ہم اس دنیا میں جب آنکھ کھولتے ہیں تو ہمیں فطری طورپر کچھ رشتوں کا تحفہ ملتا ہے، جن میں ماں، باپ اور بہن بھائی سب سے نزدیکی رشتے شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے دل میں قدرتی طور پر ان رشتوں کی محبت بھی موجود ہوتی ہے، جس میں گزرتے وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا ہے، مگر دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جسے ہر انسان اپنی مرضی سے استوار کرتا ہے۔
انسان کی فطرت رہی ہے کہ وہ تنہا رہنا پسند نہیں کرتا۔ انسان جتنا بھی تنہائی پسند ہو لیکن اس کا کوئی ایک دوست تو ایسا ضرور ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنی خوشیاں اور غم بانٹتا ہے لیکن اگر ایک مخلص دوست انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لے آتا ہے تو ایک برا دوست انسان کی پوری شخصیت کو مسخ کر سکتا ہے اس لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگرآپ کسی انسان کے کردار کو جاننا چاہتے ہیں تو اس انسان سے دوستوں سے ملیں۔ دوستوں کے طور اطوار دوسرے دوست پر بہت گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے دوستوں پر گہری نگاہ رکھیں، ساتھ ہی ضروری ہے کہ بچوں کو گھر میں ایسا دوستانہ ماحول فراہم کریں کہ وہ باہر کے دوستوں کو گھر سے زیادہ فوقیت نہ دیں اور جو راز کی باتیں وہ دوستوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہیں وہ والدین کے ساتھ شیئر کرلیں۔ اس ضمن میں مائیں اپنا بہترین کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ درج ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
اہمیت کا احساس
اکثر ماؤں کی عادت ہوتی ہے کہ بچے جب انھیں پکارتے ہیں تو وہ انھیں نظر انداز کرتی ہیں، جواب نہیں دیتیں یا خاطر خواہ توجہ سے رد عمل کا اظہار نہیں کرتیں۔ بچے اسکول سے گھر واپس آتے ہیں تو مائیں اپنے کاموں میں مصروف ہوتی ہیں اور بچوں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ اس طرح بچوں کو لگتا ہے کہ گھر میں ان کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ماؤں کو اس رویے سے گریز کرنا چاہیے۔ بلکہ بچوں کی اسکول واپسی سے پہلے تمام کام نمٹا لینے چاہئیں اور جب بچے گھر میں داخل ہوں تو انھیں مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہنا چاہیے اور انھیں یہ احساس دلانا چاہیے کہ آپ ان کی کمی محسوس کر رہی تھیں۔
موازنے سے گریز
اپنے بچے کا موازنہ کسی دوسرے بچے سے ہرگز نہ کریں حتی کہ اس کے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی نہیں، کیوں کہ جب بہن بھائیوں کا موازنہ ایک دوسرے سے کیا جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے حسد کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ اس طرح ان کے درمیان دوستی کا رشتہ پروان چڑھنے کے بجائے ان کے دلوں میں فاصلے پیدا ہونے لگیں گے جو کہ نہایت غیر مناسب بات ہے۔
راز دار بنئے
ماؤں کو یہ معمول بنانا چاہیے کہ جب بچے اسکول سے گھر آئیں تو ان سے بہت ساری باتیں کریں اور سوالات پوچھیں اور چاہیں کہ انھوں نے اسکول میں کیا کچھ کیا، کیا پڑھا، کیا کھایا پیا اور کیا کھیلا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح ایک دن آئے گا جب بچہ آپ کو اپنی چھوٹی بڑی تمام باتیں بتانے لگے گا اور اگر بچہ کبھی کوئی ایسی بات بتائے جسے دوسروں کو بتانے سے منع کرے تو ماؤں کو چاہیے کہ اس کا ذکر وہ کسی سے نہ کریں، اس طرح بچہ آپ پر اعتبار کرنے لگے گا۔ دوستی میں بھی یہی بات ہوتی ہے کہ ایک دوست اپنے دوست کی بات کسی کو نہیں بتاتا۔ یہ امر تربیت کے نقطہ نظر سے بھی بے حد اہم ہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس طریقے سے آپ اپنے بچے کی بہتر تربیت کر سکیں اور اسے آنے والے مسائل سے پیشکی نمٹ لیں۔ اور اگر تربیتی نقطہ یا کسی اور وجہ سے وہ بات والد یا کسی دوسرے کو بتانی ہو تو بچے پر واضح کردیں کہ اس کا ذکر والد یا اسکول کے پرنسپل سے ضروری ہے اور یہ آپ کے فائدے اور محبت کے سبب ہے۔ اس طرح اس کا اعتماد نہ صرف مجروح ہونے سے بچے گا بلکہ اور مضبوط ہوگا۔
ساتھ کھیلیں
بچے دوست اس لیے بھی بناتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھیلتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ اس لیے ماؤں کو چاہیے کہ وہ کچھ دیر کے لیے بالکل ان جیسا بچہ بن جایا کریں اور ان کے ساتھ ان کے پسندیدہ کھیل کھیلا کریں۔ ان کے ساتھ بھاگ دوڑ اور بے تکلفی سے گفتگو کیا کریں۔ اس طرح ماں اور بچے کے درمیان دوستی کا رشتہ قائم ہوگا جو گزرتے وقت کے ساتھ اور مضبوط ہوتا جائے گا۔
عزت نفس کا خیال رکھیں
بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے جاتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی تعریف کریں، انھیں پسند کریں لیکن بعض ماؤں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سب کے سامنے اپنے بچوں کی تعریف تو نہیں کرتیں لیکن برائیاں بڑے زور و شور سے کرتی ہیں، جس سے بچوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور پھر وہ جان بوجھ کر وہی غلطیاں دہراتے ہیں۔ اس لیے ماؤں کو چاہیے کہ وہ سب کے سامنے اپنے بچوں کی تعریف کریں اور اگر بچے کوئی غلطی بھی کرتے ہیں تو انھیں سب کے سامنے نہ ڈانٹیں۔ تنہائی میں انھیں سمجھائیں کیوں کہ بچے سختی کے بجائے پیار سے جلد سمجھ جاتے ہیں۔lll