بچوں کی تربیت کے اہم نکات

محمد ابوالفضل

آج کے تیز رفتار دور میں پرانی اخلاقی قدریں اور معیارات نئی نسل کے لیے اجنبی ہیں۔ گھر میں جب بچے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جس کی ان کے والدین ان سے توقع نہیں رکھتے تو گھر میں جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ والدین بچوں کی نگہداشت اور پرورش کا کوئی ایسا طریقہ جاننا چاہتے ہیںکہ بچے جب جوان ہو ںتو وہ ان کے لیے زحمت کی بجائے خوشی اور سکون کا باعث ہوں۔ میرے خیال میں سوال یہ نہیں کہ والدین کو بچوں کی تربیت کیسے کرنی چاہیے بلکہ سوال یہ ہے کہ والدین اپنی تربیت کیسے کریں۔ والدین کو بچوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ بات زیادہ اہم ہے کیونکہ صرف اپنے عمل سے ہی وہ بچوں کی مستقبل کے لیے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ اسی نقطۂ نظر کے حوالے سے میں کچھ تجاویز پیش کرنا چاہوں گا۔
چند تجاویز
آپ جس رویے کی اپنے بچے سے توقع رکھتے ہیں پہلے خود اس کی مثال قائم کریں۔ عمل کے بغیر نصیحت کارآمد نہیں ہوتی۔ اگر آپ اسے سچ بولنا سکھانا چاہتے ہیں تو خود سچ بولیں اور اس طرح کی صورتحال سے پرہیز کریں کہ ’’بیٹا ٹیلی فون پر جو صاحب ہیں، انھیں بتادو کہ ابو گھر پر نہیں۔‘‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ کوئی خاص ٹی وی پروگرام نہ دیکھے تو بہتر ہے کہ آپ خود بھی پروگرام نہ دیکھیں اور ٹی وی بند کردیں، اپنے بچے کو یہ احساس ہونے دیں کہ آپ اس پر اعتماد کرتے ہیں اگر آپ اس کی باتوں پر شک کریں گے تو وہ آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترے گا۔ اپنے بچے سے بات کرنے کے لیے وقت نکالیں۔ اکثر والدین کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو بہترین اسکول میں داخل کرایا ہے ان پر پیسے خرچ کررہے ہیں اب اس سے زیادہ ہم ان کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ بچے چاہے بہترین اسکول میں پڑھتے ہوں یا نہ پڑھتے ہوں، اگر والدین بچوں سے بات کرنے کے لیے وقت نہیں نکالیں گے تو ایک دن وہ دیکھیں گے کہ بچوں کو جو چیز والدین کو بتانی چاہیے اسے وہ ان سے چھپا رہے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں، یہ باتیں ان کے دوستوں کے متعلق ہوسکتی ہیں یا کسی ایسی بات کے متعلق ہوسکتی ہیں جن کی بچہ وضاحت چاہتا ہو۔ خاندان میں ایسی سرگرمیاں زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئیں جن میں بچے بھی شریک ہوں۔ بچوں سے اسکول کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے والدین کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ان کے اساتذہ کا ذکر احترام سے کریں۔ بچوں کے سامنے کبھی بھی ان کے اساتذہ کا مضحکہ نہ اڑائیں، ورنہ ان کی نظر میں استاد کی عزت ختم ہوجائے گی اور وہ اس کی اتھارٹی کو اور عمومی طور پر کسی بھی اتھارٹی کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اگر بچے سے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے سزا دینے کی بجائے اسے سمجھایا جائے۔ ہم نے کئی بچوں کو سزا پانے کے بعد اپنی ماؤں سے یہ پوچھے ہوئے دیکھا ہے کہ ہمیں مار کیوں پڑی ہے۔ بڑے بچوں کو سزا ملنی چاہیے مگر سزا کبھی انتہائی غصے میں نہ دی جائے۔ سزا کا مطلب انتقام لینا نہیں بلکہ اسے یہ بتانا ہے کہ جس بات پر سزا دی گئی ہے وہ آئندہ اس غلطی کا ارتکاب نہ کرے۔ بڑے بچوں کو سزا اس طرح دی جائے کہ ان سے کچھ دیر کے لیے کچھ مراعات چھین لی جائیں۔ جسمانی سزا پھر بھی نہیں دی جانی چاہیے۔ اگر والدین میں محبت اور مکمل ہم آہنگی ہو تو بچے خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں، اس کے برعکس اگر والدین ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہوں تو اس کے نتیجے میں بچے کے اندر عدمِ تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے جو بچے کو ابنارمل کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر والدین میں ہم آہنگی نہ ہو تو بچے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ والد یا والدہ سے ناجائز مطالبے شروع کردیتے ہیں جو کہ ٹینشن کا باعث بنتا ہے۔ اگر کسی بات پر بچے کی ماں کانقطہ نظر کچھ اور ہو اور باپ کا کچھ اور تو بچہ کنفیوژڈ ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے کہنے پر عمل کرے اور دونوں میں سے کون صحیح ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ حتی المقدور بچوں کے سامنے ایک ٹیم نظر آئیں یہ بچوں اور پورے خاندان کی بہتری کے لیے بہت ضروری ہے۔
کچھ والدین کا خیال ہوتا ہے کہ ان کا بچہ بالکل معصوم ہے جبکہ دوسرے بچے اس کو بگاڑ رہے ہیں،پاس پڑوس کے دوسرے والدین بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا بچہ معصوم ہے جبکہ دوسرے بچے اس کو بگاڑ رہے ہیں، ایسی صورتحال میں والدین کو دوسرے کے خیالات کا بھی کھلے دل سے جائزہ لینا چاہیے۔ گھر کے اندر والدین کو اپنے بچوں کے درمیان مقابلہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کے درمیان امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔ تمام بچوں میں الگ الگ خصوصیات ہوتی ہیں اگر ایک بچے میں کوئی ایک خوبی ہے تو دوسرے میں کوئی اور ہوگی اگر آپ پڑھائی میں تیز بچے کا مقابلہ دوسرے بچے سے کریں گے جو کہ پڑھائی میں اتنا تیز نہیں تو اس سے دوسرے بچے میں احساسِ کمتری پیدا ہوگا اور وہ اپنے بھائی سے نفرت کرنا شروع کردے گا۔ مزید برآں آپ بچے کو خود فیصلہ کرنے دیں کہ اسے آئندہ زندگی میں کیا کرنا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کسی کام کے لیے رجحان اور خصوصیات ہوں، ہم نے ایسے کئی بچے دیکھے ہیں جو والدین کے کہنے پر سائنس مضامین لے لیتے ہیں اور اس طرح اپنا وقت ضائع کرتے ہیںکیونکہ ان کا اپنا رجحان آرٹس مضامین کی طرف ہوتا ہے۔
بچے کو دوستوں کے انتخاب اور ان کے ساتھ جانے کی اجازت دیں بچے کو ایک بار واضح ہدایات دیں اور پھر ان پر سختی سے کاربند رہیں مگر خود کو بچے کے دوستوں کی جگہ پر نہ رکھیں۔ میں نے ایک لڑکی کو دیکھا ہے جو اپنی ماں سے اس وجہ سے نفرت کرتی تھی کہ اس کی ماں اس بات کا اصرار کرتی تھی کہ اس کی بیٹی اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے اس کے ساتھ فلم دیکھنے جائے۔ بچے کو اپنے ہم عمروں کی صحبت میں رہنے اور ان سے مقابلہ کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ اپنے والدین کی صحبت میں ہمیشہ مغلوب رہیں۔ بچوں کے جوان ہونے پر دوسری طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ان میں پسند کی شادی کا مسئلہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ جہاں تک بچے کی جنسی زندگی کا تعلق ہے تو والدین کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جدید دور نے نئی نسل پر بہت زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے۔ پچھلے زمانے میں والدین اپنے بچوں کی بہت جلد شادی کردیا کرتے تھے، لڑکوں کو ۲۰سال، جبکہ لڑکیوں کو ۱۴، ۱۵ سال کی عمر تک بیاہ دیا جاتاتھا۔ مگر آج لڑکا صرف اسی وقت شادی کرنا چاہتا ہے جب وہ اپنا معاشی بوجھ اٹھانے کے قابل ہوجاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ شادی مناسب تعلیم حاصل کرنے اور نوکری حاصل کرنے کے بعد کرتا ہے۔ لڑکی کے والدین بھی اپنے داماد سے یہی توقع رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کل لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہونے کے دس سال بعد تک شادی نہیں کرتے۔ پچھلے وقتوں میں ۲۵ سال کی ایک عورت کے اس عمر میں چار یا پانچ بچے ہوا کرتے تھے، جبکہ آج اس عمر کی عورت بھی کنواری ہوتی ہے اور لوگوں کے لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہوتی۔
دراصل تربیتِ اولاد کے ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں ماں باپ دونوں باعمل، اخلاص اور محبت کی زندگی گزاریں وہیں وہ اولاد کے لیے مناسب وقت دے کر ان کے اچھے دوست بن سکیں تاکہ وہ اپنے افکار اور اپنی دینی و سماجی روایات و اقدار کو ان تک منتقل کرسکیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں