اسلام اور اس کی تعلیمات اگرچہ مغرب کے حلق سے اترتی نہیں، لیکن بے شمار ایسی حقیقتیں ہیں، جنہیں تسلیم کرنا تو درکنار، نام و نہاد مغربی مفکرین ان کا مذاق بناتے تھے مگر آج چودہ سو برس بعد تسلیم کرلی گئیں۔ فرانسیسی سائنس داں مورس بکائے کی تحریریں ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک حقیقت یہ ہے کہ بچہ مسلمان پیدا ہوتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ ’’ہر بچہ فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ جس طرح جانور صحیح سالم عضو والا بچہ جنتا ہے، کیا تم اس میں سے کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو؟‘‘
شارحین حدیث میں فطرت سے مراد دین اسلام لیتے ہیں، یعنی بچہ اللہ کو ماننے والا پیدا ہوتا ہے اور اس کے فکر و اعتقاد میں شرک و کفر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ مغرب نے اس حقیقت کو کبھی تسلیم نہیں کیا کیوں کہ اسے تسلیم کرنے سے چارلس ڈارون کے فلسفہ ارتقا کی عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے اور خالق کائنات کا انکار ممکن نہیں رہتا۔
جون ۲۰۰۸ء میں دی ٹیلی گراف میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں بتایا گیا ہے کہ اکسفورڈ یونیورسٹی کے Centre for Anthropology and Mind کے ایک سینئر محقق ڈاکٹر جسٹن بیرٹ نے انکشاف کیا ہے کہ نو عمروں کے ذہن میں پہلے سے ہی یقین موجود ہوتا ہے کہ کوئی حاکم مطلق ہستی موجود ہے کیوں کہ ان کے خیال میں دنیا کی ہر چیز کسی مقصد کے تحت پیدا کی گئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بچوں میں یہ یقین موجود ہوتا ہے، چاہے ان کو یہ بات گھر یا اسکول میں نہ بھی بتائی گئی ہو حتی کہ جن بچوں کی پرورش تنہا ایک غیر آباد جزیرے پر ہوئی ہو وہ بھی خدا کو پہچان جائیں گے۔
ڈاکٹر بیرٹ نے بی بی سی ریڈیو چار کے ایک پروگرام میں بتایا کہ گزشتہ دس سے زائد سالوں میں حاصل ہونے والے مستند سائنسی شواہد سے ثابت ہوا ہے کہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ یہ فکر بچوں کے اذہان میں موجود ہوتی ہے جس میں یہ بھی شامل ہے کہ دنیا کسی مقصد کے تحت تخلیق کی گئی ہے اور تخلیق کے پیچھے کسی قسم کی intelegentموجود ہے۔ اگر ہم چند بچوں کو کسی جزیرے پر چھوڑ دیں جہاں وہ خود پرورش پائیں، تو میرے خیال میں وہ خدا پر یقین رکھیں گے۔
ایک تحقیق میں جب چھ سال کے بچوں سے سوال کیا گیا کہ پہلا پرندہ کیوں پیدا کیا گیا تو جواب ملا کہ ’’بہترین موسیقی پیدا کرنے کے لیے ‘‘ اور ’’تاکہ دنیا خوب صورت نظر آئے‘‘ اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ چار سال کی عمر میں ہی بچے جانتے ہیں کہ کچھ چیزیں تو ضرور انسانوں نے بنائی ہیں۔ لیکن فطری دنیا مختلف ہے (یعنی وہ اللہ کی تخلیق ہے)۔ وہ مزید کہتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچے ارتقا کے فلسفے کے بجائے تخلیق کائنات پر زیادہ یقین رکھتے ہیں، چاہے ان کے والدین یا اساتذہ نے انہیں اس بارے میں کچھ بھی بتایا ہو۔
ڈاکٹر بیرٹ کا دعویٰ ہے کہ ماہر بشریات کہتے ہیں کہ کچھ معاشروں میں جہاں مذہبی عقائد کو مخفی رکھا جاتا ہے وہاں بھی بچوں میں خدا کا یقین پایا گیا۔ مضمون کا اختیام ڈاکٹر بیرٹ کی اس تحریر پر ہوتا ہے کہ ’’بچوں کا فطری اور عمومی طور پر نشو و نما پاتا ہوا دماغ ان کو اس طرف راغب کرتا ہے کہ وہ خدائی تخلیق اور اعلیٰ ترین صناعی پر یقین رکھیں۔ اس کے برعکس، نظریہ ارتقا انسانی دماغ کے لیے غیر فطری ہے جس پر یقین کرنا نسبتاً مشکل ہے۔‘‘
ڈاکٹر بیرٹ کی تحقیق ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ ہمارے نبی آخر الزماںؐ چودہ سو برس قبل یہ بتا چکے ہیں کہ بچہ اللہ کو جانتا ہوا پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بیرٹ کی یہ ریسرچ چارلس ڈارون اور اس کے ہم نواؤں کے منہ پر طمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ یہ دنیا کسی کی تخلیق نہیں بلکہ خود بخود وجود میں آگئی ہے۔ انسان بندر تھا اور ارتقائی منازل طے کرتا ہوا انسان کی شکل میں پہنچا ہے۔ ڈاکٹر بیرٹ نے اس موضوع پر کئی کتابیں لکھیں ان میںThe Sceince of Childerns religious belief اور Born Believers جو دنیا میں ان کی شہرت کا باعث بنیں۔ سیکولر اور لادین لابی کی طرف ان کی اس تحقیق پر شدید تنقید ہوئی ہے۔