مسائل اور پریشانیاں انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ انسان کو جب بھی کوئی بڑا مسئلہ پیش آتا ہے یا تناؤ کی کیفیت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے قریبی ساتھیوں یا عز یزوں سے مل کر حل بھی نکال لیتا ہے اور دل کا غبار بھی ہلکا کرلیتا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ایک باشعور انسان باہمی گفتگو کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے جبکہ بچے ایسا نہیں کرپاتے۔ اس صورت میں بچوں کے لیے کھیل کود سے بہتر کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ یہ جہاں سیکھنے کا فطری ذریعہ ہے وہیں باہمی رابطہ اور سماجی و معاشرتی ہم آہنگی کا وسیلہ بھی ہے۔ چونکہ بچے اپنی دنیا کو اپنے انداز میں جینے کی کوشش کرتے ہیں اسی لیے بچوں کے مسائل کے حل کے لیے عہدِ حاضر میں پلے تھریپی کو کارگر اقدام کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اداسی، مسلسل رونا، شرمیلی فطرت، غصہ، خوفزدہ رہنا، لوگوں سے ملنے سے گریز، والدین کا خوف، خود اعتمادی میں کمی، پڑھائی سے الرجی، یکسوئی کا نہ ہونا، نئے ماحول کے ساتھ ہم آہنگی میں دشواری، کسی سبب کے بغیر پیٹ یا سر میں درد ایسے مسائل ہیں جن میں پلے تھریپی کارگر ذریعہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کھیلنے کی آزادی دی جائے۔ وہ کھیل میں گم ہوکر خوف، ڈپریشن اور ٹینشن کو فراموش کرجاتے ہیں۔ معروف مصنفہ اور پلے تھریپی کی موجد ورجینا ایکسلائن کے مطابق پلے تھریپی میں بچہ خود کو نمایاں کرتا ہے۔ اس میں بچے کی اپنی ذات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیوںکہ یہاں مسائل سے نجات دلانے کی کوشش تھریپسٹ نہیں کرتا بلکہ بچہ خود ہی ان سے نجات پالیتا ہے۔ یہ عمل ۳ سے ۱۲ سال تک کے بچوں کے لیے کارگر ہوتا ہے۔ وہ کھیل کود کے ذریعہ زندگی کے حقائق سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔
پلے تھریپی میں بچوں کے کھیلنے کے لیے چند مخصوص کھلونوں کو رکھا جاتا ہے۔ ریت اور آرٹ میٹریل کے توسط سے وہ اپنی تخلیقی سرگرمیاں پیش کرتے ہیں۔ مصوری اور ماڈل سازی وغیرہ کو اپنا کر بھی وہ اپنی فنی صلاحیتوں کو سامنے لاتے ہیں۔ اس میں تین قسم کے کھلونے رکھے جاتے ہیں:
۱- حقیقی زندگی سے وابستہ کھلونے۔ اس میں بچوں کو وہ کھلونے دیے جاتے ہیں جن سے خاندان کے نظام کو سمجھایا جاسکے۔ ڈال فیملی، ڈال ہاؤس یا پپٹ وغیرہ اس میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ ان کھلونوں سے کھیلنے کے دوران بچے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے ساتھ زندگی کے مسائل کا ادراک بھی کرسکتے ہیں۔
۲- ایکٹنگ آؤٹ اور ایگریسیوریلیز کھلونے۔ ان کے توسط سے بچوں کو کسی کے تئیں حسد، غصہ، فرسٹریشن جتانے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔ پنچنگ بیگ، ٹوائے سولجرس اور گن، مصنوعی ڈائنا سور، پلاسٹک کے سانپ وغیرہ کو اسی صف میں رکھا جاسکتا ہے۔
۳- تخلیقی اظہار کے لیے اموشنل ریلیز کھلونے۔ اس ضمن میں ریت، پانی، مٹی، تھرماکول، ہارڈ سیٹ،گتہ یا دیگر ایسی چیزوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے توسط سے بچے اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی ماڈل بناکراپنے جذبات و احساسات اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرسکیں۔
اگر بچے کے اندر مندرجہ بالا میں سے کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو یقینی طور سے اسے پلے تھریپی کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر اس کارگر نسخہ کو اپنائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈپریشن یا مایوسی کے شکار بچے اکثر بلاوجہ کر اور پیٹ درد کی شکایت کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بچے اپنے پسندیدہ کھیل میں لگ جاتے ہیں تو یہ درد سرے سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس طرح ان کا کھیلنا کارگر اور بہتر علاج ثابت ہورہا ہے۔