بچوں کو تندرست رکھنے کے لیے تین چیزیں بڑی اہم ہیں:
(۱) عمدہ صحت بخش غذا (۲) صفائی
(۳) بیماری سے بچاؤ کے ٹیکے۔
یہ تینوں چیزیں وہ اہم اور ضروری حفاظتی اقدامات ہیں جو بچوں کو تندرست رکھتے اور انہیں بیماریوں سے بچاتے ہیں۔
عمدہ صحت بخش غذا
ضروری ہے کہ بچوں کو جو بہترین غذا مل سکتی ہو دی جائے تاکہ ان کی نشو ونما اچھی طرح ہو اور وہ بیمار نہ پڑیں۔ مختلف عمروں میں بچوں کے لیے بہترین غذائیں یہ ہیں:
پہلے چار سے چھ مہینے کی عمر تک ماں کا دودھ اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ چھ مہینے سے ایک برس کی عمر تک ماں کا دودھ اور دوسری صحت بخش غذائیں، مثلاً ابلی ہوئی دالیں، کچلے ہوئے پھلیوں کے بیج، انڈے، گوشت، پھل اور سبزیاں پکا کر۔
ایک برس کی عمر کے بعد بچوں کو وہی غذا دیں جو بڑے کھاتے ہیں، لیکن کئی مرتبہ دیں۔ اصل غذا (چاول، مکئی، گندم، آلو) کے علاوہ لحمیات اور پروٹین والی غذائیں بھی کھلائیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کو کافی غذا ملنی چاہیے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں میں ناقص غذائیت کی علامتیں دیکھتے رہیں اگر ایسی علامات ظاہر ہوں تو انہیں معالج سے یا کسی تجربہ کار دائی سے رجوع کرنا اور مشورہ لینا چاہیے۔
صفائی
اگر گھر اور عورتیں صاف رہیں تو بچوں کے تندرست رہنے کا امکان زیادہ ہے۔ صفائی کے بارے میں جو رہنما اصول ہیں ان کی پیروی کریں، بچوں کو بھی ان پر عمل کرنا سکھائیں اور ان کی اہمیت سمجھائیں۔ یہاں سب سے زیادہ اہم رہنما اصول بتائے جاتے ہیں۔
— بچوں کو پابندی سے نہلائیے اور ان کے کپڑے بدلیے۔
— بچوں کو صبح جاگنے کے بعد، پاخانہ کرنے کے بعد اور کھانا کھانے یا کھانے کی چیزوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیے۔
— بیت الخلاء بنائیے اور بچوں کو اس کا استعمال سکھائیے اور اس کی عادت ڈالیے۔
— ممکن ہو تو بچوں کو ننگے پاؤں نہ پھرنے دیں، انہیں چپل یا جوتے پہنائیں۔
— بچوں کو دانت مسواک سے صاف کرنا سکھائیں اور ان کو بہت زیادہ مٹھائیاں، ٹافیاں اور کولا مشروبات نہ دیں۔
— ان کے ناخن اچھی طرح کاٹیں۔
— بیمار بچوں کو اور ان بچوں کو جنہیں زخم، خارش، جوئیں یا داد ہو دوسرے بچوں کے ساتھ نہ سونے دیں۔ نہ ان کے کپڑے اور تولیے استعمال کرنے دیں۔
— بچوں کی خارش، داد پیٹ کے کیڑوں اور دوسرے انفیکشنز کا جو دوسروں کو آسانی سے لگ جاتے ہیں جلد از جلد علاج کرائیں۔
— بچوں کو گندی چیزیں منھ میں نہ رکھنے دیں۔ نہ بلیوں کو ان کا منھ چاٹنے دیں۔
— پینے کے لیے صرف خالص یا ابالا ہوا یا چھانا ہوا پانی استعمال کریں، دودھ پیتے اور بہت چھوٹے بچوں کے لیے یہ بات خاص طور پر ضروری ہے۔
— بچوں کو بوتل سے دودھ یا کوئی اور چیز نہ پلائیں کیوں کہ بوتل کو صاف کرنا مشکل ہے اور اس سے بیماری پھیل سکتی ہے، بچوں کو چمچے اور پیالی سے کھلائیں اور پلائیں۔
ٹیکے
ٹیکے بچوں کو بچپن کی خطرناک ترین بیماریوں مثلاً کالی کھانسی، خناق (ڈپتھیریا) تشنج یا جھٹکوں کی بیماری (Tetnus) پولیو، خسرہ اور تپ دق سے محفوظ رکھتے ہیں۔ بچوں کو شروع کے چند مہینوں میں مختلف ٹیکے لگانے چاہئیں۔
پولیو کا ٹیکہ (جو قطروں کی شکل میں پلایا جاتا ہے) ممکن ہو تو پیدا ہوتے ہی دیا جائے لیکن دو ماہ کی عمر سے پہلے ہر حال میں لگادیا جائے۔ کیونکہ بچوں کے فالج (پولیو) کا خطرہ ایک سال سے کم عمر کے بچوں کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
اہم بات: مکمل حفاظت کے لیے ڈی پی ٹی کا ٹیکہ (خناق یعنی ڈپتھیریا، کالی کھانسی اور جھٹکوں کی بیماری یعنی ٹیٹنس کے لیے) تین ماہ تک ہر ماہ اسی تاریخ کو لگانا ضروری ہے، پھر ایک برس بعد اسی تاریخ کو ایک ٹیکہ لگتا ہے۔نوزائیدہ بچے کو جھٹکوں کی بیماری (ٹیٹنس) سے بچانے کے لیے ماں کو حمل کے زمانے میں بھی ایک ٹیکہ لگایا جائے۔
بچوں کی نشو ونما ا ور صحت کا راستہ
تندرست بچہ برابر بڑھتا چلا جاتا ہے، اگر اسے اچھی صحت بخش غذا ملتی رہے اور کوئی شدید بیماری نہ ہو تو ہر مہینے بچہ کا وزن بڑھتا جاتا ہے۔ جو بچہ اچھی طرح بڑھ رہا ہو وہ صحت مند ہوتا ہے۔ جس بچے کا اوروں کے مقابلے میں وزن آہستہ آہستہ بڑھے یا وزن بڑھنا رک جائے یا وزن کم ہوتا جائے وہ تندرست نہیں ہوتا، ہوسکتا ہے کہ وہ کافی غذانہ کھارہا ہو یا اسے کوئی شدید قسم کی بیماری ہو یا وہ دونوں باتوں کا شکار ہو۔
بچہ تندرست ہے یا نہیں اور اسے کافی صحت بخش غذا مل رہی ہے کہ نہیں؟ یہ جاننے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہر مہینے اس کا وزن کیا جائے اور دیکھا جائے۔ اگر بچے کے وزن کا صحت کے چارٹ پر باضابطہ ریکارڈ رکھا جائے تو پتا چل سکتا ہے کہ اس کا وزن نارمل طریقے سے بڑھ رہا ہے کہ نہیں۔
اگر صحیح طرح سے استعمال ہو تو یہ چارٹ ماؤں کو بتا دے گا کہ کب بچے کی نشوونما نارمل نہیں ہے تاکہ وہ اس کے لیے وقت پر کوئی تدبیر کرسکیں۔ مثلاً: وہ بچے کو زیادہ خوراک دے سکتی ہیں اور اگر بیماری ہو تو اس کا علاج کرسکتی ہیں۔
اچھا یہ ہے کہ ماں پانچ برس سے کم عمر کے ہر بچے کے لیے ایک صحت کا چارٹ رکھے۔ اگر قریب ہی کوئی ہیلتھ سنٹر یا پانچ سال سے کم عمر بچوں کا شفا خانہ ہو تو ماں کو چاہیے کہ بچوں کو ہرمہینے وہاں لے جاکر ان کا وزن اور معائنہ کرائے۔ ڈاکٹر چارٹ اور اس کا استعمال سمجھا سکتا ہے۔
یاد رکھئے بچوں میں بیماری بہت جلد سنجیدہ رخ اختیار کرلیتی ہے جو بیماری بڑے آدمی کو شدید نقصان پہنچانے یا مارڈالنے میں کئی ہفتے لیتی ہے وہ چھوٹے بچے کو چند گھنٹوں میں ہلاک کرسکتی ہے۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ بیماریوں کی ابتدائی نشانیوں اور علامتوں پر نظر رکھی جائے اور ان کی طرف فوراً توجہ کی جائے۔
ناقص غذائیت کا شکار بچے
بہت سے بچے اس لیے ناقص غذائیت کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ان کو مناسب مقدار میں غذا نہیں ملتی ۔ اگر وہ زیادہ تر ایسی غذائیں کھاتے ہیں جن میں بہت سا پانی اور ریشہ ہوتا ہے، تو ان کو جسم کی ضرورت بھر توانائی والی غذا پہنچنے سے پہلے ان کا پیٹ بھر جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں کی غذا میں بعض اجزا مثلاً: وٹامن اے یا آیوڈین کی کمی ہوتی ہے۔ ناقص غذائیت سے بچوں میں کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ مثلاً:
— سست رفتار جسمانی بڑھوتری۔ — پھولا ہوا پیٹ
— دبلا لاغر جسم — بھوک نہ لگنا۔
— عام کمزوری۔ — پھیکی رنگت (خون کی کمی)
— مٹی کھانے کی خواہش (خون کی کمی) — باچھوں میں زخم
— زکام اور دوسرے انفیکشنز کا بار بار ہونا۔— رات کو نظر نہ آنا۔
یہ کیفیت جب خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے تو درج ذیل کیفیتیں نمودار ہوتی ہیں:
— وزن کم بڑھتا ہے یا نہیں بڑھتا۔ — پیروں کا سوجنا، (کبھی کبھی چہرہ پر سوجن بھی)
— سیاہ دھبے، نیل، یا کھلے زخم — سر کے بال کم ہونا یا گرجانا
— ہنسنے اور کھیلنے کی خواہش نہ ہونا — منہ کے اندر زخم
— نارمل ذہانت پیدا نہ ہونا — خشک چشمی
— اندھا پن
ناقص غذائیت کی شدید صورتیں ’’خشک ناقص غذائیت اور ’’تر ناقص غذائیت‘‘ ہیں۔ ناقص غذائیت کی علامتیں کسی شدید بیماری مثلاًاسہال (دستوں کی بیماری) یا خسرہ کے بعد ظاہر ہوتی ہیں۔ جو بچہ بیمار ہو یا بیماری کے بعد اچھا ہورہا ہو اسے تندرست بچے کے مقابلے میں عمدہ غذا کی کہیں زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
ناقص غذائیت کو روکنے اور اس کا علاج کرنے کے لیے بچے کو کافی غذا دیں اور دن میں کئی بار دیں۔ بچے کی اصل غذا میں زیادہ توانائی والی چیزیں مثلاً: پھلیاں، دالیں، پھل، سبزیاں اور ممکن ہو تو دودھ ، انڈے، مچھلی اور گوشت بھی شامل کردیں۔