(۱)
واہ!یہ جنت کتنی پیاری ہے ۔ (i) دیکھو لوگ سونے کے تاروں سے بُنی ہوئی چارپائیوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں (ii) لڑکے دیکھو بکھرے موتی کے مانند جگ اور جام لے دوڑ رہے ہیں (iii) میوے دل پسند حاضر !! (iv) مرغوب پرندوں کے گوشت کیا خوبصورتی سے گارنش کیے ہوئے ! (v) بڑی بڑی آنکھوں والی باحیا حوروں کو دیکھو، چمکتے سورج چاند ان کے حسن کے سامنے ماند پڑگئے ہیں (vi) اعلیٰ ورائٹی کی بے خار بیریاں کتنی خوبصورت (vii) تہہ بہ تہہ کلیوں کا حسین منظر دل لبھا رہا ہے (vii) لمبے لمبے گھنے سائے کا منظر جسم کے ساتھ روح کو بھی ٹھنڈک پہنچارہا ہے (viii)بہتے ہوئے پانی، ابلتے ہوئے فوارے، موتیوں سے ٹکراتے ہوئے شور سے بہنے والے چشمے ، کیا موسیقی، کیا اچھل کود، کیا رواں رواں منظر۔
جی یہ آپ کی جنت ہے، سب آپ کے لیے تیار کیا ہوا، مدتوں سے سجایا گیا ہے۔ پھر کیا بات ہے؟ کیا سوچ رہی ہو؟ کس کی راہ تک رہی ہو؟
ارے میرے لخت جگر ، پارہ دل اور میری نظر کے نور کہاں؟ ……کیا پیچھے رہ گئے؟ ……شاید چونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے
وَالَّّذِیْنَ آمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتَھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتْھُمْ وَمَا اَلَتْنٰھُمْ مِنْ عَمَلِھِمْ مِنْ شَئیٍ کُلُّ امْرِیٍٔ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ۔(۲۱:۵۲)
’’(اور جو لوگ ایمان لائے) ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچادین گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے۔‘‘
جنت کی مادی نعمتوں کے ساتھ بیوی بچوں اور شوہر کا یکجا جنت مین جمع ہونا حقیقی مسرت کا باعث ہوگا۔ لیکن اہل خاندان کو جنت تک لے جانا ہم میں سے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔
’’تم میں کا ہر شخص نگراں ہے۔ اور اپنے ماتحت کے بارے میں مسئول ہے۔ ‘‘
تین ’’م‘‘ کے اثرات
(۱) موروثی اثرات : بچون کی شخصیت کی تعمیر میں پہلا عنصر ارث ہوتا ہے۔ ماں باپ کی جسمانی حرکات، اخلاقی عادات واطوار اور فیچرس بچوں میں مورثی طور پر ، ہم چاہیں نہ چاہیں، منتقل ہوتے ہیں۔ شرافت، رذالت ، فیاضی، بخیلی ، جرأت، بزدلی، شرم وحیا اور بے حیائی جیسی صفات کسی حد تک موروثی طور پر ہم اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔
(۲) ماحول کے اثرات : بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں دوسرا عنصر ماحول ہوتا ہے۔ ماحول سے مراد گھر کا ماحول، گلی اور گائوں کا ماحول سب شامل ہیں۔ شوہر بیوی کے درمیان خوشگوار تعلقات یا تلخیوں کا اثر بچوں کی نفسیات اور شخصیت پر لازماً پڑتا ہے۔ امریکہ میں ایک ۱۵ سالہ لڑکا ایک دن اچانک ریوالور لے کر اپنے کلاس کے بارہ پندرہ بچوں پر گولیاں چلادیتا ہے۔ گرفتاری ہوتی ہے۔ معائنہ اور تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ ایک ایسے گھر اکا پروردہ ہے جہاں ہر دن میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہوتے تھے۔ جھگڑالو ماحول نے اسے پر تشدد بنا دیا۔
(۳) مربی کے اثرات : بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں تیسرا عنصر مربی ہوتا ہے۔ مربی سے مراد وہ افراد ہیں جو بچے کی تربیت کرتے ہیں۔ ماں، باپ، دادا، دادی ، اساتذہ، تحریک کے بزرگ وغیرہ بچوں پر اپنی تربیت کے ذریعے اثرات جھوڑتے ہیں۔ مگر یاد رہے بچوں کی تربیت والدین پر فرض ہے۔ قرآن کہتا ہے:
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَاراً۔(۶:۶۶)
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے کھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو۔‘‘
مذکورہ بالا دونوں عناصر میں غیر دانستہ، غیر شعوری طور پر جو کمزوریاں رہ جائیں ان کے ازالہ کے لیے اور بچوں کی صحت مند تربیت کی لیے ماں باپ کو اپنا یہ رول اچھی طرح سمجھنا اور نبھانا ہے۔ بچون کی تربیت میں مندرجہ ذیل امور پر توجہ ہونی چاہیے۔
’’خودی کو پروان چڑھانا‘‘
معلوم ہونا چاہیے کہ ہر جاندار کی ایک انا ہوتی ہے۔ بالخصوص انسان اپنی ایک خودی رکھتا ہے۔ جسے انا بھی کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی میں اسے Ego کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں لفظ ’’انا‘‘ ایک منفی مفہوم رکھتا ہے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ انا شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ ہر شخص کی ایک شخصیت ہوتی ہے جسے وہ جانے انجانے میں تعمیر کرتا ہے یا جس کی تعمیر ہوتی ہے۔ ذوق ، ذہانت، مزاج،کردار سب اس کے مظہر ہیں۔
ضد بھی اپنی انا کا ایک اظہار ہے۔ ضد کو عموماً مائیں برداشت نہیں کرپاتیں۔ ضد کے جوب میں مائیں بھی ضد کرنے لگتی ہیں۔ وہ کوئی چیز طلب کرکے ضد کرتا ہے ۔ ہم نہین دینے پر مصر ہوکر ضد کرتے ہیں۔ ضد کے جواب میں مار پیٹ بھی بچے کی شخصیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ ضدی بچے آگے چل کر کامیاب انسان بنتے ہیں۔ ضد ہی مثبت شکل اختیار کرکے عزم بن جاتا ہے۔ بچہ اپنی پسند کا کھانا، اپنی پسند کا کپڑا مانگتا ہے تو ان سب کو پورا کرنے میں آپ کو کیا تکلیف ہے۔ وہ ہرے رنگ کی ٹوپی اور لال رنگ کا جوتا مانگتا ہے ۔ آپ کہتی ہیں یہ رنک چھچھورے اور غیر سنجیدہ لگتے ہیں۔ یہ ’’چھچھورے‘‘ اور ’’غیر سنجیدہ‘‘ آپ کی عمر کے لحاظ سے ہیں ۔ بچہ جب اس رنگ کے کپڑے پہنے گا تو وہ اپنی عمر کے فطری تقاضوں کے مطابق ہوگا۔ بہرحال جب وہ فطری ، معمولی چیزوں کی طلب کرے تو اس کی مانگ پوری کرکے اس کی خودی کو پروان چڑھانا چاہیے۔ باربار اس کی طلب کو رد کرنے اور اپنی انا کی برتری جتانے سے تو بچے کی شخصیت متاثر ہوگی۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ اگر بچے کو کچھ سمجھا نا چاہتی ہیں تو نہایت پیار ومحبت کے انداز میں سمجھانا چاہیے۔ نہ سمجھے تو کسی اور بار مناسب موڈ میں پھر سمجھانا چاہیے۔ دوچار بار پیارسے سمجھانے پر بچے بات سمجھ جاتے ہیں۔
تجربے کرنا بھی بچوں کی فطرت ہے۔ اس کے ذریعے بھی ان کی انا پروان چڑھتی ہے دوکان سے انڈا منگائیے، کرکٹ کا موسم ہو تو بچہ غیر شعوری طور پر انڈے کو گیند سمجھ کر بالنگ کرڈالتا ہے۔ کبھی کھیلتے ہوئے دیوار پر لگی گھڑی کو نشانہ بنا کر شاٹ لگاتا ہے۔ گھڑی ٹوت جاتی ہے۔ گھڑی ٹوٹی، کوئی بات نہیں، بچہ یہ اچھی طرح جان لے کہ کھیلتے ہوئے ہڈی اور ٹانگ نہیں ٹوٹنی چاہیے۔ بچہ کبھی یہ تجربہ کرنا چاہتا ہے چینی کے بڑے کٹورے میں لٹو گھومے تو کیسا لگے گا۔ کھلونے سے بھی وہ تجربے کرتے ہیں۔ ان سب ’’نقصانات‘‘ کو دماغی نشونما اور تعلیم کی غرض سے ہلکا سا ڈانٹ کر برداشت کرلینا چاہیے۔ تعلیم کے لیے آپ کچھ اسکول فیس ادا کرتی ہیں، کچھ غیر اسکول فیس ہوتی ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں تو انڈا، گھڑی اور کٹورہ پھوٹنے پر بچے کو مار مار کر اس کی انا مجروح کرنے اور اپنا بلڈ پریشر بڑھانے کی نوبت نہیں آئے گی۔
مہمان گھر آئے ہوئے ہیں۔ خاطر تواضع کے لیے چائے وائے کا انتظام کیا گیا ہے۔ بچے مجلس میں حاضر ہونگے۔ مہمانوں کے روبرو بیٹھ کر اکل وشرب میں شامل ہوجائیں گے ۔ مائیں شرمندہ ہوجاتی ہیں، مہمانوں کے رخصت ہونے کے ساتھ ان کی ’’مرمت ‘‘ شروع کردیتی ہیں۔ جرم کیا ہے۔ ہمارا بچہ، ہمارے گھر میں، ہماری کمائی کا، ہمارے سامنے ’’ڈھٹائی‘‘ سے اٹھا کر کھا لیا۔ آپ بتائیے ہمارا بچہ، ہمارے گھر، ہماری لائی ہوئی چیز نہیں کھائے گا تو اور کہاں جا کر کھائے گا۔ آپ کا اصرار ہے کہ مہمان جانے کے بعد کھائے۔ مہمان کے سامنے کھالینا آپ سمجھتی ہیں کہ مہمانوں پر یہ اثر پڑے گا کہ آپ کے بچے ’’ہلکے‘‘ ’’نادیدہ‘‘ یا غیر تربیت یافتہ ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی ہوتے ہین۔ یہ اپنی انا کا اظہار ہے۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ دسترخوان پر چنی ہوئی چیزوں پر ان کا بھی حق ہے بلکہ پہلا حق ہے چونکہ وہ گھر کے لاڈلے ہیں۔ وہ اپنی حاضری اور اپنا حق جتاتے ہیں یہ بات قابل گرفت نہیں ہے۔ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار رہیے۔
Egoکے اقسام
ایگو یا انا ۳ قسم کی ہوتی ہیں۔
(۱) طفلی انا : بچے کھیلتے کودتے ہوئے پانی کیچڑ میں لت پت ہو کر خوش ہوتے ہوئے اپنی طفلی انا کا اظہار کرتے ہیں۔ جسے عام زبان میں ہم بچکانہ حرکتیں کہتے ہیں۔
(۲) سرپرست انا : بچوں کو آپ نے کھیلتے ہوئے کبھی دیکھا ہوگا کہ ان میں ایک ’’باپ‘‘ بن جاتا ہے، ایک ’’ماں‘‘ بن جاتا ہے، بعض ’’بچے‘‘ بن جاتے ہیں۔ گھر کا ایک سین ہوتا ہے۔ باپ چاکلیٹ لارہا ہے۔ ’’ماں ‘‘ کھانا پکارہی ہے، بچے مچل رہے ہیں ’’ماں‘‘ کہہ رہی ہے جلدی مت کرو کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
یا بعض بچے استاد بن جاتے اور بعض شاگرد، اسکول اور کلاس کا سین ہوتا ہے ۔ پڑھایا اور سلیقہ سکھایا جارہا ہے۔ وقت پر آنے، پاک صاف آنے کی نصیحت کی جارہی ہے۔ ان کھیلوں کو make beleive game کہا جاتا ہے۔ جس میں بچے باور کراتے ہیں کہ وہ باپ ہیں، یا ماں یا استاد۔ ان سب کھیلوں سے ان کی شخصیت کا سماجی اور معاشرتی پہلو ابھرتا ہے۔
(۳) بالغ انا: ایک اور قسم کا کھیل بچوں میں عام ہوتا ہے۔ ریت کی ڈھیر پر بیٹھ کر گھروندے بناتے ہیں۔ کہیں قریب میں گھر تعمیر ہورہا ہو تو وہاں سے لکڑی کے ٹکڑے ماربل اور ٹائیل کی ردی اٹھا لاتے ہیں۔ ان سب کو جوڑ کر ’’پل‘‘ بناتے ہیں، یا کتاب اور نوٹ بک جمع کرکے بلڈنگ کی تعمیر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ غور وفکر کرنا، اشیا کا استعمال کرنا، تصورات کو عمل کی دنیا میں ڈھالنا سیکھتے ہیں۔ شخصیت کے اس حصے کو adult egoکہتے ہیں۔
اس طرح بچوں کی انا کو پروان چڑھنے کو موقع ملنا چاہیے۔ مائیں کبھی ان کھیلوں کو بیوقوفی یا گندی حرکت کا نام دیکر اس طرح کے کھیلوں سے روک کر ان کی انا کو متاثر کردیتی ہے۔
خودی کب مجروح ہوتی ہے؟
(۱) بچوں کی اپنی انا بھی ہوتی ہے اس کی محافظ عزت نفس بھی۔ بچے سے کبھی غلطی ہو جاتی ہے۔ اسکول سے آتے ہوئے پیشاب پاخانہ کپڑے میں کبھی برداشت سے باہر ہوکر کرلیتے ہیں یا اس طرح کی کسی حرکت پر مائیں آنے والے رشتہ داروں کے سامنے قصہ بیان کر کے ٹھٹے لگا کر ہنستی ہیں۔ بچہ اندر سے غصہ کرتا ہے، شرمندہ ہوتا ہے۔ اپنی ہتک اور توہین محسوس کرتا ہے، مگر ماں کو روکنے سے ڈرتا ہے۔ لیکن اس کی مجروح انا اپنی تسکین چاہتی ہے۔ لہٰذا اپنے دوستوں کی محفل میں وہ آپ کی کسی بیوقوفی کی داستان سنا کر ، جس پر شوہر سے ڈانٹ ملی ہو، محظوظ ہوتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ہم اس کی خودی کو مجروح کرتے ہیں بلکہ ایک غلط طرز عمل کا بیج بوتے ہیں۔
(۲) ہر بچہ اپنی فطری استعداد اور صلاحیت لیکر آتا ہے۔ کوئی پڑھائی میں تیز ہوتا ہے تو کوئی کھیل کود میں طمغے لاتا ہے، کوئی نغمہ گو ہوتا ہے تو کوئی آرٹ کا فطری ذوق لیکر آتا ہے۔ بچوں سے عموماً ہم اس چیز کی توقع رکھتے ہیں جس میں ہم ناکام رہے۔ ہم پڑھ نہیں پائے مگر چاہتے ہیں کہ بچہ فرسٹ رینک لائے۔ چوتھی پانچویں نمبر پر آتا ہے تو ہم اسے دوسروں سے موازنہ کرکے عار دلاتے ہیں کہ ’’زبیر چچا کی گڑیا کو دیکھو! طوطے کی طرح ٹیں ٹیں پڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک تم ہو ناکارہ ‘‘ اس طرح موازنہ کرنے سے بچوں کی انا مجروح ہوتی ہے۔ وہ اپنے کو دوسروں سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔ آگے چل کر ایک پیچیدہ مرض ’’احساس کمتری‘‘ میں مبتلا کرنے کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں۔
زندگی کی کہانی لکھنا
ہم میں سے ہر فرد زندگی کے اسٹیج پر ایک رول ادا کررہا ہے جس کی کردار سازی بچپن سے ہمارے والدین نے کی۔ زندگی کو ہم ایک کہانی سمجھیں تو اس کہانی میں ہم کیا رول ادا کریں گے- ہیرو؟ ولن؟ کامیاب شخص؟ نام کام وشکست خوردہ ؟ ملنسار؟ سماج بیزار؟ جرأت مند یا بزدل؟ -ان سب کا تعین ہمارے والدین کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم اپنے بچوں کے مستقبل کی کہانی لکھتے ہیں۔
عموماً گھروں میں جو گالیاں دی جاتی ہیں اس سے ہم اس بچے کے مستقبل کی کردارسازی کرتے ہیں۔ کوئی غلط کام کر بیٹھے تو ’’بیوقوف‘‘ ’’احمق کہیں کا‘‘اس تکرارکے ساتھ کہتے رہتے ہیں کہ بچے کا معصوم ذہن اس ’’کمپیوٹر پروگرامنگ‘‘ کو قبول کرلیتا ہے اور آگے چل کے زندگی میں وہ بیوقوف اور احمق ہی ثابت ہوتا ہے۔
کام میں سست رفتار ہو تو ’’ گدھے کہیں کے‘‘ ’’اچھا بھینس سے پالا پڑا‘‘ کے جملے کس کر واقعتا اسے گدھا اور بھینس بناڈالتے ہیں۔
رات کے وقت چاہتے ہیں کہ پچھواڑے سے کپڑے اٹھاکر لائے۔ یا چائے بناکر لانے کے لیے کہتے ہیں۔ لڑکی ڈرتی ہے تو ڈھارس دینے، ہمت بندھانے کے بجائے کہنے لگتے ہیں ’’ڈرپوک کہیں کی‘‘ ’’بزدل لڑکی‘‘۔ چائے اچھی نہ بنے تو یہ سند عطا کردیتے ہیں کہ ’’تم کسی کام کے لائق نہیں ہو‘‘۔
بچوں کی شرارت سے تنگ آکر نہ سرف مارپیٹ کرتے ہیں بلکہ اکثر جاہل مائوں سے یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ’’تم کو پال کر زندگی بھر رونا پڑرہا ہے۔ جی چاہتا ہے گلا دبوچ کر تمہارا معاملہ ختم کردوں۔ ایک بار رو لینا ہزار بار رونے سے بہتر تھا۔‘‘ اس طرح کے سنگین جملے بچے کے کچے ذہن میں یوں نقش ہوجاتے ہیں کہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ میری زندگی بوجھ ہے اور موت سستی ہے۔ اسی قسم کے افراد ہوتے ہیں جو بڑی عمر کوپہنچ کر خود کشی کرلیتے ہیں۔ چونکہ ان کی script writing یہ کی گئی کہ you are not ok۔ یعنی تم ناکارہ ہو ٹھیک نہیں ہو۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ ہاتھی کا بچہ جب پکڑ کر لایا جاتا ہے تو اس کے پیر میں موٹی زنجیر ہوتی ہے اور اسے ایک مضبوط درخت کے تنے سے باندھ دیا جاتا ہے۔ کچھ دن اس طرح گذرتے ہیں تو اس کے ذہن کی کمپیوٹر پروگرامنگ یہ ہوتی ہے یعنی ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ میرے جسم کو کسی چیز سے باندھ دیا جائے تو میں فرار نہیں ہوسکتا۔ جب یہ کہانی لکھ دی جاتی ہے تو ہاتھی کے بڑا ہوجانے کے بعد اس کے پیر میں ایک معمولی رسی باندھ کر کسی کھونٹے سے باندھ دیا جائے تو بھی وہ بھاگ نہیں پاتا۔ حالانکہ زنجیر کے بجائے پیروں میں اب رسی ہوتی ہے، مضبوط تنے کے بجائے معمولی کھونٹا ہوتا ہے۔ مگر بچپن کی کردار سازی اس کی ہمت توڑ دیتی ہے۔ یہی حال انسانی بچوں کا بھی ہے۔ انہیں ہم شاباشی دیں، تعریف کے کلمات کہیں، ہمت افزائی کریں، کہیں کہ ’’بیٹی تم میرے گھر کی رونق ہو‘‘ ’’عدی تم بہت ذہین ہو‘‘ ’’عمران بیٹے تمہاری جرأت مندی مجھے بہت پسند ہے‘‘ ’’بیٹے تم بہت لائق ہو میرے ہونہار فرزند ہو‘‘ اسی طرح کے جملے ان کی مثبت کردار سازی کریں گے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو اور ڈانٹنا ہو تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’بیٹے تم جیسے ذہین بچے سے یہ حرکت تو متوقع نہیں تھی یہ تو نالائق بچے کے کرنے کے کام ہیں۔‘‘ اس طرح ان کی Positive Script Writingمثبت کردار سازی پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل پہلو سے ان کی شخصیت کی نشونما ہونی چاہیے۔
(جاری)