مسز الف کے یہاں نئے مہمان کی آمد ہونے والی تھی۔ پورا خاندان خوش تھا کیوں کہ لیڈی ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ سب کچھ نارمل ہے۔ اہل خانہ بھی مطمئن اور مسرور تھے کہ سب کچھ فطری انداز میں ہونے والا ہے۔ اسی امید کے ساتھ وہ متوقع ماں کو ڈاکٹر کے دیے گئے وقت کے مطابق ہسپتال لے گئے۔ لیڈی ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور انتظار کرنے کو کہہ دیا۔ درد بڑھنے لگا اور ڈاکٹر اسے لیبر روم میں لے گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر نکلی اور اہل خانہ سے ڈراونے انداز میں کہا کہ بچے اور ماں دونوں کی جان کو خطرہ ہے اور ہمیں فوراً آپریشن کرنا پڑے گا۔ اہل خانہ پریشان ہوگئے۔ بچے کے باپ نے کہا: مگر میڈم آپ نے تو سب کچھ نارمل بتایا تھا، ایسا اچانک کیا ہوگیا؟‘‘ بچے نے اندر پوٹی کر دی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔ وہ حیران و پریشان کیا کرتا۔ گھر کے سبھی لوگ بچے اور ماں کی جان بچانے کے لیے آپریشن کرنے کی اجازت دینے کے حق میں تھے مگر بچے کا باپ اس خطرناک موڑ پر بھی پریشان نہ ہوا اور ایک ہومیو دوا کھلانے کو دے دی۔ ڈاکٹر پہلے تو اس کے لیے تیار نہ تھی اور آپریشن کے لیے اصرار کر رہی تھی مگر بعد میں تیار ہوگئی۔ پھر کیا تھا پندرہ بیس منٹ بعد ہی بیٹی کی خوش خبری مل گئی۔
یہ مسٹر الف کا ہی معاملہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ صرف کسی خاص لیڈی ڈاکٹر یا ہسپتال کا معاملہ ہے۔ اس وقت ملک میں ہر جگہ نجی اسپتالوں کی یہی کہانی ہے کہ وہ عین وقت پر اہل خانہ کو ڈرا کر اس صورتِ حال میں بھی ’’ماؤ ںکے پیٹ‘‘ چیر دینے پر اتارو ہوتے ہیں، جہاں سب کچھ نارمل اور فطری ہونے کا پورا امکان ہوتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ نارمل ڈلیوری کی صورت میں ڈاکٹر اور ہسپتال کو ملنے والی رقم آپریشن کے ذریعے ڈلیوری کرانے کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ کون چاہے گا کہ پیسہ بنانے اور تجارت بڑھانے کے مواقع کو ہاتھ سے نکال دیا جائے۔ ان افراد اور اداروں کو ماں اور بچے کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپریشن کے ذریعے ڈلیوری کرانا خود ماں اور بچے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور اس کے ماں کی صحت پر زندگی بھر کے لیے مضراثرات مرتب ہوتے ہیں مگر محض پیسہ کمانے اور تجارت بڑھانے کی خاطر وہ انسانوں کی صحت اور جان سے کھیل جاتے ہیں۔ مریض کے تیمار داروں کے پاس اس نازک کیفیت میں ڈاکٹر کی بات کاٹنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لیے کہ انہیں بے کار کے خطرات سے خوف زدہ کر دیا جاتا ہے۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں عام طور پر اور ہمارے ملک میں خاص طو رپر جراحتی عمل جسے اصطلاح میں ’’سیزیرین‘‘ یا سی سیکشن کہتے ہیں، تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہ تیز رفتاری ملک کے نجی اسپتالوں میں خاص طور پر غیر معمولی نظر آتی ہے جہاں اکثریت ایسی ہے کہ ماؤں کا پیٹ چاک کر کے ایک طرف تو ان کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے دوسری طرف اہل خانہ کی گاڑھی کمائی کو دھوکہ دے کر اینٹھا جا رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے معیار کے مطابق دس سے پندرہ فیصد کیسوں میں سی سیکشن کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور مجبوراً ماں کا پیٹ چاک کر کے بچے کی پیدائش کا امکان ہوسکتا ہے مگر وہ اسی بات کی سفارش کرتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بچے اورماں کی صحت پر اس کے خراب اثرات کے سبب اس سے بچا جانا چاہیے۔ یہاں حالت برعکس ہے کہ جہاں بچا جاسکتا ہے وہاں بھی نہ صرف نہیں بچنے کی کوشش ہوتی بلکہ منافع کمانے کی خاطر ماؤں کے پیٹ چاک کر دیے جاتے ہیں۔
یہ ایک تکلیف دہ اور تشویش ناک کیفیت ہمارے ملک میں بڑھتی جا رہی ہے اور صحت عامہ کے اس ادارے کی بگڑتی صورتِ حال پر روک لگانے کی فکر نہیں کی جاتی۔ نہ تو حکومت اس سلسلے میں کوئی پالیسی اپنانے کو تیا رہے اور نہ صحت عامہ کے اداروں کی پیشہ وارانہ دیانت داری ہی انہیں اس طرف نہ جانے کو کہتی ہے۔
یونین ہیلتھ منسٹر جے پی ندا نے حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ میں یہ اطلاع دی کہ نجی اسپتالوں میں ہر دوسرا بچہ سی سیکشن کے ذریعے پیدا ہو رہا ہے۔ یہ اطلاع ان اسپتالوں کے ریکارڈس کی بنیاد پر فراہم کی گئی جو سنٹرل گورمنٹ ہیلتھ اسکیم (CGHS)سے جڑے ہوئے ہیں اور نجی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ جو ادارے سرکاری اسکیموں سے وابستہ نہیں ہیں ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
اس سلسلے میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں بچوں کی پیدائش کو نجی اسپتال بڑے پیمانے پر تجارت بنائے ہوئے ہیں اور اس کاروبار میں تیزی سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ یونین ہیلتھ منسٹر کے ذریعے دیے گئے اعداد و شمار کو دیکھئے جو ملک کے کئی بڑے شہروں میں سی سیکشن ڈلیوری کا فیصد پیش کرتے ہیں:
چنڈی گڑھ 98.35 ناگپور 71.84
کان پور 75.98 جبل پور 69.55
دہلی 67.83
اوسط: 55.75 فیصد کل تعداد: 31296
سی سیکشن: 17450
سی – سیکشن ڈلیوریز کو عالمی معیارات کے مطابق ماؤں کی صحت کی صورتِ حال کو جانچنے کے پیمانے کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر یہ پوری آبادی کے دس فیصد کے اندر ہے تو ماؤں اور نوزائدہ بچوں کی صحت اور Mortality مثبت ہے اور اگر اس سے زیادہ ہے تو دونوں کی اموات کی شرح کو بڑھانے والا ہے۔ اگر یہ دس فیصد سے بڑھتا ہے، جیسا کہ ہمارے ملک میں ہے تو یہ WHO کے مطابق خراب ترین صورتِ حال کا اشارہ ہے۔ WHO کے اس معیار پر اگر ہم اپنے ملک کی صورتِ حال کو پرکھتے ہیں تو ہمارے لیے کوئی بہتری کی بات نہیں ہے کیوں کہ یہ اپنے آپ میں ایک بڑا خطرہ یا رِسک ہے اور اس صورت میں ماں یا بچے دونوں کو یا کسی ایک کو زندگی بھر کے لیے کسی بھی معذوری سے دو چار کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں WHO ہندوستان کو ۲۰۱۵ ہی میں خبردار کر چکا تھا لیکن صورتِ حال میں کوئی سدھار نظر نہیں آتا۔
ملک کی مختلف ریاستوں سے اس سلسلے میں ملنے والے اعداد و شمار کئی پہلوؤں سے سنگین صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ان میں ایک طرف تو نجی اسپتالوں میں سی سیکشن ڈلیوری انتہائی حد تک بڑھی ہے اور دوسری طرف پبلک ہیلتھ کیئر کے اسپتالوں میں بھی یہ عالمی معیار سے کافی زیادہ اضافہ دیکھ رہی ہے۔ ذرا ریاستی اعداد و شمار پر نظر ڈالیے جو فیصد میں ہیں:
ریاست سرکاری اسپتال نجی اسپتال
تری پورا 18 74
ویسٹ بنگال 18.8 70.9
تلنگانہ 40.6 75
راجستھان ملک کی وہ ریاست ہے جہاں نجی اسپتالوں میں سی سیکشن ڈلیوری کا تناسب سب سے کم ہے اور یہ محض 23.2 فیصد ہے، جب کہ بہار وہ ریاست ہے جہاں سرکاری اسپتالوں میں اس کا تناسب محض 2.6 فیصد ہے۔ بہار کے بارے میں ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ وہاں سرکاری اسپتالوں کی حالت نہایت خستہ ہے اور ان میں اکثریت کے پاس یہ سہولت میسر نہیں۔ اگر وہاں کا تناسب دوسری ریاستوں کے سرکاری اسپتالوں کے مقابلے کم ہے تو یہ معنی نہیں سمجھے جاسکتے کہ وہاں کے اسپتال نارمل ڈلیوری کرانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ پرائیویٹ اسپتالوں کے اعداد و شمار دستیاب ہیں ہی نہیں۔
تلنگانہ ملک کی وہ ریاست ہے جہاں سی سیکشن ڈلیوری کا تناست 2015-16 میں 58 فیصد ہوتے ہوئے ملک میں سب سے زیادہ ہے اور یہ رجحان ملک کے تمام ہی ریاستوں میں بڑھ رہا ہے۔ 2005-6 کے مقابلے میں اس میں 2015-16 میں کتنا اضافہ ہوا ہے اس پر بھی نظر ڈالنا مناسب ہے۔
ریاست 2005-6 2015-16
تمل ناڈو 20.3 34.1
گووا 25.7 31.4
منی پور 9 21.1
آسام 5.3 13.4
اڑیسہ 5.1 13.8
یہ ہے ہمارے ملک کی صورت حال جس کا ذکر اوپر کیا گیا۔ اس پورے تناظر میں یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ہمارے ملک میں ہر گھنٹہ بچے کی پیدائش کے دوران پانچ خواتین کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر روز 120 خواتین کی موت ہوجاتی ہیں پھر اسے 365 سے ضرب دیں تو یہ تعداد 43800 تک پہنچ جاتی ہے۔ جی ہاں اکیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی ہر سال 43800 خواتین بچے کی پیدائش کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں اور اس ملک میں کہیں بھی ان کی موت پر تعزیت کا اظہار نہیں ہوتا اور نہ کہیں ایک منٹ کا ’مون‘ ہوتا ہے۔
ملکی اور عالمی سطح پر اس ضمن میں دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں معاشی پس منظر بھی اہم رول ادا کرتا ہے۔ ہائی انکم اور اوسط انکم سوسائٹی اور خاندانوں میں سی سیکشن کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور کم آمدنی والے خاندانوں اور معاشروں میں کم ہوتی ہے۔ یہ تجزیہ ‘Lancet’ کا ہے۔ اس کی وجہ یہ قرار دی جاسکتی ہے کہ زیادہ آمدنی اور اوسط آمدنی والے افراد ہی مہنگی ہوتی صحت کی سہولت حاصل کرنے کی سکت رکھتے ہیں جب کہ غریب خاندان اس کے متحمل ہی نہیں ہو پاتے۔ اسی ادارے کے مطابق:
’’۲۰۱۰ میں پینتیس لاکھ سے ستاون لاکھ کے درمیان ایسے سی سیکشن کیے گئے جو قطعاً غیر ضروری تھے اور یہ سب ہائی انکم اور اوسط انکم خاندانوں کے تھے۔ دوسری طرف ۳۵ لاکھ ضرورت مند افراد اس سے محروم ہے کیوں کہ وہ غریب تھے اور اس کے مالی اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔‘‘ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پستی عوام کی ایک تصویر ہے جس میں افراط و تفریط کو بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جدید زمانے کی لڑکیاں دردِ زہ کو برداشت نہیں کرنا چاہتیں اور مختصر خاندان کی خواہش مند ہوتی ہیں اس لیے وہ خود بھی سی سیکشن ڈلیوری کی خواہش مند ہوتی ہیں لیکن ایسے افراد کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ چناں چہ ایک ماہر امراض نسواں جو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS)دہلی میں پروفیسر ہیں کہتی ہیں:
’’یہ سی سیکشن ریٹ کسی بھی طرح سے درست نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ڈاکٹروں اور اسپتالوں کو قانون کا خوف ہوتا ہے اور ہمارے یہاں مطلوبہ سہولیات کا فقدان۔ جو کچھ بھی ہو یہ صورت حال تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہیلتھ سیکٹر سے حکومت کی بڑھتی عدم دلچسپی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کم ہوتے فنڈ اور اس پر مستزاد ملک میں بڑھتا کرپشن نجی اداروں کو غذا فراہم کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک بڑے بڑے کارپوریٹ ادارے جدید ٹکنالوجی سے لیس بڑے بڑے اسپتال قائم کر رہے ہیں اور ہیلتھ سروسز امیروں تک محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ پھر یہ ادارے عوام کے استحصال کا ذریعہ بن رہے ہیں جہاں آمدنی بڑھانے کی خاطر عوام کا خون چوسا جاتا ہے۔ اب یہ ایک مکڑ جال بن گیا ہے جس میں عوام کو پھنسنا ہی ہے۔ اس لیے کہ بچے کی پیدائش وہ یقینی امر ہے جو ہونا ہے اور ان کے مطابق یہ ’’طے شدہ بیماری‘‘ ہے جس میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ منافع کما لیا جائے۔ بنگلور کی ڈاکٹر فاطمہ پونہ والا جو اب خود اپنا کلینک ’’الفا کلینک‘‘ کے نام سے چلاتی ہیں، ان کارپوریٹ ہسپتالوں کی صورت حال کو واضح کرتی ہوئی کہتی ہیں:
’’کارپوریٹ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو سرجری کے لیے باقاعدہ ٹارگیٹ دیے جاتے ہیں اور اگر وہ یہ ٹارگیٹ پورا نہیں کرپاتے تو انہیں باہر کا راستہ دکھایا جاتا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومتوں کا رول اہم ہے۔ اگر قانون کی حکمرانی ہو اور اصول و ضوابط طے کر کے ان پر سختی سے عمل کیا اور کرایا جائے تو مادریت کو چیر پھاڑ سے بچایا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم مغربی دنیا کی نقالی کرتے ہیں مگر ان اچھی چیزوں میں ان کی پیروی کیوں نہیں کر پاتے جو وہ اپنے عوام کے عزت و وقار اور ان کی صحت و معاشی خوش حالی کے لیے اپنے ملکوں میں جاری کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں افراد اور اداروں میں قانون کی وہ حکمرانی کیوں نہیں ہوتی جس کا ذکر AIIMS کی ماہر ڈاکٹر نے اوپر کیا ہے۔lll