بچوں کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت

تحریر: روتھ اسٹرانگ ترجمہ: مشرف انصاری

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ بچپن مزے اڑانے کا زمانہ ہوتا ہے۔ ایسا زمانہ جب تفکرات اور ذمہ داریوں سے یکسر نجات رہتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ بڑوں کی طرح بچوں کے بھی کچھ نہ کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ، جتنے والدین اور مدرسین تصور کرتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ ہر دن بلکہ ہر لمحہ شیر خواروں، نوعمروں اور نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے لیے نئی نئی دشواریاں لے کر آتا ہے۔

بیشتر مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ بچے کی عمر کے ساتھ ساتھ از خود حل ہوتے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دو سال کا بچہ ضد کرتا ہے کہ وہ اپنا جوتا خود پہنے گا، والدین چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اسے جوتا پہنائیں، پانچ سال کی عمر میں یہ مسئلہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔ گھر،اسکول اور معاشرے کے ماحول اور تقاضوں کے پیشِ نظر اور بھی بہت سے پیچیدہ مسائل ہوتے ہیں۔ مثلاً نو سال کے بچے کی یہ کش مکش کہ وہ ہر بات سچ سچ کیوں کہہ دے؟ نسبتاً بڑی لڑکیاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ تفریحی پروگرام بنانے اور لڑکے کھیلوں میں امتیاز حاصل کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ہائی اسکول کا ایک طالب علم مضامین کے انتخاب میں الجھن محسوس کرتا ہے اور کالج میں پڑھنے والے نوجوان کو گھریلو ذمہ داریوں کا بار اپنے کاندھوں پر آنے سے پہلے کم از کم روزگار حاصل کرنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ غرض یہ اور اسی طرح کے بے شمار مسائل ہیں جن میں بچوں کو ہماری مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

تجربہ و سلیقہ

بچے بالعموم روز مرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے کام انجام دینے میں اس وقت تک دشواری محسوس کرتے ہیں جب تک مشق و تجربے کی بدولت وہ خود انہیں کرنے کے لائق نہیں ہوجاتے۔ ایک نوعمر بچہ پیالے سے دودھ پیتے وقت، جھولے میں پینگ لیتے وقت، منہ دھوتے وقت اور دستر خوان پر نئے نئے کھانے کھاتے وقت غرض کہ ہر موقعے پر ایک نئی مشکل سے دوچار ہوتا ہے۔ اور چونکہ اسے اتنا تجربہ نہیں ہوتا کہ ان کاموں کو معمول کے کام سمجھ کر بلا تامل کرنے لگے۔ اس لیے ہر موقعے پر پہلے وہ کچھ سٹپٹاتا ہے اور پھر اسے حل کرنے کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لیتا ہے۔

لیکن جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے اور اس طرح کے کاموں سے اسے بار بار سابقہ پڑتا ہے وہ انہیں کرنے کا عادی ہوتا جاتا ہے۔ کھانے کے وقت وہ بے تکلفی سے اپنا پیالہ اٹھا کر دودھ پی جاتا ہے اور عادت کی بناء پر اب اس کی توجہ اپنے اس فعل کے بجائے کبھی ایک دوست کے بیان کیے ہوئے لطیفے کی طرف ہوتی ہے، کبھی اسکول کے کسی اور دلچسپ واقعے کی طرف، اسی طرح اپنا جوتا اور موزہ پہننے اور دستر خوان پر کھانا کھانے کا وہ اس لیے عادی ہوجاتا ہے کہ روزانہ اسے ان کاموں سے واسطہ پڑتا ہے۔

جب وہ اور بڑا ہوتا ہے تو نئے مسائل کا مقابلہ کرتے وقت ان سے ملتے جلتے مسائل کا سابقہ تجربہ اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انجم کو وقت سے سونے، پڑھنے اور کھیلنے کودنے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ کچھ دن دیوانوں کی طرح کھیلنے اور تفریحی پروگراموں میں شرکت کرنے کے بعد بیمار پڑتا ہے ساتھ ہی پڑھنے پر توجہ نہ کرنے کے سبب اسکول کے سہ ماہی امتحان میں فیل ہوجاتا ہے۔ اب اسے احساس ہوتا ہے کہ دن کے محض چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں، جن میں نو گھنٹے تو بہر صورت سونا اور آرام کرنا ہے۔ پھر اگر پاس ہونا ہے تو اسکول کے اوقات کے بعد چند گھنٹے روزانہ پڑھنا بھی ضروری ہے۔ اس خیال سے وہ از خود بے جا مصروفیات سے کتراتا اور صرف ایک شغل اختیار کرنے پر اکتفا کرلیتا ہے۔

ہمارا فرض

والدین اور استاد کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ نہیں ہے کہ ہم بچوں کو مسائل سے دوچار ہونے ہی نہ دیں یا ان کے مسائل خود حل کردیں۔ شخصیت کا بیشتر انحصار مشکلات کو سر کرنے اور ان پر غالب آنے پر ہوتا ہے۔ جب انسان ایک کام میں ہاتھ ڈالتا ہے اور ایک خاص مرحلے پر اس کی ترقی رک جاتی ہے اور حصولِ مقصد میں دشواریاں نظر آنے لگتی ہیں۔ ساتھ ہی کوئی ایسا سابقہ تجربہ بھی نہیں ہوتا جو اس مشکل میں کام آئے۔ تب انسان اپنی فراست اور ذہنی اپچ سے کام لیتا ہے۔ بچوں کے معاملے میں یہ بات اور زیادہ صحیح ثابت ہوتی ہے۔ مشکلات سے مقابلے کی عادت ڈال کر بچوں اور نوجوان لڑکے، لڑکیوں میں نئے حالات اور مسائل سے ساز گاری حاصل کرنے کی اہلیت اور سوجھ بوجھ پیدا ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ ان کے پاس اپنے ردعمل اور تاثرات کا ایک خاصا ذخیرہ ہوجاتا ہے۔ مشکلات میں خود کوئی فیصلہ کرکے اور معاملات کو سلجھا کر بچوں میں خودداری اور خود اعتمادی کا احساس ترقی پکڑتا ہے۔ اپنے زیادہ سے زیادہ مسائل کا مقابلہ کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے میں بچوں کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے۔ ان مراحل میں بالعموم اسے اپنے بزرگوں کی رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس رہنمائی کے اقسام اور حدود مختلف مواقع پر مختلف ہوسکتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کا فرض یہ ہے کہ وہ مختلف عمر کے بچوں کی ماد اس طرح کریں کہ ان کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما میں رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ بچوں کی عمر کے مختلف مدارج میں اس امداد کے طور طریقے میں ردوبدل کی گنجائش رہتی ہے۔

شیر خوارگی کے مسائل

ایک شیر خوار بچے کے تقریباً سارے مسائل ایسے ہوتے ہیں جنھیں والدین ہی کو حل کرنا پڑتا ہے۔ بچہ خود کلیتاً دوسروں کا محتاج اور بے بس ہوتا ہے اور اس میں دوسروں کی امداد کے بغیر اپنی ضروریات کو پورا کرنے یا دشواریوں کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، لیکن ماں باپ بڑی خوش اسلوبی سے یہ صلاحیت بچے میں پیدا کرسکتے ہیں تاکہ وہ آئندہ مشکلات پر قابو پاسکیں۔ ایک شیر خوار بچے کی اہم ضرورت ہوتی ہے ’’اطمینان‘‘۔ جسمانی اطمینان جو مناسب غذا، گرمی، حرارت اور محفوظ جائے آرام سے ملتا ہے اور جذباتی اطمینان جو محبت و شفقت، توجہ اور دیکھ بھال سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی چیز بچے کو نہیں ملتی ہے تو وہ اپنی تکلیف کا اظہار بے قراری یا اکڑنے، منہ بسورنے اور رونے سے کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بچے کے سکون اور طمانیت کے جسمانی اور جذباتی، دونوں اجزاء میں بہت ہی قریبی تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کو دودھ پلاتے وقت انہیں پکڑے رہتے ہیں تاکہ آسانی کے ساتھ پیٹ بھر کر دودھ پی سکیں اور اسپتالوں یاس اس طرح کے دوسرے اداروں میں چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایک بار ڈاکٹر بچے کو لپٹانے چمٹانے اور پیا رکرنے کو ضروری قرار دیتا ہے۔ بچپن کے اس جسمانی و جذباتی اطمینان کی اہمیت پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے۔ چونکہ بچہ اپنی نشو و نما کے زمانے میں سنِ بلوغ کو پہنچ کر حتی کہ جوان ہوکر بھی اپنے مسائل کو خوش اسلوبی کے ساتھ اس وقت تک حل نہیں کرسکتا جب تک یہ احساس نہ ہو کہ اسے بنیادی طور پر اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اسکول سے پہلے کے مسائل

جب بچہ گود اور گہوارے کی منزل سے گزر کر کچھ بڑاہوتا ہے تو حقیقتاً اس وقت سے اسے اپنے ذاتی مسائل کا شعور پیدا ہوتا ہے اس دور میں اسے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ مثلاً چلنا، دوڑنا، زینے پر چڑھنا اور پھر نیچے اترنا۔ کچھ عادتیں ڈالنی پڑتی ہیں جیسے منہ دھونا، کھانا پینا، سونا وغیرہ۔ اور پھر اس سے بھی زیادہ اسے نئے معاشرتی تقاضـوں سے مطابقت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ اس مرحلے پر بچے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے اور خود اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ مل جل کر رہنے سہنے کے آداب سیکھے۔ کبھی اسے یہ سیکھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ اسے ماں باپ جیسی شفقت اور توجہ سے کام لینا ہے۔ ان تمام کاموں کے انجام دینے میں بچے کو نہ صرف والدین بلکہ اس سے بھی زیادہ نرسری اسکول اور کنڈر گارٹن اسکول کے اساتذہ کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ابتدائی اسکول کے بچے کے مسائل

سن بلوغ سے قبل کے چند سال ایسے ہوتے ہیں جن میں بچوں کو بہت سی مشکلات کا تجربہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے بڑوں پر مکمل بھروسہ نہ کرتے ہوئے انھیں اپنی دشواریوں سے آگاہ نہیں کرتے۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں اپنی دشواری کا صحیح علم نہیں ہوتا۔ وہ محض ایک خلفشار اور بے اطمینانی سی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شفیق بزرگ پوری ہمدردی کے ساتھ ان کے دل ٹٹولنے کی کوشش کرے تو وہ اپنی عام بے قراری کے اسباب بتا کر مشکلات کی نشاندہی کرسکتے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ ابتدائی اسکول کے بچوں کی توجہ بالعموم اپنی صحت، دوستی، اسکول میں ڈھنگ سے پڑھنے لکھنے اور گھر والوں کے ساتھ اچھی طرح نباہنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ثریا متمنی ہے کہ بڑی لڑکیوں کی طرح اس کے بھی مہاسے نکلیں اور پروین اس الجھن میں مبتلا ہے کہ وقت بے وقت دانتوں سے ناخن کاٹنے کی بری عادت اس نے کیوں ڈال لی؟ جاوید اس لیے برہم ہے کہ اس کا چھوٹا بھائی عشرت خالی ماچس کی ڈبیوں سے بنائی ہوئی اس کی ریل گاڑی کو توڑ ڈالتا ہے۔ شعیب کی خواہش ہے کہ وہ اونچی اور لمبی چھلانگ لگانے میں سب ساتھیوں سے بہتر رہے۔ عذرا کو اس بات کا غم ہے کہ وہ زیادہ خوبصورت نہیں ہے۔

چھوٹی عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں میں بعض مسائل مشترک پائے جاتے ہیں۔ مڈل اسکول کے بچوں کے مسائل کے ایک جائزے سے اندازہ ہوا کہ آٹھویں جماعت کے بچوں کے مقابلے میں چوتھی جماعت کے زیادہ بچے اندھیرے سے ڈرتے اور رات کے وقت گھر پر تنہا ہونے کی صورت میں خوفزدہ ہوتے ہیں۔ چوتھی جماعت کے بچوں کے مقابلے میں شاذونادر آٹھویں جماعت کے ایسے بچے ہوتے ہیں جنہیں دوسرے بچوں کو اپنا دوست بنانے میں ناکامی کامنہ دیکھنا پڑے۔ غرض چوتھی سے آٹھویں جماعت تک کے قریب قریب بہت سے بچے آزما کر اور غلطیاں کرکے، مثالوں کے ذریعہ یا بڑوں کی ہدایات پر عمل کرکے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ تاکہ وہ اپنے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے اہل بن سکیں۔ اس عمر میں دوسرے مسائل بھی غیر شعوری طور پر اپنے قدم جمانا شروع کردیتے ہیں، مگر ان کی آمد کا صحیح زمانہ سنِ بلوغ ہوتا ہے۔

بالغوں کے مسائل

آغازِ شباب میں متعدد اور مختلف النوع مسائل ہوتے ہیں اور ہوتے بھی پریشان کن ہیں۔ بڑا ہونا بذاتِ خود ایک مسئلہ ہے۔ مستزاد یہ کہ زندگی کے اس دور میں ایک طرف تو بچوں کے دلوں میں اپنے بزرگوں کے اثر و تسلط کے خلاف بغاوت روزافزوں ہوتی ہے، دوسری طرف وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بزرگوں کی حمایت اور تائید کی ضرورت ہے۔ کچھ بالغ بچے ضرورت سے زیادے حساس اور چڑچڑے ہوتے ہیں، کچھ بہت زیادہ خیالی پلاؤ پکانے کے عادی ہوتے ہیں۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان ہوتے ہیں۔ بعض پر ہر وقت سستی اور کاہلی چھائی رہتی ہے۔ بہت سے اپنے جسمانی تغیرات کو اول تو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور اگر سمجھ بھی جاتے ہیں تو اس نئی کیفیت کے عادی ہونے میں انہیں بڑی دشواریاں ہوتی ہیں۔

چودہ پندرہ سال کے بچے کے لیے یہ بات مزید پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے تعلقات گھر والوں، دوستوں اور دوسرے لوگوں سے تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ وہ بعض معاملات میں کنبے کے دوسرے افراد سے کھلم کھلا اختلاف رائے کرتا ہے۔ پیشے کے مسائل کی طرف وہ بہت زیادہ توجہ کرنے لگتا ہے او ریہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی صلاحیت کے مطابق موزوں پیشے کا انتخاب کیوں کر کرے۔ اس سلسلے میں ملازمت کے امکانات کو تو بہر صورت اسے اپنے مستقبل کے خاکے میں جگہ دینی پڑتی ہے۔کچھ بالغ بچے اس لیے پریشان رہتے ہیں کہ انہیں صحیح طریقے سے مطالعہ کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ چند ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی صحت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کچھ اس آرزو میں رہتے ہیں کہ کاش انہیں لچھے دار باتیں کرنے کا سلیقہ آجاتا۔

صحیح قسم کی مدد بڑی اہمیت رکھتی ہے

بچے اپنے مسائل حل کرتے وقت اکثر صحیح آغاز سے ناواقف ہوتے ہیں۔ آغاز کے بعد کی منزل میں جب انہیں کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے، کوئی پسندیدہ چیز حاصل کرنے میں دقت ہوتی ہے یا کسی پیش آنے والے خطرے سے وہ بوکھلا جاتے ہیں، مثلاً دسویں جماعت میں نئے نئے داخل ہونے والے طالب علم کے لیے الجبرا کا آزمائشی امتحان عنقریب پیش آنے والا خطرہ بن سکتا ہے۔ ایسی صورت میں مسئلے کی پیچیدگی سے گھبرا اٹھنے یا دل شکستہ ہوجانے کاخاصا امکان ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ کسی مسئلے کو حل کرتے وقت کئی حقائق پر نظر رکھنی پڑتی ہے یا کتنے ہی لوگ اس کی لپیٹ میں آتے ہیں اور بالعموم ایک مسئلے کی شاخیں دو یا تین دوسرے مسائل میں جا پھوٹتی ہیں۔

جب صورتِ حال یہ ہو تو وہ غریب کیوں کر سمجھ سکتے ہیں کہ کہاں سے ابتدا کی جائے؟ تمام بچے، ننھے منوں سے لے کر بالغ تک — جو ایک طرح کی آزادی کی مسلسل جدوجہد کرتے رہتے ہیں، اپنے بیشتر مسائل میں بزرگوں کی شفقت واعانت کے طالب ہوتے ہیں۔

بچوں کو جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بلاشبہ اہم ہوتی ہیں۔ ان میں سے چند جن کا تعلق بچے کی محض جسمانی نشو ونما سے ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود حل ہوجاتی ہیں۔ لیکن بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر انہیں باقاعدہ سوچنا اور فیصلہ کرنا پڑتا ہے اور پھر اس فیصلے کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے۔

بچوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کی ضرورت دو وجہوں سے پیش آتی ہے۔ ایک یہ کہ اس سے انہیں فوری طور پر طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔ دوسرے اس لیے کہ اس کے بغیر ان کی وہ متوازن نشو ونما اور فروغ رک جاتا ہے جو بالآخر انہیں ایک ایسی پٹری بناتا ہے جسے ایک طرف تو معاشرے سے مکمل ہم آہنگی حاصل ہوتی ہے، دوسری طرف وہ کم سے کم کشاکش اور الجھن کا شکار ہوتا ہے۔ حتی الامکان بچوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے چاہئیں لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کام میں کامیابی ان کے قدم چومے، انہیں آئندہ مسائل پر قابو پانے کا گُر معلوم ہوجائے تو والدین اور معلمین کا فرض ہے کہ بچوں کو صحیح وقت پر صحیح قسم کی امداد پہنچائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں