ایک بچے کی زندگی میں دو درس گاہیں ہوتی ہیں، پہلی اس کی ماں گود، جہاں سے وہ سیکھنے کی ابتداء کرتا ہے، لفظوں سے آشنائی، عادات و اطوار اور رویوں کی تشکیل اسی درس گاہ سے ہوتی ہے۔ اس درس گاہ کی تربیت کے اثرات آئندہ زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ مدرسہ دوسری درس گاہ ہے۔ اسکول میں بچے کی کارکردگی اس امر پر منحصر ہے کہ ماں اس پر کتنی توجہ مرکوز کرتی ہے۔
موجودہ دور میں ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز میں بچوں کو پڑھانا، تعلیم کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ بہت سے بچے اسکول سے واپسی پر ٹیوشن سینٹر کا رخ کرتے ہیں اور بعض والدین گھر پر ہی ٹیوٹر کا انتظام کرلیتے ہیں۔ یہ اسکول میں دی گئی تعلیم بچے کے ذہن نشیں کرنے کی کوشش ہے۔ تمام بچوں کے نتائج یکساں نہیں ہوتے، اس کی وجہ بچوں کی صلاحیت اور گھر میں اس پر دی گئی توجہ ہے۔ لہٰذا بچوں کی تعلیمی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ٹیوشن کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ماں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ گھر پر والدین کے توجہ دینے سے بچوں کی پڑھائی میں دلچسپی بڑھتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بچوں کی مثال کچی مٹی کی سی ہوتی ہے، جن کے کمہار والدین اور استاد ہوتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کی مشترکہ نگہداشت ان کو ایک نہایت عمدہ شکل میں ڈھالتی ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی لاپروائی برتے تو ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوکر اسے متاثر کرسکتے ہیں۔
ٹیوشن پر مکمل انحصار بھی درست نہیں۔ بچوں کے ہوم ورک کی صورت حال پڑھائی لکھائی اور کلاس ورک کا جائزہ لیتے رہنا بہت ضروری ہے۔ بچوں کی ڈائری روزانہ پڑھ کر دستخط کریں، لکھائی بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ امتحانات اور ٹیسٹ کے دنوں میں بچوں سے یاد کیا ہوا سبق سنیں یا لکھوائیں۔ بچے کے اساتذہ سے مستقل رابطے میں رہیں اور وقتاً فوقتاً ان سے ملتے بھی رہیں۔ ان سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کے بارے میں رائے معلوم کریں۔ ان کاموں سے بچوں کی تعلیمی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔
اکثر مائیں کم تعلیمی قابلیت کا عذر پیش کر کے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کی نگرانی سے دست بردا رہوجاتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے بڑی بڑی ڈگریوں کی نہیں، لگن کی ضرورت ہے۔ آپ بچوں کو صرف یہ احساس دلائیں کہ تعلیم ان کے لیے کس قدر اہم ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بے شمار شخصیات کی مائیں تعلیم یافتہ نہیں تھیں لیکن ان کی بہترین تربیت اور نگرانی کی وجہ سے ان کی اولاد دنیا میں نام و مقام بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اسی لیے ماں چاہے تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ، اپنے بچوں کو لازماً تعلیم کی اہمیت سے روشناس کراتی رہے، اس بات کو مائیں خود پر فرض کرلیں۔
ایک وقت تھا جب مائیں خود بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں لیکن دور حاضر میں زیادہ تر مائیں وقت نہ ہونے یا گھریلو کام کاج کو جواز بنا کر بچوں کی تعلیم کو نظر انداز کردیتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ماؤں کی مصروفیات میں تبدیلی آچکی ہے، جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کے لیے ٹیوشن سینٹرز پر ہی مکمل انحصار کیا جا رہا ہے۔ بچوں کو ضرورت پڑنے پر ٹیوشن کی سہولت فراہم کرنا غلط نہیں لیکن ماؤں کو چاہیے کہ خود بھی بچوں کی تعلیمی کاکردگی پر نگاہ رکھیں۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ دنیا کے کام کاج چھوڑ کر یہ کام کرنا شروع کردیں۔ یاد رکھئے کہ دن میں ایک گھنٹہ بھی اس کام کے لیے کافی ہوسکتا ہے، اتنے میں ایک ماں بچے کا اس روز کا اسکول کا کام دیکھ سکتی ہے۔ اگر بچوں کی تعلیمی کارکردگی ماں کی ترجیحات میں شامل ہے تو اتنا وقت تو وہ نکال ہی سکتی ہے۔ ایک دانش ور کا کہنا ہے کہ یتیم وہ شخص نہیں جس کے والدین نہ ہوں بلکہ وہ ہے جس کی ماں اور باپ کے پاس اسے دینے کے لیے وقت نہیں۔ تعلیم و تربیت پر دی گئی ماں کی توجہ سے نہ صرف بچے تعلیمی میدان میں کامیاب ہوتے ہیں اور ان کی شخصیت میں نکھار آجاتا ہے اور اعتماد بھی بڑھ جاتا ہے۔
نپولین نے کیا خوب کہا تھا: ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں ماؤں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ بچے کی تربیت جہاں ان کے کامیاب مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، وہیں یہ معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے