ہیں:
٭سخت مزاج والا فرداپنی شخصیت کو ایک معتدل شخصیت میں تبدیل کرنا شروع کرے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ بچوں پر زیادہ توجہ دے ، ان کی باتیں سنے، گھریلو کاموں کا نقشہ کار طے کرتے وقت انھیں بھی اس میں شریک ہونے کا موقع دے۔ بچوں کی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ گھر کے اندر کی زندگی کے متعلق ان کے خیالات کیا ہیں۔اس کے لیے مختلف مواقع پر ان کی سرگرمیوں اور شخصیت کا جائزہ لے ، ان کی ضروریات کا جائزہ لے اور زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرے۔
٭تنہائی اورمصالحت پسند شخص بھی خود کو ایک فیصلہ کن شخصیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔اس جانب اولین قدم کے طور پر سب سے پہلے ان اچھے کاموں کو خود بھی عملی جامہ پہنائے جن کی توقع وہ اپنے بچوں سے رکھتا ہے۔بچوں کی بعض غلط حرکتوں پر ’’نہ‘‘ کہنے کی عادت بھی ڈالنی پڑے گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے بچوں کی تربیت کے انداز اور طریقے سے واقفیت حاصل کرنی ہوگی۔اس مرحلے میں اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ بچوں کی ناپسندیدہ سرگرمیوں پر ان کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے اور ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو اس بات کی تربیت بھی دے کہ وہ اپنے طرز عمل پر قابو پائیں ، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں، جو ان سے عمر میں بڑے ہیں ان کا احترام کریں اور اپنی عمر کے بچوں سے اچھے تعلقات قائم کریں۔
دونوں قسم کی متضاد شخصیات کے ما بین اتفاق پیدا کرنے کے لیے تھوڑی محنت صرف کرنی پڑے گی نیز اس سلسلے میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضروت بھی ہوگی۔لیکن محنت اور کوشش ایسی ہو کہ اس کے مثبت اور بچے کے حق میں بہتر نتائج سامنے آئیں۔
اگر ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہو جائے تو ایک بالکل نئے ماحول میں رہنے والے خاندان کے لیے بچوں کی تربیت کے تعلق سے کسی متفقہ نہج تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔لیکن اس اتفاق تک پہنچنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ والدین دونوں مل کر ان اہم نکات کے سلسلے میں، جن پر ان کی الگ الگ تربیت ہوئی ہے، اس پہلو سے غور و فکر کریں کہ کیا موجودہ حالات میں انہی نکات پر بچے کی تربیت کرنا مناسب ہے۔
اسی طرح آپ اپنے ماضی کی خوش گوار یادوں کو بچے کے ساتھ گفتگو کا موضوع بنائیں لیکن ان کے ذریعے سے اپنی رائے اس پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔ایک قابل لحاظ بات یہ بھی ہے کہ بچے کی تربیت کے لیے ذمہ دار فریق ثانی اگر اپنی خوش گوار یادیں بچوں کے درمیان بانٹتا ہے تو آپ ان کو بھی اہمیت دیں ، ان کا احترام کریں۔ کوشش کریں کہ بچپن میں اگر آپ کسی افسوس ناک یا منفی تجربے سے دوچار ہوئے ہیں تو اس تجربے کو آپ اپنے گھر کے تعلق سے کسی بھی فیصلے پر اثر اندازنہ ہونے دیں۔البتہ یہ ضروری ہے کہ آپ جس موضوع پر بھی کوئی فیصلہ لینا چاہتے کہ اس کے ہر پہلو پر اچھی طرح غور کرلیںاور جائزہ لے لیں۔اس کے بعد ہی کوئی مناسب فیصلہ کریں ۔ گھر کے تعلق سے کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے میں جذبات کو آڑے نہ آنے دیں۔