بچوں کے ساتھ رہنا سیکھئے! (خواتین کے لیے مفید مشورے)

عذرا امین صالحاتی

بچے کی پرورش کو عام طور پر آسان قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ رہنے کے کچھ تقاضے بھی ہوتے ہیں، جن سے عموماً ہمارے ہاں بیشتر والدین ناآشنا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود ایک سطح پر آکر بچوں اور والدین میں اختلافات اور دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

بچے والدین کے درمیان اختلافات کی وجہ بیرونی ماحول، میڈیا اور اکثر اوقات رشتہ داروں کے رویوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ یوں والدین ایک بڑی حقیقت پر یا تو خود ہی پردہ ڈال دیتے ہیں یا پھر اس کا ادراک نہیں کر پاتے۔ یہ حقیقت جو براہِ راست بچے اور والدین کے درمیان فاصلے کا سبب بنتی ہے، والدین کی پرورش کا انداز ہے۔ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی والدین سینکڑوں قسم کی احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی دیکھ بھال شروع کردیتے ہیں۔ بچے کی پرورش سے متعلق چھوٹی سے چھوٹی بات پر ڈاکٹروں یا بزرگوں سے ہدایات طلب کرتے ہیں۔ بچے کو گود میں کیسے اٹھایا جائے؟ کون سے کپڑے پہنائے جائیں، گرمی سے بچاؤ کیسے ہو، سردی سے کیسے محفوظ رکھا جائے، کس قسم کی خوراک دی جائے، بچے کو صاف کیسے رکھا جائے؟ غرض کہ ایسے سینکڑوں کام کرتے وقت مشورے لیے جاتے ہیں۔ بچے نے ابھی بولنا بھی شروع نہیں کیا ہوتا کہ والدین اس سے اس انداز سے باتیں کرتے ہیں گویا اسے بولنا سکھا رہے ہوں۔ اس کے پیچھے منطق یہی ہوتی ہے کہ جب بچہ بولنا سیکھے تو اچھے انداز کو ہی اپنائے۔ او رجب وہ بولنا سیکھ جاتا ہے تو اس کی تربیت پر اور بھی زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب والدین قدم قدم پر والدین بچے کی اچھی تربیت کا خیال رکھتے ہیں تو پھر کیوں یہی بچے ان کی نافرمانی کرتے ہیں؟

بہت سے والدین اس بات کو بچے کی فطرت قرار دیتے ہیں اور بہت سے والدین اسے بری صحبت کا اثر قرار دیتے ہیں۔ یوں ہر طرح سے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ بے شک ماحول کے ساتھ ساتھ انسان کا طرزِ عمل اس کی فطرت کے تابع بھی ہوتا ہے، جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ فطرت کو صحیح سمت میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال جانوروں کو سدھارنے کی ہے۔ پھر چاہے وہ جس قدر جارح طبیعت کے کیوں نہ ہوں، انسان کے اشارے پر کام کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ پھر بھلا انسان کو او روہ بھی چھوٹے بچوں کو اپنی خواہشات پر کام کرنے پر آمادہ کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ اگر والدین کی شکایت یہ ہے کہ بچہ باہر کے لوگوں یا برے دوستوں سے بری عادت اور رویے سیکھتا ہے تو سیکھنے کا عمل تو یہاں بھی ہوتا ہے، پھر کیوں نہ والدین اسے اچھا طرزِ عمل سکھانے کی کوشش کریں۔

ہمارے ہاں بچوں کی تربیت سے متعلق سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر والدین بچوں کی نفسیات سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ رہنا ہی نہیں جانتے۔

کہنے میں تو یہ بات بہت عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے کچھ باتوں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ بچہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ یوں تو انسان ساری زندگی ہی سیکھتا رہتا ہے لیکن بچپن کے دور میں سیکھنے کا عمل زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ اسی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ بچے از خود چاہے جس بھی چیز یا کام کا مطالبہ کریں لیکن بیک وقت آزادی، کھیل کود اور اظہار کے مواقع، والدین کی توجہ، تعاون، تحفظ، پیار، خود مختاری، حتی کہ پابندیوں کے بھی متلاشی ہوتے ہیں۔ ان کی ہمہ پہلو نشو ونما کے لیے ان تمام عناصر کا ہونا بھی اسی قدر ناگزیر ہے جب کہ ہمارے ہاں کے والدین محض اس بات پر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کو ہر چیز مہیا کی ہے۔ اب اب نہ تو بچہ احساس محرومی میں مبتلا ہوگا او رنہ ہی والدین سے دور ہوسکے گا۔ یا پھر یہ خیال کہ انہیں اپنے بچوں کو کنٹرول کرنے کا ہنر آتا ہے، چناں چہ بچے کے بھٹکنے کے راستے ہی مسدود ہوسکے ہیں۔ یہ دونوں خیالات والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے کا باعث بنتے ہیں۔ والدین اور بچوں کے درمیان جس کا عنصر موجود ہونا بہت ضروری ہے وہ اعتماد ہے۔ یہ اعتماد محض بچے کو یہ احساس دلانے سے پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اس کی ہر ضرورت پوری کردیں گے بلکہ ان میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ والدین کے پاس انہیں ہر طرح سے تحفظ رہے گا۔ بچہ والدین کی نافرمانی اس وقت شروع کرتا ہے جب اسے دوسروں کی صحبت میں تحفظ اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ والدین کی طرف سے بے جا پابندیاں اور سختیاں بچے میں خوف پیدا کرتی ہیں، اس کیفیت سے بچہ خود بھی پریشان رہنے لگتا ہے۔ ان حالات میں اسے دوستوں کا ساتھ یا کسی عزیز رشتہ دار سے ملنے والی اپنائیت پرکشش محسوس ہوتی ہے۔ بچوں پر پابندیاں ان کی خود اعتمادی کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہیں۔ وہ خود کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوپاتا، نہ لوگوں کے سامنے اپنی سوچ بیان کر پاتا ہے۔

جب وہ اپنا موازنہ دوسرے ہم عمر بچوں سے کرتا ہے تو وہ خود یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اس کے گھر کا ماحول ہی اسے پست کر رہا ہے۔ والدین اس چھوٹے سے مسئلے کو سمجھ نہیں پاتے۔ وہ تصور بھی نہیں کر پاتے ہیں کہ ان کا بچہ اس قدر گہرائی تک سوچ سکتا ہے کیوں کہ ان کی نظر میں وہ ’’بچہ‘‘ ہوتا ہے۔

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک بچے کا دماغ ماحول اور عادت و رویوں کا گہرائی سے جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔ اسی جائزے کی بناء پر اس کی کچھ عادات تشکیل پاتی ہیں۔ بچے اپنے گھر کے ماحول اور اپنی پرورش کے انداز پر خود بھی تنقید کرتے ہیں۔ خصوصاً بڑے ہونے پر وہ اپنی ناکامیوں اور شخصیت کی کمزوریوں کا ذمہ دار گھر کے ماحول کو ہی قرار دیتے ہیں کہ صرف پابندیوں بلکہ بے جا آزادی پر بھی تنقید کرتے ہیں اگر کسی موقع پر انہیں غلط کام یا خودسری سے روکا جاتا تو وہ اچھی عادات کے مالک ہوتے ہیں۔

والدین کے قول و فعل میں تضاد بچوں کو تذبذب کا شکار کردیتا ہے۔ والدین کے لیے یہ کوئی اہم بات نہیں ہوتی لیکن بچے کے لیے سب سے پہلا دل ماڈل اس کے والدین ہی ہوتے ہیں۔ جب وہ والد کی تقلید کرتے ہوئے جارحانہ رویے، غصے، جھوٹ، غلط بیانی یا طنز وغیرہ کرنے جیسے عادات کا اظہار کرتے ہیں تو انہیں والدین کی طرف سے ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بعض اوقات کچھ والدین اپنے مقصد کے لیے جھوٹ بلواتے ہیں اور انہیں سچ بولنے کی تاکید بھی کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین بچے کو ’’بچہ‘‘ قرار دے کر نظر انداز کرنے کی بجائے اس کی اہمیت کا اعتراف کریں بچوں سے محض توقعات وابستہ کرلینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان کی اس انداز میں تربیت کرنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ خود بخود ان کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں