بچے باغِ دنیا کے پھول ہیں۔ یہ آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ آپ کی عدم توجہی سے بچے میں تنہائی کی عادت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی عادتیں باغیانہ ہوجاتی ہیں اور بالآخر وہ حکم عدولی کرنے والے، نافرمان، منحرف اور غیر ذمہ دار بچے کی شکل میں آپ کے لیے دردِ سر بن جاتا ہے۔ اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے والدین کو چند باتیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔
پیٹنے سے پہلے کے جذبات کو سمجھیں
’’بچے کو سزا دینے کا مطلب ہے کہ اس کے سرپرست اپنے بچے کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ سزا بچوں میں اصلاح پیدا کرنے کے برخلاف ان میں خوف وغیرہ کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔‘‘ یہ خیالات بچوں کے ایک مشہور ماہرِ نفسیات نے ظاہر کیے ہیں۔ ہر بچے کی کچھ قدرتی عادتیں اور ایک مقررہ جسمانی ساخت ہوتی ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بچپن سے بچے میں اگر ایمانداری، لگن، فہم اور حوصلہ جیسی خوبیاں شامل ہوجائیں تو بلاشبہہ اس کے خوش آئند مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے۔ بچوں میں ان خوبیوں کو پیدا کرنے کے لیے آپ کی محبت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ اگر بچوں کی نفسیات سے واقف ہیں تو آپ کا نصف مسئلہ تو یوں ہی حل ہوجائے گا۔
ہم بڑوں کے مانند بچوں میں بھی چند خاص جذباتی مسائل پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ ان مسائل کا حل ڈھونڈ لیں تو آپ کو بچوں کی ہمہ جہت نشو ونما میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ بچکانہ ضد ہر بچے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے۔ خواہ کسی شے کے لیے ضد ہو یا کسی شے سے کھیلنے کی، کچھ کھانے کی ضد ہو یا بوتل سے دودھ پینے کی۔ اکثر ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے جیسے بچے کو کچھ سمجھ آتی جاتی ہے، یہ مسئلہ ایک حد تک بڑھتا جاتا ہے۔
اصل میں اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کا ایک ہی پہلو مضبوط رہتا ہے اور بچے کو آپ کی حیثیت یا اس کے مطالبے کی اہمیت کا علم نہیں ہوتا۔
بچے کی ضد
ایک چھوٹے سے واقعے پر غور کریں۔ آپ اور آپ کا بچہ بازار گئے۔ راستے میں چلتے چلتے اس نے کچھ خریدنے کو آپ سے کہا بہت ہی لجاجت کے ساتھ۔ آپ نے غور نہیں کیا۔ اب بچہ بار بار اس کی رٹ لگا دیتا ہے۔ یہاں پر آپ کا ردِ عمل دو طریقے سے ہوتا ہے۔ یا تو اسے آپ صاف صاف منع کردیتے ہیں یا پھر اسے پھسلانے لگتے ہیں: ’’آگے اور بھی چیزیں ہیں، وہاں سے لے لینا۔‘‘
بچہ آپ کا منشا بھانپ کر پیر پٹخنے یا رونے لگتا ہے، اب ہوسکتا ہے کہ آپ اس کو اکا دکا چانٹے بھی ماردیں لیکن بچے کی شکست نہ دیکھ کر آخر میں آپ اسے وہ مطلوبہ کھلونا خرید دیتے ہیں۔ بچے کے ذہن میں یہ بات گھر کر جاتی ہے کہ پیر پٹخنے یا رو نے سے مطلوبہ یا پسندیدہ شے حاصل ہوجاتی ہے۔ اب وہ ہر بات پر اڑیل رخ اپنانے لگتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جب پہلی مرتبہ بچہ اس چیز کو لینے کی خواہش ظاہر کرے، تب آپ اس کی مرضی اور اپنی حیثیت اور اس شے کی اہمیت کی بنیاد پر اسے پرکھ کر حوصلے کے ساتھ بچے کا دھیان دوسری جانب بٹا لیں۔ کچھ ہی دیر میں بچہ اس شے کو بھول جاتا ہے۔
بچے کے مطالبے جذبات میں آکر پورے کرنے سے اس میں من مانی کا جذبہ پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اکلوتے بچوں میں یہ مسئلہ بے حد گمبھیر نظر آتا ہے۔ بچوں کی ضد کا مقابلہ ہمیشہ حوصلہ مندی اور ذہنی سطح پر ہی کریں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ بچوں سے جھوٹے وعدے کریں۔ آپ آسانی کے ساتھ اس شے سے بچے کی توجہ ہٹا سکتے ہیں اور اس کا ذہن تبدیل کرسکتے ہیں۔
بچوں کا جھوٹ بولنا
چھوٹے بچوں کی عقل میں دراصل سچ اور جھوٹ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ اس لیے ان کے جھوٹ کو بھی بڑے بچوں کے مقابلے میں کم اہمیت دینی چاہیے۔ یاد رکھیں کہ ایک ہی کام کے بار بار کرنے سے عادت بن جاتی ہے۔ یہی عادت کچھ وقت کے بعد مزاج بن جاتی ہے اور پھر کردار پر اثر ڈالنے لگتی ہے۔بچوں میں جھوٹ بولنے کی عادت خاص طور سے اکثر چار سے دس برس کی عمر میں نظر آتی ہے۔ ان کے جھوٹ کے پس پردہ ہمیشہ خوف یا عدم تحفظ کا جذبہ ہوتا ہے۔ جب آپ کولگے کہ بچہ جھوٹ بول رہا ہے تواسے روکیے، ٹالیے نہیں لیکن غصہ بھی نہ کیجیے۔ بلکہ حقیقت کا پتہ لگائیے اور بچے کو احساس کرادیجیے کہ سچ بولنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس میں اخلاقی خوبیوں اور حوصلے کا جذبہ پیدا کیجیے۔ اسے بتائیے کہ جھوٹ بولنے والا بچہ خود اپنے دوستوں کا اعتماد اور ہمدردی کھودیتا ہے۔ آپ خود اپنے بچے میں فرق محسوس کریں گے۔ اس کے لیے ایک خاص بات اور بھی ضروری ہے کہ کم از کم بچے کے سامنے آپ خود بھی جھوٹ نہ بولیں۔
بچوں کو ڈرپوک بنانے میں گھر والوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہمارے گھروں میں بچوں کو ڈرانے کے لیے بھوت پریت، بلی، کرنٹ وغیرہ الفاظ کا بے جھجک استعمال کیا جاتا ہے۔ بچوں کے نازک ذہن میں یہ باتیں گھر کر جاتی ہیں اور پھر انہیں ہر شے میں ایک انجانا خوف نظر آنے لگتا ہے۔ پھر بچہ ہر جانور کو دیکھ کر روتا اور ڈرتا ہے اور اندھیرے میں جانے سے گھبراتا ہے۔ بچے کو بلا وجہ یونہی ڈرپوک نہ بنائیے۔ اس سے بچے کے خود اعتماد بننے کے عمل میں رکاوٹ آتی ہے۔ بچوں کی توجہ ایسی باتوں سے ہٹا کر اچھی باتوں کی جانب مبذول کرنی چاہیے۔ ویسے یہ خوف اکثر عمر میں اضافے کے ساتھ خود ہی چلے جاتے ہیں۔
سنجیدہ عادت
گھر میں دن بھر اودھم مچاتا ہوا بچہ نئے اجنبی لوگوں کو دیکھ کر گم صم ہوجاتا ہے۔ دوسروں کو دیکھ کر ڈرنے یا رونے لگتا ہے۔ بولنا کم کردیتا ہے اور کھیل چھوڑ دیتا ہے۔ یہ ایک جذباتی مسئلہ ہے۔ اکثر بچہ کچھ وقت کے بعد نارمل ہوجاتا ہے۔ اگر آپ لمبے عرصے تک یہی بات محسوس کررہے ہوں تو پھر اس جانب توجہ دینی چاہیے ورنہ بچے میں اکثر شرم، ڈر اور احساسِ کمتری کا جذبہ گھر کرجاتا ہے۔ ایسے بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
احساسِ کمتری کا جذبہ
یہ بھی تقریباً سنجیدہ عادت ہی کی طرح ہے۔ اکثر غریب بچوں میں یہ جذبہ زیادہ نظر آتا ہے۔ آپ اسے خاموش رہنے دیں، اس پر غصہ نہ کریں، وہ خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ ضرورت ہے کہ بچوں کی عقل کا خیال کرتے ہوئے جسم کی ساخت اور قدرتی تبدیلیوں کے متعلق آسان فہم معلومات انہیں ضرور دی جائیں۔
جدید مصروف دور میں والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کو ان کے حصے کا پورا پیار دے سکیں۔ آپ کے پیار، امداد اور صحیح رہبری سے ان میں تحفظ کا جو جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ ہر وقت انہیں حوصلہ بخشتا ہے۔ آپ کے پیار اور محبت کا مقابلہ نوکرانی، ہوٹل یاددست نہیں کرسکتے۔ آپ کی لاپروائی سے بچے میں علیحدہ رہنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ آپ کے نزدیک باغی ہوجاتا ہے اور بعد میں آپ کی عدم توجہی کے نتیجے میں حکم عدولی کرنے والا، کام میں ہاتھ نہ بٹانے والا اور صحیح راستے سے منحرف ہوکر غیر ذمہ دار بچوں کی صف میں آجاتا ہے۔
بچے کو اس کے حصے کی محبت ضرور دیں۔ نظم و ضبط برقرار رکھیں۔ بچے کے کاموں اور دوستوں پر بھی تھوڑی بہت نگاہ ضرور رکھیں لیکن ان کے ہر کام میں دخل نہ دیں۔ خود بچوں کے سامنے اپنی اچھی عادتوں کا مظاہرہ کریں۔ گھر کا ماحول بھی کشیدہ نہ ہو۔ یاد رکھیں خود اعتمادی رکھنے والا بچہ اپنی قدر شناسی کرکے اپنی اہمیت محسوس کرتا ہے۔