بچوں میں ذہنی صلاحیتیں قدرتی طو رپر ہوتی ہیں۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ، مگر قدرت یہ نعمت ہر بچے کو عطا کرتی ہے۔ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے میں والدین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر وہ صحیح نہج پر بچوں کی تربیت کریں تو ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں نکھر جاتی ہیں جو ان کی کامیاب زندگی کی بنیاد ثابت ہوتی ہیں۔ جو والدین بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے پر توجہ دیتے ہیں وہ ان کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں۔ بچوں کو امتحانات میں اول آنے کی ترغیب دینا تو اہم سمجھا جاتا ہے لیکن انھیں کھلونوں کو توڑ کر دوبارہ جوڑنے کی طرف راغب کرنا پاگل پن سمجھا جاتا ہے۔
بچوں کی نفسیات سے آگاہی رکھنے والے اس بات کو بہ خوبی سمجھتے ہوں گے کہ بچے اپنے ارد گرد کے ماحول سے مانوس ہوجاتے ہیں اور اپنے اطراف موجود ہر چیز کے بارے میں خود سے سوال کرتے ہیں اور پھر انھیں جاننے کی بھی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ یہ تجسس کی حس ہی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز دے سکتی ہے، مگر جب والدین انھیں بے وجہ روکتے ٹوکتے ہیں یا زیادہ سوالات پوچھنے سے منع کرتے ہیں تو ان کی تخلیقی صلاحیت کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ کچھ والدین نے یہ بات محسوس کی ہوگی کہ بچے جب کارٹون یا کوئی پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں تو وہ خود بھی ساتھ ساتھ بول رہے ہوتے ہیں اور وہی جملے دہرانے کے بعد اپنی تجاویز بھی دیتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اگر میں اس کی جگہ پر ہوتا تو یہ کرتا یا وہ کرتا، در اصل وہ اس خود بیانی سے اپنی شخصیت کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور رجحان کو منظر عام پر لانے کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی بات سیکھنا یا کسی بات کی گہرائی تک پہنچنا ہی تخلیقی صلاحیت ہے۔
بچوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں موافق تخلیقی ماحول فراہم کیا جائے۔ انھیں ایسی سرگرمیوں میں مصروف کیا جائے جو ان کے رجحانات کو اجاگر کرسکتی ہوں اور جنہیں انجام دیتے ہوئے ان کا تخلیقی ذہن جلا پائے۔
گھر میں جب بچے کوئی آرٹ یا ڈرائنگ کا کام کر رہے ہوتے ہیں تو اکثر و بیشتر والدین ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں کہ تم نے بار بار مٹا کر درست کیا ہے، اتنی غلطیاں نہیں کرنی ہیں۔ والدین کا یہ انداز بچوں کی سوچ کو مایوسی میں بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتے اور کچھ بچے تو بالکل ہی اس کام میں دلچسپی ختم کر دیتے ہیں، اس سے بھی تخلیقی صلاحیت کی نمور رک جاتی ہے۔ بار بار غلطی کرنا ہی متحرک دماغ کی نشانی ہے۔ ان غلطیوں سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں پھر اسی سوچ کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا جب بچے کسی خاکے یا تصویر میں رنگ بھرنا شروع کرتے ہیں تو وہ اس سے پہلے اپنے ذہن پر زور ڈالتے ہیں، یعنی وہ سوچتے ہیں کہ کون سا رنگ کس حصے میں اچھا لگے گا۔ اسی طرح وہ اپنے کھلونوں کو خراب کر کے ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں ہیں جن کو والدین اکثر اوقات نظر انداز کردیتے ہیں۔ بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار دیکھتے ہوئے ان کے بارے میں اہل خانہ تبصرے کرتے ہیں کہ یہ بڑا ہوکر مکینک بنے گا یا جھگڑالو ثابت ہوگا۔ یہ عمل بالکل غلط ہے۔
اسکول میں اساتذہ اور گھر میں والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں اپنے کام سے لگن پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ جدید اختراعات کے مطالعہ کرنے کو فروغ دیں۔ جستجو، تلاش اور نئی سے نئی سوچ کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں تب ہی بچوں کی تخلیقی صلاحیت کو ابھارا اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ والدین کی خوش مزاجی اور گھر کا عمدہ ماحول بچوں کی ذہنی صلاحیتیں نکھارنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
ناکامی کا خوف کام یابی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بچوں کو کبھی اس بات کا احساس نہ دلائیں کہ وہ یہ کام کرسکتے ہیں او ریہ نہیں یا وہ یہ مضمون پڑھ سکتے ہیں اور یہ نہیں۔ ان کے ذہن میں کوئی خوف بیٹھنے نہ دیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ وہ اپنے طلبہ کو بہتر انداز سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس مرحلے میں بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دل و دماغ سے ناکامی کا خوف نکالنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ بچہ جب خوف سے آزاد ہوگا تو اس کی صلاحیتیں نکھرتی چلی جائیں گی، اس کا خود پر اعتماد بڑھتا چلا جائے گا اور اس کے روشن مستقبل کی بنیاد پڑ جائے گی۔
بچوں میں تخلیقی سوچ پیدا کرنے کے لیے ان کو نئی سرگرمیوں کی طرف مائل کریں جیسے کہ مخصوص شعبے سے ان سے توجہ ہٹا کر دیگر شعبوں کی طرف بھی دلچسپی لینا سکھائیں۔ اس طریقے سے ایک تو ان کی زندگی میں تبدیلی آئے گی اور دوسرا وہ اپنے لیے بہتر سوچنا شروع کردیں گے۔ ایک اہم بات جو بچوں کو سمجھانا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ کامیابی یکایک نہیں حاصل ہوتی بلکہ اس کے لیے مسلسل محنت اور ثابت قدمی درکار ہوتی ہے۔ اگر یہ سوچ لیا جائے کہ پہلے ہی مرحلے پر کامیاب ہونا ہے تو یہ سوچ زوال کی طرف لے جائے گی، اس لیے بچوں کے رویے میں لچک پیدا کریں۔
بچوں کے ذہنی رویے میں تبدیلی کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ اس لیے ان کو سکھائیں کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کی تکمیل کا اندازہ نہ لگانا شروع کردیں بلکہ اس کے متعلق دس سے پندرہ منٹ سوچیں کہ وہ اس کو کس طرح بہتر انداز سے تکمیل کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ بچوں کو سمجھائیں کہ جب اسکول کی کسی سرگرمی میں ان کو ذمہ داری سونپی جائے تو اس سے فائدہ اٹھائیں اور خود کو بھرپور طریقے سے نمایاں کریں، اس سے ان کے اندر نہ صرف احساس ذمہ داری پیدا ہوگا بلکہ دوسروں کے احساسات کو بھی سمجھنے کا موقع ملے گا۔
بچوں کو رائے لینا اور رائے دینا سکھائیے، اگرچہ کچھ والدین اس عادت سے اکتا جاتے ہیں اور جھنجھلاتے ہوئے بچوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ جو کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ یہ منفی رویہ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے اس تخلیقی عمل سے فائدہ اٹھائیں اور ان کے خیالات پر غور و فکر کرتے ہوئے اپنی اور بچوں کی رائے کا موازنہ کریں۔ اس طرح آپ بچوں کے تخلیقی فن کو جاننے کے قابل ہوسکیں گے کیوں کہ مشاورت اور تجربات مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔lll