بچوں کے سب سے پہلے استاد والدین ہوتے ہیں۔ بچے کتابوں اور کلاس روم سے کہیں زیادہ اپنے والدین سے سیکھتے ہیں۔ والدین جو سب سے اہم باتیں اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں ان میں ایسے ہنر اور خیالات ہوتے ہیں، جو ساری زندگی ان کے ساتھ رہتے ہیں اور جن کو اپنا کر یا تو وہ ایک کامیاب اور خوش گوار زندگی گزارتے ہیںیا پھر اپنے والدین سے سیکھے ہوئے عادات و اطوار کے نتیجہ میں نہایت تلخ اور ناکام تجربات سے دوچار ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو والدین بچے کو عزت و احترام کے حوالے سے بتاتے ہیں۔ پیدائش کے بعد سے ہی جب والدین دوسروں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے ہیں اور خاص کر اپنے بچوں کے ساتھ تو بچے ان کا مشاہدہ کرتے ہیں اور خود بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جن گھروں میں میاں بیوی کے آپسی جھگڑے اور گالم گلوچ کا ماحول ہوتا ہے، میاں بیوی اپنے والدین اور ساس سسر کا احترام نہیں کرتے وہاں پلنے والے بچے بڑوں سے ادب و احترام کی اہمیت کی نہیں سمجھ پاتے۔ بھروسہ، عزت واحترام اور ایمان داری ، والدین روزانہ کی بنیادپر انھیں سکھاتے اور بتاتے ہیں جبکہ والدین کا رویہ اس کے برعکس ہو تو بچوں میں ان اخلاقی خوبیوں کا فروغ اور استحکام ناممکن ہوجاتا ہے۔ جب والدین کسی سوال کا جواب دینے کے لیے اپنے بچے کو وقت دیتے ہیں تو وہ گویا بچے کو یہ سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ یہی کرنا ہے جو بچے دوسروں کا احترام کرتے ہیں، وہ بڑے ہوکر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ پر لفظ شکریہ نقش ہوکر رہ جاتا ہے اور وہ معمولی سی بات پر بھی کسی کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتے اور یوں وہ خوش اخلاق انسان بن جاتے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہوتاہے جب والدین اور گھر کے افراد خود انہی خوبیوں اور عادتوں کا پیکر ہوں بہ صورت دیگر یہ سب اخلاقی قدریں بچوں کے لیے محض کہنے سننے کی باتیں بن کر رہ جاتی ہیں اور وہ اپنی زندگی میں ان کی ضرورت و اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے۔
یوں تو والدین غیر محسوس طریقے سے روزانہ ہی بچے کو بہت کچھ بتاتے اور سکھاتے رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بچے کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس کے خیالات اور ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ دراصل بات چیت یا گفتگو کی صلاحیت سے بچے کو آگے کی زندگی میں بہت مدد ملتی ہے، چوںکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ سامنے والا کیا چاہتا ہے اور کس طرح اس سے نمٹنا ہے، لہٰذا وہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے طے کرلیتا ہے۔ بچے کے پاس گفتگو کرنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں اور وہ گفت و شنید کو اپنا ایک اچھا ہتھیار سمجھتا ہے۔ جوں ہی اسے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ سمجھوتا کرنے سے بات بن سکتی ہے تو وہ سمجھوتا کرلیتا ہے۔ اپنی عمومی گفتگو کے ذریعے بھی والدین بچے کو ہر وقت اور ہر جگہ کوئی نہ کوئی بات سکھاتے ہیں۔ مثلاً جب گھر کے افراد کھانے کی میز پر یا فرش پر بچھے دسترخوان پر جمع ہوتے ہیں تو یہ وقت ہوتا ہے یہ بتانے کا کہ کھانے کی میز کی آداب کیا ہوتے ہیں۔ بچہ کھانے کی میز پر کوئی ایسی بات نہیں کرتا، جو ادب و اخلاق کے خلاف ہو، کیوں کہ خود والدین اور گھر کے دیگر افراد بھی ادب و اخلاق کا خیال رکھتے ہیں اور بڑوں کا یہ عمل بچے خود بخود سیکھتے اور اپناتے ہیں، انھیں بہت زیادہ بتانے یا سمجھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
بچوں کے اندر دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ شروع سے ہی ہونا چاہیے۔ اس کے لیے بھی خود والدین کو عملی طور پر ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ دوسروں کے لیے قربانی دینا اور واقعات اور چیزوں کو لوگوں سے الگ انسانی زاویے سے دیکھنے کی تعلیم بچے کو بچپن میں ہی دینی شرو ع کردینی چاہیے۔ بعض اوقات تو والدین کو اس بات کا پتا بھی نہیں چل جاتا ہے اور وہ بچے کو اس کی تعلیم دے چکے ہوتے ہیں۔ ضرورت کے وقت دوست کے کام آنا، مستحق افراد کی مدد کرنا، جانوروں کے ساتھ رحم دلی سے پیش آنا، یہ سب ہمدردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ والدین اگر بچے کے سچے جذبات کی اچھی طرح عکاسی کرتے ہیں، تو یہ بھی اسے کچھ نہ کچھ سکھانے کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ مثلاً اگر بچہ کھانے میں، کپڑے پہننے میں یا اور کسی بات پر نخرے کرتا ہے یا کسی بات پر اڑ جاتا ہے، تو ایسے میںاسے نظم و ضبط سکھانے اور ادب و اخلاقیات بتانے کے بجائے ہلکے پھلکے انداز میں سکھانے کی کوشش کریں، مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ ’’ارے! تم اس حالت میں ذرا بھی اچھے نہیں لگتے‘‘ اس سے اسے احساس ہوگا کہ اس کے غصے یا نخرے سے اس کے والدین واقف ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ میں ان سے ناراض ہوں۔ بچوں کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ اس کے کسی بھی عمل سے والدین کو تکلیف نہ پہنچے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب خود گھر میں بزرگوں کے ساتھ ان کے بڑوں کا رویہ انتہائی مشفقانہ، ہمدردانہ اور اطاعت و محبت پر مبنی ہو۔
والدین بچوں میں یک جہتی کا جذبہ بھی پیدا کریں۔ یک جہتی کا احساس جو والدین اپنے بچوں میں پیدا کرتے ہیں ان کے سامنے آگے چل کر ایک بہترین عمل سامنے آتا ہے۔ یک جہتی عملاً خاندان کے اندر مثال کے طور پر سمجھائی جاسکتی ہے۔ بچے ہر بات کے لیے اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہیں جو والدین بچوں میں ایمان داری اور محنت کی اہمیت اجاگر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ان کے بچے بڑے ہوکر ان کے لیے کامیابی کا تحفہ ثابت ہوتے ہیں۔ والدین جو کہتے ہیں، وہی کرتے ہیں، تو یہ بچوں کے سامنے ایک رول ماڈل ہوتا ہے اور بچے کبھی اپنے قول و فعل میں تضاد نہیں رکھتے، جو والدین بچوں کو بتاتے ہیں کہ جھوٹ بولنا، کسی کو ستانا، بے ایمانی کرنا، برا بھلا کہنا، چوری کرناوغیرہ بری بات ہے ان کو خود بھی اس طرح کی باتوں سے دور رہنا چاہیے اور کبھی کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہیے۔ بچے بتانے سے زیادہ عمل سے سیکھتے ہیں۔
بچوں کو ابتدائی عمر سے اخراجات اور بچت کے بارے میںعلم ہونا چاہیے۔ پیسے کی اہمیت کو سمجھنے والے والدین بچے میں سب سے پہلے اس حوالے سے آگاہی پیدا کرتے ہیں۔
بچے جب چار سال کے ہوجائیں، تو ان سے گھر کے چھوٹے موٹے کام لیے جائیں اور ان کو بطور وظیفہ یا جیب خرچ کچھ پیسے دیے جائیں۔ اس طرح اس میں پیسہ کمانے پر کتنی محنت لگتی ہے اس کا احساس پیدا ہوگا۔ والدین بچے کو بتائیں کہ گھر کے اخراجات کیا کیا ہیں اور بل یا کرائے پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ بچوں کو سکھائیں کہ پیسے کی بچت بہت ضروری ہے، پیسے بچا کر ضرورت کی کوئی چیز خریدی جاسکتی ہے یا کسی ضرورت مند کی مدد بھی کی جاسکتی ہے یہ عمل اللہ کو بھی پسند ہے۔ بچوں میں بچت کا رجحان پیدا کرنے کے لیے انھیں گولک لادیں اور روزانہ ملنے والے پیسوں میں سے کچھ پیسے اس گولک میں جمع کرنے کی ترغیب دیں اور انھیں بتائیں کہ فضول خرچی سے بچنا بہت اچھی عادت ہے۔ قرآن و حدیث میں فضول خرچی ناپسندیدہ عادت ہے اور اللہ کی نظر میں فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور یہ کہ اس عادت کے باعث انسان کبھی تنگ دست نہیں ہوتا۔
ویڈیو: بچوں کی تربیت۔ قاسم علی شاہ
بچوں کی تربیت کے متعلق مزید پڑھیں!
https://hijabislami.in/7198/
https://hijabislami.in/6907/
https://hijabislami.in/6764/