کھڑکی کے باہر کرکٹ کھیلنے والے ساتھیوں کی آوازیں دانش کو پریشان کررہی تھیں۔ آج اسکول کی تین ٹیموں کا مقابلہ چل رہا تھا۔ دانش کھیلنا چاہتا تھا لیکن ایک ہفتے کے بعد ریاستی سطح کے جی کے ٹسٹ کی تیاری نے اسے روک دیا۔ اچانک تیز شور بلند ہوا۔ دانش نے اپنی کھڑکی سے جھانکنے کے لیے باہر سر نکالا تو جیت کا ہنگامہ تھا۔ اس کی ٹیم نے ٹورنامنٹ جیت لیا تھا۔ دانش نہ کھیلنے کے باوجود خود کو فاتح محسوس کررہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں دوڑ لگاتے ہوئے وہ بھی میدان میں آگیا۔ مبارکبادی کا شور ایسا تھا جیسے باہری دنیا میں اس سے بڑھ کر اب کوئی خوشی ہو ہی نہیں سکتی۔ تبھی ایک کرخت آواز نے اسے چونکا دیا:
’’دانش! کیا ہورہا ہے وہاں؟‘‘
یہ دانش کے ابو تھے جو دانش کو اس کی پڑھائی کی میز پر نہ دیکھ کر آگ بگولہ تھے۔
’’تم کو معلوم نہیں کہ ٹیسٹ میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے اس بار اگر تم نے پوزیشن نہیں حاصل کی تو کتنی بے عزتی ہوگی۔ معلوم ہے تمہیں!‘‘
دانش خاموشی سے سرجھکائے ابو کے پیچھے پیچھے خود کو گھسیٹ رہا تھا۔ دانش درجہ پنجم میں تھا۔ ہر سال وہ اپنے کلاس میں پوزیشن حاصل کرتا تھا۔ اس بار چونکہ ریاستی سطح کا ایک امتحان ہے اس لیے واقعی ٹاپ کرنے کی محنت کرنی پڑرہی ہے۔
’’معلوم ہے تمہیں شرما جی کے لڑکے نے کتنی تیاری کرلی ہے۔ اور تم ابھی کھیل دیکھنے میں لگے ہو۔‘‘
دانش صرف خاموشی سے سن رہا تھا۔ لیکن شرما جی کے لڑکے کا ذکر سن کر اس کا موڈ اور خراب ہوگیا۔اس کی سمجھ میں ابھی تک نہ آسکا تھا کہ اس کے ابو بار بار شرماجی کے لڑکے سے اس کا مقابلہ کیوں کرتے ہیں۔
’’بک فیئر لگا ہے۔ آج میرے ساتھ چلو جغرافیہ کی ایک اچھی سی کتاب خرید دیں گے۔ جس میں سارے ملکوں کی آبادی، دارالحکومت اور وہاں کے وزیروں کے نام ہوں گے۔‘‘ دانش کے ابو نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ابو آج تو چھوٹی خالہ آنے والی ہیں انھیں لینے اسٹیشن نہیں جائیں گے۔‘‘ دانش نے بات کاٹی۔
’’تو! میں اکیلا جاؤں گا اور انھیں لے آؤں گا۔ تمہارے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنی تیاری کرو۔ اسٹیشن سے واپس آکر ہم بک فیئر چلیں گے۔‘‘
دانش کتابوں میں گم ہوگیا ’’چین کا دارالحکومت بیجنگ ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم کا نام پنڈت جواہر لعل نہرو ہے سب سے پہلے چاند پر قدم رکھنے والے انسان کا نام …‘‘
دانش جھنجھلا کر رہ گیا۔ یہ نام وہ بار بار کیوں بھول جاتا ہے۔ ’’دانش کہاں ہو تم!‘‘ دانش کی امی نے آواز لگائی۔
’’جی امی! میں اپنے کمرے میں ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر میں دانش کی امی دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’ارے اللہ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔ ایسی بھی کیا پڑھائی کہ آنکھیں سوجی جارہی ہیں۔ یہ کھڑکی کیوں بند کررکھی ہے۔ کمرے میں تھوڑی ہوا اور روشنی تو آنے دو۔‘‘
’’میں نے نہیں بند کی۔‘‘ دانش نے کہا
’’پھر کس نے کی ہے۔‘‘
’’ابو نے بند کی ہے۔ باہر لڑکے کھیل رہے ہیں اس لیے۔‘‘
’’ہوں‘‘۔ امی جھنجھلا گئیں۔ ’’جاؤ سب سے پہلے اچھی طرح فریش ہوجاؤ۔‘‘
تھوڑی دیر بعد چھوٹی خالہ کو لے کر دانش کے ابو آگئے۔ دانش کا خالہ زاد بھائی راشد اب تیسری کلاس میں تھا۔ تھا چھوٹا لیکن ایک نمبر کا باتونی۔ باتیں ایسی جیسے کسی فلم کی اسکرپٹ پڑھ رہا ہو۔ اس کے آنے کے بعد تو ایک الگ ہی ہنگامہ شروع ہوگیا۔ دیر رات تک امی اور خالہ کی گھریلو باتیں اور راشد دانش کی کھیل کود کی باتیں۔
صبح ابو ڈیوٹی چلے گئے اور دانش اسکول … آج شرما جی کا لڑکا اجیت دانش سے ملا۔ باتوں باتوں میں اس نے کمپٹیشن کی تیاریوں کے بارے میں پوچھ لیا۔
’’میں تو تیاری ویاری کچھ نہیں کررہا ہوں۔‘‘ دانش نے جھوٹ بولا۔
’’کل تم اور تمہارے پاپا بک فیئر میں نظر آئے تھے۔ کتابیں خرید کر لائے ہو کیا؟‘‘ اجیت کے کہنے پر اسے اپنے جھوٹ پر شرمندگی سی ہوئی۔
چھٹی کے بعد دانش حسبِ معمول کھانا کھاکر اپنی نئی کتاب سے تیاری میں لگ گیا۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ مقابلہ سخت ہوگا اور باقی لڑکے بھی پوری جی جان سے تیاری میں لگے ہیں۔ شام کو ابو نے دانش کو پڑھتے دیکھ کر اطمینان محسوس کیا۔ دانش کے ابو پوسٹل ڈپارٹمنٹ میں آفیسر تھے۔ اپنے ہم رتبہ ساتھیوں کے بچوں کے مقابلہ میں وہ دانش کو ہر میدان میں ان سے اعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے۔ روز نئی کتاب گھر لاتے۔ ان کی زبان دانش کو تلقین کرتے نہیں تھکتی تھی۔ اسے بھی کھیلنے کا شوق تھا لیکن یہ بات دانش کے ابو کو قطعاً پسند نہ تھی۔ پورے چھ دن ہوگئے دانش کو اپنے خالہ زاد بھائی راشد کے ساتھ بھی بہت ہی کم کھیلنے کا موقع ملا۔ آج تو آخری دن تھا اور مقابلے کی تیاری آخری مرحلے میں تھیں۔
شام کو شہر کی گلیوں میں بچوں کا شور ہوتا ہے۔ بہت سے بچے اپنے والدین کے ساتھ سیر سپاٹے کے لیے جاتے ہیں، ہم جولیوں کے سات گروپ کی شکل میں گھومتے نظر آتے ہیں۔
دانش اپنے والد کے ساتھ اگلے روز شہر کے مشہور فانوس ہال میں کمپٹیشن کے لیے پہنچ چکا تھا۔ تقریباً ۴ سو بچے مقابلے میں تھے۔ تحریری امتحان کے بعد شارٹ لسٹ کرکے ۲۰ بچوں کے نام نکالے گئے تھے۔ ان کا ٹسٹ اسٹیج پر پینل لے گا۔ دانش کا نام ۲۰ بچوں میں سب سے اوپر تھا۔
پینل نے چین کے بارے میں پوچھا۔ دانش نے سانس روکے بغیر چین کے بارے میں ساری معلومات پینل کو دے دیں۔ پینل حیرت زدہ تھا کیونکہ کوئی بھی بچہ اتنا زیادہ تیار نہیں تھا۔ آخری سوال کے ساتھ ہی مقابلہ دانش کے نام رہا۔ اول انعام دینے کے لیے دانش اور اس کے والد کو ایک ساتھ بلایا گیا۔ دانش کے ابو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
جیت کی خوشی جتنی والدکو تھی شاید دانش کو نہیں تھی۔ سڑک پر غباروں سے کھیلتے بچے اسے زیادہ خوش قسمت دکھائی دے رہے تھے۔ تبھی ابو نے کہا۔
’’چلو ایک انعام میں بھی دلادوں ۔ بتاؤ کیا لوگے؟‘‘
’’مجھے میرا بچپن اور بچپن کی خوشیاں چاہئیں۔‘‘
دانش نے جواب سوچا لیکن اسے زبان سے بتا نہیں سکا۔ آنسو کے چند قطرے اس کے چہرے پر ڈھلک گئے۔