بچوں کا بحث کرنا
بچے عموماً اپنا نقطۂ نظر اور رائے دوسرے بچوں پہ ٹھونسنا او رمنوانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جیسے وہ کہیں دوسرے فوراً مان جائیں کیونکہ دنیا ان کی رائے کے مطابق ہی چل رہی ہے۔ جب بچوں کے دو فریق کسی موضوع پر بحث کررہے ہوں یا تلخی بڑھ رہی ہو تو کبھی غصے سے مت ڈانٹئے بلکہ دونوں کا نقطہ نظر سن کر انھیں صحیح نقطۂ نظر کی طرف راہنمائی دیجیے اور انھیں صبر اور تحمل کی اہمیت بتائیے۔
اکثر اوقات والدین کے کچھ کہنے یا حکم پر بچے بحث شروع کردیتے ہیں ’’یاکو‘‘ سے کیوں‘‘ پوچھتے ہیں تو بجائے آپ یہ کہیں کہ کرو کیونکہ میں کہہ رہی ہوں، اس کام یا مسئلہ کی بنیادی نوعیت اور وجہ سے آگاہ کریں۔ جس سے نہ صرف بچے کے ذہن کے خدشات کم ہوں گے، بلکہ اس کے مستقبل کی سوچوں کو ایک مثبت رستہ بھی مل جائے گا۔
تعمیری مشاغل
بچے کسی نہ کسی طرح سے اپنی ذات کا اظہار چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ مختلف قسم کے چھوٹے موٹے مشاغل اپناتے ہیں۔ کھلونے،میوزک، کھیل یا تعلیمی معمے وغیرہ۔ اپنے مخصوص قسم کے نظریات ان بچوں پر ہرگز نہ ٹھونسیں بلکہ انھیں اپنی ذات کے فطری اظہار کے مواقع فراہم کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ان میں اعتماد پیدا ہوسکے۔
بچوں کی لڑائیاں
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے تو لڑبھڑ کر پھر ہنسی خوشی کھیلنے لگتے ہیں، لیکن کم فہم والدین اپنے طور پر یہ معاملہ الجھا بیٹھتے ہیں اور نوبت گالم گلوچ سے دھینگا مشتی تک جا پہنچتی ہے، یوں چھوٹوں کے ساتھ بڑے بھی بچے بن جاتے ہیں۔ بچوں کی خوشی کی طرح ان کی ناراضگی اور غصہ بھی کم عرصے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ وہ کوئی مسئلہ بھی طویل نہیں کھینچتے بلکہ پل میں تولہ پل میں ماشہ کے مصداق اپنا رویہ مسلسل تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
بچوں کی لڑائی میں الجھنے کی عقلمندی، مت کیجیے۔ بچے تو مار پیٹ کے پھر ویسے ہی ہوجائیں گے۔ البتہ آپ کو اپنی لڑائی کے نتائج ایک عرصہ تک بھگتنا پڑیں گے۔
اگر آپ کو اپنے بچے کی زیادتی محسوس ہوتی ہو تو اسے آرام، نرمی اور پیار سے سمجھائیے۔ اس کی غلطی واضح کیجیے اور اخلاقی لحاظ سے اس کے عمل کی خامیاں واضح کیجیے۔ یاد رکھئے غصے او رمار دھاڑ کے نتائج زیادہ عرصے کے لیے ہوتے ہیں جب کہ پیارسے سمجھانے کے نتائج فوری مگر کم عرصہ کے لیے ہوتے ہیں۔ اگرآپ کا بچہ پٹ رہا ہو تو بھی اسے نرمی سے سمجھائیے۔ بچوں کی کھانے پینے کی عادت سے بھی اس ضمن میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اگر اس سے بھی کوئی فائدہ نہ ہورہا ہو تو بچے کو غلط قسم کے بچوں میں کھیلنے سے روکئے۔ ان کی سرزنش کیجیے اور اچھے دوستوں کی تلاش میں اس کی مدد کیجیے۔ ہوسکے تو دوسرے بچے کے والد کو اعتماد میں لے کر دوستانہ فضا میں اس سے مسئلہ پر بات کرلیجیے۔
خواب کی نفسیات
روز مرہ زندگی میں ہمارے ذہن میں ہزاروں چھوٹی بڑی نیک و بد، جائز و ناجائز خواہشیں ابھرتی رہتی ہیں۔ مذہبی، تمدنی اور معاشرتی قدروں کے علاوہ سیکڑوں دوسری رکاوٹیں ان خواہشوں کے پورا ہونے میں حائل ہوتی رہتی ہیں، سوتے وقت چونکہ ان رکاوٹوں کی مزاحمت کا احساس بھی اپنی شدت کھودیتا ہے، اس لیے ہمارے لاشعور میں دبی ہوئی آرزوئیں اور ولولے موقع پا کر خواب کی صورت میں نمودار ہونے لگتے ہیں۔ فرائیڈ کے نزدیک نیند میں لاشعور کی دبی ہوئی انہی خواہشو ں کے ڈرامائی اظہار کا نام خواب ہے۔
بچوں کے خواب
بڑوں کی نسبت بچوں کے خواب زیادہ آسانی سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔ بچوں کے خواب بہت مختصر اور واضح ہوتے ہیں۔ ان میں بہت کم مبالغہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بالغوں کے خوابوں میں ضبط، امتناع اور اشاریت کے عناصر کی موجودگی پیچیدگی پیدا کردیتی ہے۔ اس لیے بڑوں کے خوابوں کو سمجھنا قدرے مشکل اور محنت طلب کام ہے مگر بچوں کے خوابوں میں پیچیدہ عناصر سرے سے غائب ہوتے ہیں یا پھر بہت سیدھی سادھی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ خصوصاً پانچ برس تک کے عمر کے بچوں کے خواب تو بہت آسان فہم ہوتے ہیں اور ان میں بالغوں کے خوابوں والی پیچیدگیاں تقریباً غائب ہوتی ہیں۔ مگر بڑے بچوں کے خواب تنسیخ، غلط بیانی اور توڑ مروڑ کے لاشعوری افعال کی آمیزش سے پاک نہیں ہوتے۔ چنانچہ پانچ اور آٹھ برس کی درمیانی عمر میں تو بسا اوقات بچے ایسے ایسے خواب دیکھنا شروع کردیتے ہیں جو اپنی بناوٹ اور مختلف غیر شعوری عملوں کے اعتبار سے بالغ زندگی کے پیچیدہ خوابوں سے ملتے جلتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کے خواب سمجھنے کے لیے کسی قسم کے نفسیاتی تجزیہ کی خاص ضرورت نہیںپڑتی۔ تعبیر کے لیے کسی مخصوص طریقِ فن کو بھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ بالغوں کے خواب کے مطالعہ کے لیے خواب کے دیکھنے والوں سے خصوصی سوالوں کے ذریعے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ مگر بچوں کے خواب اس قدر آسان فہم ہوتے ہیں کہ ان سے فنی سوال پوچھنے کی نوبت عموماً نہیں آتی۔ بچوں کی روز مرہ زندگی کے واقعات اور ان کے ذہنی تاثرات سیدھے سادھے ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجہ کے طور پر ان کے خواب بھی سیدھے سادھے اور انہی معمولی واقعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ بچے اپنے خوابوں کو کچھ عرصہ تک تو خوب اچھی طرح یاد رکھتے ہیں۔ اس لیے ان سے ضروری واقفیت حاصل کرنے میں چنداں دقت پیش نہیں آتی۔ چونکہ بچوں کے خواب ان کی قریبی زندگی کے ذاتی واقعات اور گردوپیش ہی سے متعلق ہوتے ہیں، اس لیے انھیں سمجھنے کے لیے بچوں کی عام زندگی کے متعلق تھوڑی بہت ہی واقفیت کافی ہے۔ ایک بچہ تمام دن اپنی کھلونا بندوق سے کھیلتا رہتا ہے۔ رات کو اس نے خواب دیکھا کہ اس کی بندوق گم ہوگئی ہے اور وہ اسے ڈھونڈ رہا ہے۔ ایک اور بچے کی ماں نے چائے پیتے وقت اسے زیادہ مٹھائیاں کھانے سے روک دیا تھا۔ اس نے خواب دیکھا کہ وہ حلوائی کی دکان میں بیٹھا مٹھائیوں پر بہت بے تکلفی سے ہاتھ صاف کررہا ہے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں کے اکثر خواب دن کے بیتے ہوئے واقعات اور ذاتی تجربوں سے متعلق ان کے ذہنی ردِ عمل کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بچوں کے خوابوں کو قطعی بے معنی کہنا قرینِ مصلحت نہیں ہے۔
——