بچوں کا دل و دماغ، ذہن اور کردار اپنے والدین، اساتذہ، دوستوں، پڑوسیوں اور ماحول سے تاثر قبول کر کے انھی کے انداز میں ڈھل جاتا ہے۔ شعور کی آنکھیں کھول کر بڑے ہونے تک بچے جن لوگوں کو اپنے آس پاس دیکھتے ہیں وہ اگر محنتی، ایمان دار، وقت کے پابند، خدا سے ڈرنے والے اور شگفتہ اور مہذب ہوں تو بچوں کے ڈھلتے ہوئے کردا رپر بھی انہی کا اثر پڑے گا۔ خصوصا شروع کے دس برس تو بچوں کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم ہیںاس لیے ان سے اسی انداز میں بات کیجیے جو انھیں سکھانا مطلوب ہو۔ بچوں سے ڈانٹ پھٹکار اور مار پیٹ کے ذریعے کام لینا ہرگز درست نہیں کیوں کہ اس طرح وہ اپنی ذات پر اعتماد ہی نہیں کھو بیٹھتے بلکہ غیر شعوری طور پر یہ ناپسندیدہ عادات اپنا بھی لیتے ہیں۔ ان کا ذہن تو دھلی ہوئی تختی کی طرح ہے جو نمونہ ان کی سامنے پیش کیا جائے گا، وہ بھی اسی کی نقل کریں گے۔
اس امر کا اہتمام ہم سب کا فرض ہے کہ ہمارے بچوں کو ایسا ماحول ملے جس سے ان میں وہ خصوصیات پیدا ہوں جو دین و دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہیں اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ سارے ماحول کو بدلنا کوئی آسان بات نہیں لیکن بقول شاعر، قطرہ قطرہ ہمی شود دریا۔‘‘
میں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں جو کتابیں پڑھیں اور جو عملی تجربات حاصل کیے، ان میں سے درج ذیل باتیں والدین کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہیں اندازہ ہے کہ یہ ان کے لیے رہ نما ثابت ہوسکتی ہیں۔
محنت کی عادت
زندگی میں کامیابی کے لیے ذہانت سے بھی زیادہ محنت کام کرتی ہے۔ اگر خدا داد ذہانت کو محنت کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو خود ذہانت کو زنگ لگ جاتا ہے۔
بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے جائیں، انھیں اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ ایک دو سال کا بچہ بھی یہ کر سکتا ہے کہ جب آپ اس کا لباس تبدیل کریں تو وہ میلے کپڑے ان کی جگہ لے جاکر ڈال دے۔ کھیلنے کے بعد کھلونے واپس ان کی جگہ پر رکھنے کی عادت بھی خوش گوار انداز میں شروع ہی سے ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ بچے سے کہہ سکتے ہیں ’’بیٹے! آپ نے لیگو (Leggo) سے کھیل ختم کرلیا، چلیں اب انھیں ان کے گھر میں پہنچا دیں، بے چارے وہ بھی تو تھک گئے ہوں گے۔‘‘
اس طرح بچہ اسے بھی کھیل ہی جان کر خوشی خوشی کھلونے واپس ان کی جگہ رکھنے پر آمادہ ہوجائے گا اور آہستہ آہستہ یہ اس کی عادت ثانیہ بن جائے گی۔
پانچ، چھ سال کے بچے اکثر اپنی کتابوں کا شیلف یا جوتوں کا خانہ خود صاف کر کے سجا لیتے ہیں۔ چھ سات سال کے بچوں سے کھانے کی میز پر برتن لگانے میں مدد لی جاسکتی ہے اور آٹھ نو سال کے بچے اپنا بستر خود بنا سکتے ہیں۔
احساسِ ذمے داری
بچوں کے ذمے گھر کا کوئی کام لگانا جو خاص انہی کی ذمے داری ہو، بہت اچھا رہتا ہے۔ مثلاً فرج کی بوتلوں یا گھڑے میں پانی بھر نا ایک بچے کی ڈیوٹی لگا دیجیے۔ اس طرح اسے گھریلو نظام میں اپنی اہمیت اور ذمے داری کا احساس ہوگا۔ آٹھ دس برس کے بچے بخوبی یہ کام کرسکتے ہیں۔ اسی طرح میز پر برتن لگانا یا پودوں کو پانی دینا بھی ان کے ذمے لگایا جاسکتا ہے۔ ذمے داری سپرد کرتے وقت بچے کو احساس دلا دیجیے کہ یہ اب اس کا روزانہ کا کام ہے اور وہ خود سے یاد دہانی کے بغیر اسے کیا کرے گا۔
کسی دن بچہ بھول جائے تو آہستہ سے یاد دلا دیں لیکن اس کا کام خود اسی کو کرنے دیجیے۔ فرض کیجیے جس بچی کی ذمے داری میز پر برتن لگانا ہے، وہ روز ہی بھول جاتی ہے اور اس کام کی یاد دہانی روز معمول بنتی جا رہی ہے تو آپ اس پر بروقت اپنا کام کرنے کی اہمیت اس طرح واضح کرسکتی ہیں کہ کھانا میز پر پہنچا کر سب گھر والوں کو بلا لیجیے اور کہہ دیجیے کھانا تیار ہے۔ اب ہوگا یہ کہ میز پر روٹی، سالن، چاول وغیرہ سب کچھ موجود ہے اور گھر والے بھی سارے آگئے ہیں لیکن کھائیں تو کس طرح کھائیں۔ کسی کے سامنے پلیٹ ہے نہ چمچ اور نہ گلاس۔ اب جس بچی کی یہ ذمے داری تھی وہ خود ہی شرمندہ ہوکر برتن لائے گی اور آئندہ بر وقت میز پر برتن لگانا اسے نہ بھولے گا۔
ہاں اگر بچہ ذمے داری ادا کرنے میں لگاتار کوتاہی کرے تو اس کی وجہ پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس پر اس کی عمر سے زیادہ مشکلیں اور کئی ذمے داریاں ڈال دی گئی ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو کوئی دوسرا آسان کام اسے دے دیں۔ بہرحال کچھ نہ کچھ کام تو بچے کو ضرور کرنا چاہیے، جو کام اس کی استطاعت میں ہوگا، اسے وہ یقینا سر انجام دے گا۔
وقت کی پابندی
وقت کی اہمیت پر مختلف زبانوں میں ڈھیروں کہاوتیں، محاورے اور مقولے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر سے امیر اور غریب سے غریب انسان کے پاس جو سب سے قیمتی سرمایہ ہے وہ ہے وقت۔ آج کا دن ہے۔ کل وہ گزرا ہو کل ہوجائے گا اور یہ سال اگلے سال گزرا ہوا سال بن کے رہ جائے گا۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں ہمارے بچوں کو آئندہ زندگی میں پشیمان نہ ہونا پڑے تو ان میں وقت پر کام کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہیے۔ بعد میں ان کا پچھتانا کہ یہ کرلیتے، وہ کرلیتے، بے سود ہوگا۔ اس لیے وقت کی قدر ان کے دل میں شروع ہی سے بٹھانا ضروری ہے اور پابندیِ وقت کی سب سے اچھی تربیت باقاعدہ نماز پڑھنے سے ملتی ہے۔ اس لیے رسول اللہؐ نے ہر مسلمان کو تاکید کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سات برس کی عمر سے نماز پڑھنے کی تلقین کرے اور اس کے لیے خود نماز کی پابندی کرنا بے حد ضروری ہے۔lll