بچوں کو پالنے پوسنے اور ان کی خدمت کرنے کا علم بہت وسیع ہے۔ ایک ’’ماں‘‘ کو اس علم کے متعلق پوری پوری معلومات ہونی چاہئیں۔ تاکہ وہ اپنے بچوں کی پرورش صحیح طور پر کرسکے۔
آج کے بچے کل بڑے ہوکر قوم و ملت کے قابلِ فخر افراد بنیں گے۔ اگر بچوں کی پرورش اچھی طرح نہ ہوگی تو وہ کمزور، ڈرپوک، جاہل اور کم ہمت بن جائیں گے۔ جس سے ملت اور ملک کو سخت نقصان پہنچے گا۔
’’بچوں کی پرورش‘‘ اور صحیح پرورش و پرداخت کوئی کھیل نہیں ہے۔ بچے کو پیدائش کے فوراً بعد ہی سے سخت توجہ اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ شروع شروع میں ہر لمحہ اس کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن جوں جوں وہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کو زیادہ خدمت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ بہت سے کام خود کرنے لگتا ہے۔ہاں ماں باپ کو اس کے کاموں کی نگرانی ضرور کرنی پڑتی ہے۔ اچھی عادتیں ڈالنے کے لیے بات بات پر ہدایتیں دینی پڑتی ہیں۔
ایک اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بچے کی پرورش کا مسئلہ اس کی عمر کے ساتھ ساتھ مختلف ہوتا چلا جاتا ہے۔ بلکہ حالات و وسائل کے لحاظ سے بھی پرورش و پرداخت کے طور طریقے بدل جاتے ہیں۔ لیکن چند موٹی موٹی باتیں ایسی ہیں جن کی سب بچوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی سب بچوں کی پرورش میں ان باتوں کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے۔ وہ باتیں یہ ہیں: (۱) جسمانی صفائی(۲) لباس(۳) غذا(۴) نیند اور آرام(۵) کھلونے اور کھیل(۶) اچھی عادتیں
(۱) جسمانی صفائی
بچوں کو شروع ہی سے صفائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ وقت پر ہاتھ منہ دھلانا، غسل دینا اور پیشاب پاخانہ کرانا وغیرہ صفائی کی باتیں ہیں۔ بڑے بچوں کو تین چار سال کی عمر تک گرم پانی سے ہی نہلانا چاہیے۔غسل کے لیے کوئی اچھا صابون استعمال کریں اور خوب مل مل کر نہلائیں۔ غسل کے بعد صاف تولیہ سے جسم پونچھ کر فوراً کپڑے پہنادینے چاہئیں۔
شیر خوار بچوں کو پاخانہ پیشانہ کی غلاظت سے بچانے کے لیے ان کو ہر وقت جانگیہ یا لنگوٹ پہنانا چاہیے۔ جب یہ کپڑا گندہ ہوجائے تو فوراً بدل دینا ضروری ہے۔ گیلا کپڑا پہنائے رکھنا صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ بچہ بیٹھنے لگے تو اسے کھڈّی یا پاٹ پر بیٹھنے اور پاخانہ پیشانہ کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ مکان کی نالیوں پر یا ادھر ادھر اینٹیں رکھ کر پاخانہ پیشاب کرانا بہت بری بات ہے۔ یاد رکھیں کہ ابتدا ہی سے بچہ میں یہ عادت ڈالنا ضروری ہے کہ وہ مقررہ اوقات پر پاخانہ پیشاب کرے۔ منہ ہاتھ دھوئے اور غسل کرے۔
(۲) لباس
بچے کے کپڑے سادہ اور ڈھیلے ہوں تاکہ ان کو اتارنے اور پہنانے میں آسانی رہے۔ گرمیوں کے کپڑے ہلکے ہوں اور سردیوں میں اونی کپڑے پہنائے جائیں یاد رکھیں۔ بہت زیادہ کپڑے پہنانے کی بجائے کم لیکن آرام دہ کپڑے پہنانا اچھا ہے۔ سردیوں میں بچے کا سر اور اس کے پیر خاص طور ڈھکے رہنے چاہئیں۔
(۳) غذا
غذا کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ غذا کے نامناسب استعمال سے بچہ کی صحت پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں اور ان کے نتائج نہایت خطرناک ہوسکتے ہیں۔
بچوں کو وقت پر غذا دینی چاہیے۔ بعض مائیں بچوں کو ہر وقت کھلاتی پلاتی رہتی ہیں۔ جہاں بچہ رویا فوراً اسے دودھ دے دیا یا روٹی یا بسکٹ کا ٹکڑا پکڑا دیا۔ یہ بہت بری عادت ہے۔ بچہ بھوک کے علاوہ اور کسی سبب سے بھی روسکتا ہے۔ بچے کے رونے کا سبب معلوم کرکے اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بچے اگر خود کھانا چاہیں، تو ان کو اپنے ہاتھ سے کھانے دیجیے۔ بچوں کو نوکروں کی نگرانی میں چھوڑنا، اچھا نہیں ہے۔ اس طرح وہ بد سلیقہ ہوجائیں گے۔ اسی طرح بچوں کو یہ عادت بھی نہیں ڈالنی چاہیے کہ وہ کھانے کی چیزیں مانگ کر کھائیں۔
شیر خوار بچوں کی غذا ماں کا دودھ ہے۔ جو مقررہ اوقات پر صفائی اور نفاست سے بچہ کو پلانا چاہیے۔ ماں کا دودھ نہ ہو تو اوپر کا دودھ پلایا جاسکتا ہے۔
اوپر کا دودھ یا تو گائے کا تازہ دودھ ہو جسے ابال دیا گیا ہو یا پھر سر بند ڈبوں کا جمایا ہوا سفوف بنا ہوا دودھ ہو۔ خشک دودھ کے دینے میں ان ہدایتوں پر عمل کرنا چاہیے جو دودھ کے ڈبے پر لکھی ہوتی ہیں۔
شیر خوار بچوں کے دانت نکلنے کا زمانہ بڑا نازک ہوتا ہے۔ اس زمانے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ عموماً بچے دانت نکلنے کے دنوں میںاپنے کانوں کو کھینچتے ہیں جس سے سمجھ لینا چاہیے کہ بچے کے دانت نکل رہے ہیں۔ اس زمانے میں بچے کو سخت غذا نہ دینی چاہیے۔ بلکہ دودھ، پھلوں کا رس، سوجی کا حلوہ، پتلی کھچڑی، ساگودانہ، بسکٹ وغیرہ دینے چاہئیں۔
(۴) آرام اور نیند
بچوں کی جسمانی نشو و نما کے لیے آرام اور نیند بھی ضروری ہے۔ ننھا سا بچہ تقریباً دن رات سوتا رہتا ہے۔ ہاں دودھ پینے کے لیے وہ ضرور اٹھتا ہے۔ ذرا بڑی عمر کے بچے ۱۵ گھنٹے سے ۱۸ گھنٹے تک سوتے رہتے ہیں۔ بچہ جب سونا چاہے تو اس کو فوراً سلا دینا چاہیے۔ اس کی پلنگڑی ایسی جگہ بچھانی چاہیے، جہاں دھوپ نہ آئے اور تازہ ہوا ملتی رہے۔ مکھیوں اور مچھروں سے بچانے کے لیے مچھر دانی لگادینی چاہیے۔ بچوں کو ڈرا دھمکا کر سلانے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔ نہ اسے تھپک کر یا لوری دے کرسلائیں۔ بچے کو گود میں سلانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مقررہ وقت پر بستر پر لٹا دیں اور کہیں کہ سوجائے۔
(۵) کھلونے اور کھیل
بچے کی تعلیم و تربیت اور ذہنی نشو ونما کھیل اور کھلونوں پر بہت کچھ منحصر ہوتی ہے۔ بچہ کھلونوں سے بہت سی باتیں سیکھتا ہے۔ اور نئے تجربے حاصل کرتا ہے۔ وہ کھلونوں کو چھوتا ہے، ان کو پھینکتا ہے، ان کو بجاتا ہے، توڑتا پھوڑتا ہے اور اس طرح نئی نئی باتیں سیکھتا ہے۔
چھوٹی عمر کے بچوں کے کھلونے بڑے، ٹھوس اور مضبوط ہونے چاہئیں تاکہ آسانی سے ٹوٹ نہ سکیں۔ بچہ جو بھی کھیل کھیلے، آپ اس بات کا خیال رکھیں کہ کھیل ایسا نہ ہو جس سے اس کے اخلاق پر بڑا اثر پڑے۔ پھر اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسا کھیل بھی نہ ہو کہ جس سے اس کی صحت پر برا اثر پڑے۔ کھیل میں کوئی چیز منہ میں لینا، گندی چیزوں سے کھیلنا، سردی کے موسم میں مٹی اور پانی سے کھیلنا، آگ اور چاقو وغیرہ کو ہاتھ لگانا، تالاب یا دریا کے قریب جانا وغیرہ کھیلوں سے بچے کو روکنا چاہیے۔
(۶) عادتیں
بچوں میں اچھی عادتیں ڈالنا نہایت ضروری ہے۔ جب تک ابتدا ہی سے اس طرف پوری توجہ نہ دی جائے گی۔ بچے اچھی عادتیں ہرگز نہ سیکھ سکیں گے۔ اچھی عادتوں میں (۱) جسمانی صفائی (۲) لباس کی صفائی (۳) مقررہ اوقات پر غذا (۴) وقت پر اور مناسب جگہ پر پیشاب پاخانہ کرانا (۵) چیزوں کو باقاعدگی سے اٹھانا اور رکھنا (۶) اچھی باتیں سیکھنا اور بری باتوں سے بچنا (۷) مقررہ وقت پر سونا اور آرام کرنا وغیرہ باتیں شامل ہیں۔
اسی طرح غلط باتوں اور برے کاموں پر انہیں ٹوکنا اور یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ کام برے ہیں اور ان سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے۔ بعض نامعقول لوگ چھوٹے بچوں سے گالیاں دلواتے ہیں۔ دوسروں کا منھ چڑھانے کی ترغیب دیتے اور غلط ناموں سے بلانے کو کہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ساتھ رہنے والوں پر اور ان کی بات چیت پر ہی نظر رکھی جائے اور اگر خدانہ خواستہ بچہ کوئی غلط لفظ سیکھ لے تو اسے فوراً چھوڑدینے کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ ہو اچھی اور بری بات میں تمیز کرسکے۔