بچوں کے جھوٹ بولنے کا علاج

سعیدہ طاہر صدیقی

’’امی ابھی شیر آیا تھا۔ میں نے اس کو اپنی بندوق سے ماردیا۔‘‘ ’’ممی مجھے راستے میں بھیڑیا ملا تھا لیکن اس نے مجھے کاٹا نہیں۔ وہ کہتا تھا تم نے صاف کپڑے پہنے ہوئے ہیں، منھ دھویا ہے، میں تو تم کو پیار کروں گا۔‘‘ اس قسم کی من گھڑت باتیں آپ کا بچہ آپ کو سناتا ہوگا۔
مائیں جب پہلی مرتبہ ایسی باتیں اپنے بچے کے منہ سے سنتی ہیں تو یہ سوچ کر قدرے متفکر ہوجاتی ہیں کہ میرا بچہ تو ابھی سے جھوٹ بولنے لگا۔ آگے کا تو پھر خدا حافظ ہے۔
بچے جب بولنا شروع کرتے ہیںتو عموماً تین یا چار برس سے لے کر چھ برس تک اسی قسم کے عجیب و غریب قصے سناتے ہیں۔ یہ وہ تصوراتی تجربے ہوتے ہیں، جو بچہ اپنے احساسِ کمتری کی وجہ سے اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے کرتا ہے۔ وہ خود کو اپنے بڑوں کے مقابلہ میں چھوٹا اور حقیر سمجھتا ہے اور اس احساس کو ختم کرنے کے لیے وہ بڑی سے بڑی چیز کا مقابلہ کرکے اپنے کو بڑا ثابت کرتا ہے اور اس طرح سے تسکین پاتا ہے۔
ایسی باتوں کو جھوٹ نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ ایک ذہین بچے کے تصور کا کرشمہ ہے۔ جس کو وہ گھڑ کر آپ کے سامنے اس طرح پیش کرتا ہے۔ اس لیے بچوں کی ایسی باتوں سے یہ سوچ کر کہ یہ جھوٹ ہیں، گھبرانا نہیں چاہیے۔ عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ بچہ کھیلتے کھیلتے کسی ڈنڈے کو گھوڑا، کتے کو بھالو اور گڑیا کو بچہ بنا کر کھیلتا ہے یہ سب اس کا اپنا تصور ہوتا ہے، جس کے سہارے وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنا ایک خیالی ماحول بناتا ہے۔ بچہ کبھی کبھی اپنا کوئی ساتھی نہ ہونے کی صورت میں ایک فرضی ساتھی بھی بنالیتا ہے اور کھیل کے دوران اس سے بات بھی کرتا ہے، لڑتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے۔ غرض کہ وہ ہر وہ حرکت کرتا ہے، جو کسی سچ مچ کے ساتھی کی موجودگی میں وہ کرسکتا ہے۔
والدین کو بچے کی ایسی باتوں کو غور سے سننا چاہیے اور اس کی دل جوئی کرنی چاہیے اور ایسی صورت میں جب کہ وہ کسی فرضی ساتھی سے بات کررہا ہو، اس کو سچ مچ کا ساتھی مہیا کردینا چاہیے تاکہ اس کو زیادہ سے زیادہ تسکین حاصل ہوسکے۔ بچے ہر فرضی یا حقیقی چیز کا تصور باندھ سکتے ہیں، لیکن یہ ان کی سمجھ سے بعید ہوتا ہے کہ وہ سچائی کو ایک ایسی صفت تصور کریں جو ہر شریف انسان میں ہونی چاہیے۔ وہ بچے جو ذرا عمر میں بڑے ہوتے ہیں، وہ جھوٹ عام طور سے اپنے بچاؤ یا خود حفاظتی کے لیے بولتے ہیں۔ مثلاً رشید نے اپنی چھوٹی بہن کو مارا اور اس کی ممی نے دیکھ لیا، لیکن ممی کے پوچھنے پر وہ صاف انکار کردیتا ہے اور کہتا ہے ’’میں نے تو نہیں مارا۔‘‘
بچوں کو جھوٹ بولنے سے روکنے اور ان کو یہ دکھانے کے لیے کہ سچائی ایک بڑی صفت ہے، والدین کے لیے اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے کہ بچہ جھوٹ اپنی ناسمجھی یا غلط فہمی کی وجہ سے بول رہا ہے یا محض دھوکا دینے کے لیے۔ اگر اس کی غلط بیانی تصوراتی ہے تو یہ محض اس کی غلطی کہی جاسکتی ہے، اخلاقی کمزوری نہیں لیکن اگر وہ اپنے استاد اور والدین اور احباب کو دھوکا دینے کے لیے کوئی غلط بیانی کرتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہے، لیکن سزا ایسی نہیں ہونی چاہیے جیسی کہ پرانے زمانے میں دی جاتی تھی۔ والدین ذرا سے جھوٹ پر بچوں کی بری طرح پٹائی کرتے تھے اور ان کو شرم دلاتے تھے تاکہ وہ آئندہ ایسا نہ کریں، لیکن والدین کو اپنی اس غلطی کا احساس بعد میں خود ہوگیا کہ اس قسم کی سزا بچے کو اور جھوٹ بولنے پر اکساتی ہے اور وہ ایک جھوٹ سے بچنے کے لیے اور کئی جھوٹ گھڑتا ہے۔
بعض والدین دوسری طرح سوچتے ہیں، ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اس عمر میں تو بچے جھوٹ بولتے ہی ہیں۔ آگے چل کر خود ہی عادت چھوٹ جائے گی۔ اور وہ اس کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح سے وہ بچے کو سچ بولنے کی عادت ڈالنا تو درکنار، جھوٹ بولنے میں پختہ بناتے ہیں جیسا کہ ایک عام کہاوت ہے: ’’عادت انسان کی دوسری فطرت بن جاتی ہے۔‘‘
دراصل جھوٹ کی عادت نہ سزا سے اور نہ ڈانٹ پھٹکار سے جاسکتی ہے، بلکہ اس طرح سے بچہ دوسروں کو رنجیدہ اور پریشان کردیتا ہے اور جیسا کہ بتایا جاچکا ہے، وہ اور بھی زیادہ جھوٹ بولنے لگتا ہے۔ والدین کو اپنے برتاؤ کے ذریعے بچے کے ذہن میں یہ بات کبھی بھی نہیں آنے دینی چاہیے کہ’’ وہ جھوٹا ہے، ا س لیے خراب ہے۔‘‘ جب بچے میں اس قسم کا احساس پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ یہ سوچ کرکہ اس کو لوگ برا تو سمجھتے ہی ہیں، اپنے کو برا سمجھنے لگتا ہے اور غلط باتوں سے باز نہیں آتا۔
جھوٹ بولنے والے بچوں کو ’’جھوٹے‘‘ کے نام سے کبھی موسوم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے ذہن میں یہ بات عملی طور سے بٹھانی چاہیے کہ سچ بولنا چاہیے۔ جب بچوں کو اس قسم کی دھمکی دی جاتی ہے کہ جھوٹ بولنے پر بڑی سزا ملے گی تو وہ خوف کی وجہ سے اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے اور بھی بہت سے جھوٹ تراش لیتے ہیں، تاکہ وہ اس سزا سے یا کسی پریشانی سے بچ سکیں۔
والدین کو اپنے عمل سے یہ بات جتادینی چاہیے کہ جھوٹ کسی پریشانی کا مداوا نہیں اور یہی وہ بنیادی سبق ہے جو بچے کو جھوٹ بولنے سے روک سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جب بچہ یہ بات ذہن نشین کرلیتا ہے کہ اس کے والدین اس کے جھوٹ سے بے وقوف نہیں بن سکتے اور وہ تمام حقائق سے واقف ہوتے ہیں۔ تو پھر وہ اپنے جھوٹ بولنے کو بے کار تصور کرکے سچ بول کر ہی اپنے والدین سے تحسین حاصل کرے گا، اس طرح سے والدین کو اپنے بچوں پر یہ بات واضح کردینی چاہیے کہ وہ جھوٹ کو ناپسند کرتے ہیں اور سچ بولنے کو پسند کرتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کو تو جھوٹ بولنے پر تنبیہ کرتے ہیں لیکن خود بچوں کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں، مثلاً ریل یا بس کے ٹکٹ کے لیے ان کی عمر غلط بتانا اور ان کی جھوٹی تعریف کرنا، یہ ایسی باتیں ہیں، جو بچہ پر غلط اثر ڈالتی ہیں اور بچہ سچ بولنے کی قدر کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔
بچہ کو تو اچھے برے سے کم ہی واسطہ ہوتا ہے، اس کو اگر کسی چیز کی پروا ہوتی ہے تو وہ ہے والدین کی پسند، محبت اور شفقت۔
اگر والدین اس کے سچ بولنے پر خوش ہوں گے اور اس کے ساتھ محبت اور ہمدردی سے پیش آئیں گے تو وہ جھوٹ بولنے کی بھی ضرورت نہ محسوس کرے گا، بلکہ سچ بولنے کے علاوہ وہ اس حرکت سے بھی پرہیز کرنے لگے گا، جس کی وجہ سے اس کو جھوٹ بولنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پس سچائی وہ بیج ہے، جو بچپن ہی میں بویا جاسکتا ہے اور جو آگے چل کر ثمر آور ہوسکتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں