اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تعلیم کے بغیر دنیا میں بہت سی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تعلیم ہی ہے جو انسان کو نکھارتی اور سنوارتی ہے۔ جوں ہی بچہ پیروں پر کھڑا ہوتا ہے ماں باپ اسے تعلیم دینے میں مصروف کردیتے ہیں۔ جیسے بچہ سمجھ دار ہونے لگتا ہے ماں باپ اس پر زور دینا شروع کردیتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ بن کر ان کا نام روشن کرے۔ سولا یہ ہے کہ ماں باپ کا اصل مقصد بچوں کو دنیاوی تعلیم دینا ہوتا ہے؟ کیا تعلیم اور تربیت کے موازنے میں تعلیم کو برتری حاصل ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کر رہے بلکہ صرف تعلیم حاصل کرنے پر ہی زور دے رہے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں محض تعلیم ہے مگر تربیت کا فقدان نظر آتا ہے اسی لیے یہاں تعلیمی نظام کے بہتر نتائج سامنے نہیں آپاتے۔ تربیت کا اصل مرکز تو گھر ہے مگر اسکول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تربیت جو گھر پر کی جاتی ہے، عام طور پر زیادہ موثر و مضبوط ہوتی ہے۔اس کا طریقہ یہی ہے کہ والدین سب سے پہلے خود نیک ہوں اور جس چیز کی تربیت اولاد کو دیں پہلے اس پر خود عمل پیرا ہوں۔ بچے بہت سی باتیں اپنے والدین کی نقل و حرکت اور ان کے کاموں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچے بات کرنے کا انداز چھوٹے بڑے کا ادب، رہن سہن کے آداب وغیرہ اپنے والدین سے ہی سیکھتے ہیں۔ اگر بچپن میں والدین اپنے بچوں کو بہتر طریقے بتاتے ہیں تو وہ بہت حد تک اپنے والدین کی باتوں اور ان کے ماحول کو اختیار کرلیتے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرہ کے بہت سے گھرانوں کا ماحول اس قدر آزاد ہوگیا ہے کہ اولاد پر اس کا اچھا اثر مرتب ہوتا نظر نہیں آتا۔ والدین رات کو دیر تک جاگتے اور دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ بچے بھی اسی روایت کے امین بن گئے ہیں۔ دن بھر گھروں میں ٹی وی چلتا رہتا ہے، جسے والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چھوٹے بچوں کو بھی ٹی وی کی عادت پڑ جاتی ہے۔ ایک تو اس سے ضیاع وقت ہوتا ہے اور دوسرے بہت سی منفی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ہمارا تعلیمی نظام لگے بندھے نصاب کو پڑھا کر امتحان کی تیاری کراتا ہے اور امتحان میں نمبرات کے حصول کو کامیابی قرار دیتا ہے جب کہ کتابیں رٹنے سے بچے امتحان میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن اخلاقی طور پر وہ نابالغ ہی رہتے ہیں کیوں کہ وہ صرف تعلیم کی حد تک کامیابی حاصل کرپاتے ہیں اور تربیت کے لحاظ سے ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کی تربیت اور ذہنی استعداد میں اضافے کے لیے مختلف پروگرامز کروانے چاہئیں تاکہ ان کا ذہنی افق وسیع ہو اور وہ سماجی مسائل اور ذمے داریوں کو بھی سمجھ سکیں۔
بچوں کی ذہنی نشو و نما کے ساتھ ساتھ جسمانی نشو و نما کی فکر بھی ضروری ہے اور اس میں کھیل کود کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ آج کل تعلیمی اداروں میں اس طرف دھیان کم ہے تاکہ نونہال صحت مند ہوں۔ آج کل میڈیا اور انٹرنیٹ کی سہولت تقریباً ہر گھر میں دست یاب ہے یہاں تک کہ ناخواندہ افراد اور بچے بھی دھڑلے سے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ بچوں کو ان سہولیات کے منفی استعمال سے روکنے کی ذمہ داری جہاں والدین کی ہے وہیں اساتذہ کرام کی بھی ہے کہ وہ طلبا میں ان سہولیات کے منفی استعمال سے ہونے والے نقصانات کا شعور بیدار کریں۔
بچے اپنی اخلاقی قدریں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے اطراف سے بھی سیکھتے ہیں۔ اس لیے محلے پڑوس کے ماحول کی اصلاح بھی سماجی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح ہماری اپنی اولاد کی تربیت و اصلاح۔
بچوں کی تربیت میں لازمی ہے کہ بچے کے ساتھ محبت اور شفقت بھرا رویہ اختیار کریں۔ ہر وقت ان پر ذہنی بوجھ نہ ڈالیں، اس سے بچہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ والدین بچوں کے ساتھ کھیلیں اور ہنسی مذاق کریں۔ کھیل کود بچوں کی زندگی میں حیات بخش اثر رکھتا ہے۔ کھیل کود کے دوران بچہ بہت سے تجربات کرتا ہے، سیکھتا ہے اور مہارت حاصل کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ بچہ کھیل کود کے ذریعے دیکھنے، سننے، چلنے، دوڑنے اور دوسروں سے میل جول کے طور پر طریقے سیکھتا ہے۔ بچوں کو بچپن ہی سے بڑوں کا ادب کرنے کی تلقین کرنی چاہیے اور انھیں فرماں برداری کا درس دینا چاہیے۔ جب بچے کو بات نہ ماننے پر سزا ملے تو بچہ سوچے سمجھے بغیر فرماں بردار ہو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں یہی بچہ جب اپنے ماں باپ کو اپنے والدین کی فرماں برداری کرتے دیکھتا ہے تو خود بھی فرماں برداری سیکھ جاتا ہے۔ جس پر ہم سب بچے کی تعریف کرتے ہیں اور یہ تعریف اس کے لیے انعام کا درجہ رکھتی ہے اور اس طرح وہ ہماری ہر بات ماننے لگتا ہے۔
بچوں کی تربیت کرتے وقت لازمی ہے کہ والدین اپنے رویوں کا بھی جائزہ لیتے رہیں۔ بچے بہت ہوشیار ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی غلطیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ماں باپ بچوں کے سامنے کسی کی برائی نہ کریں۔ مشہور قول ہے کہ ’’جو باپ اپنے بچے کو ادب سکھاتا ہے وہ اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔‘‘ کیوں کہ جب بچہ ادب سیکھ جاتا ہے تو مال، مرتبہ، عزت و شہرت سب کچھ حاصل کرلیتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ ’’پہلے اپنے بچوں کو ادب سکھاؤ پھر تعلیم دو۔‘‘ اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔
بچے کے ذہن میں کسی قسم کے منفی خیالات نہ آنے دیں، ان سے ان کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ اگر امتحان میں بچوں کے نمبرز کم آئیں تو ان سے سختی سے پیش آنے کے بجائے انھیں سمجھایا جائے کہ آپ کے نمبر بھی اچھے آسکتے ہیں بس اس کے لیے تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔
آج کے والدین کے لیے اپنی اولاد کو برے ماحول سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا بہت ضروری ہے۔ گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں، اگر یہیں گرفت مضبوط ہوجائے تو آگے معاشرہ بھی پابند ہو جاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی ا فکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔ ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے کہ ’’یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اس کے والدین دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہیں جن کی ماؤں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انھیں دینے کے لیے وقت نہیں۔‘‘lll