بچہ کھانا کیوں نہیں کھاتا؟

ڈاکٹر نازنین سعادت

اکثر مائیں شکایت کرتی ہیں کہ بچہ کھا تا نہیں ہے حالانکہ اس نے اپنی عمر کے دوسال مکمل کرلیے ہیں ۔ بچہ مستقل طور پرہی کھانے سے گریز کرے تو اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ماں اسے کھلانے کے لیے صحیح طریقہ اختیار نہیں کررہی ہے یا وہ بچہ کی نفسیات سمجھنے سے قاصر ہے یا یہ کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی پسند کا کھانا بچے کو کھلانے پر مصر ہے۔ اس معاملہ میں جہاں ماں کی لاپرواہی مناسب نہیں وہیں ماں کی ضرورت سے زیادہ فکر مندی بھی ٹھیک نہیں۔ ماں کا رویہ متوازن ہوتو بچے کے لیے کھانا ایک پسندیدہ کام ہو سکتا ہے ۔ عارضی طور پر بچہ کھانے سے گریز کررہا ہے تو ممکن ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہ ہو، اسے بھوک نہ لگی ہو ایسے میں بچے پر زبردستی اس کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

بچہ کے کھانا نہ کھانے کے اسباب

بچے کے کھانا نہ کھانے کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ دوسری چیزوں کی بھوک ممکن ہے محض اس وجہ سے محسوس نہ ہو رہی ہو کہ بچہ دودھ کافی مقدار میں پی لیتا ہو۔دودھ کی مقدار کم کرنے اور بغیر چینی والا یا بہت کم چینی دودھ دینے سے دوسری چیزوں کی اشتہا پیدا ہوگی۔

کھانے سے پہلے ٹافیاں ، بسکٹ، چیونگم وغیرہ بھی بھوک خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اشیاء نہ صرف دانتوں کو خراب کرتی ہیں بلکہ بچے کو غذا کے ضروری اجزاء سے بھی محروم رکھتی ہیں۔

بالعموم بچوں کو میٹھی چیزیں ہی مرغوب ہوتی ہیں وہ پھیکی غذا، سبزیاں وغیرہ کھانے سے انکار کرتے ہیں۔ ڈیڑھ دوسال کا بچہ جب پہلی پہلی بار بڑوں کی طرح سبزیاں وغیرہ کھائیگا تو اسے مشکل ضرور پیش آئے گی ۔ ان تمام چیزوں کا عادی بننے کے لیے اسے کچھ وقت درکار ہوگا وہ ایک دفعہ انکار کریگا دوسری دفعہ کریگا لیکن آپ صبر سے اسے پیش کرتی رہیں تو شاید دسویں دفعہ اسے قبول کرلے ۔

کھانا نہ کھانے کی شکایت کا جائزہ بچے کے وزن یا جسمانی حالت سے لیا جاسکتا ہے ۔ اگر اس کا وزن عمر کے مطابق نہیں بڑھ رہا ہے یا وہ دوسرے بچوں سے پیچھے رہتا ہے تو پھر واقعی فکر کی بات ہے۔

لیکن وزن ٹھیک سے بڑھ رہا ہو اور اس کی عمومی صحت بھی ٹھیک ہوتو پھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ایک سال سے تین سال کی عمر کے بچوں کے تعلق سے معالجین کی یہ رائے ہے کہ نشونما کے اس دور میں بچوں کا کھانے سے گریز کرنا نارمل بات ہے ۔ اس عمر میں بچہ کوجو کھانا بھی پیش کیا جائے وہ اسے ناپسند کرتا ہے یا اگر کھائے تو صرف ایک ہی قسم کی غذا ہر دن کھانا چاہتا ہے۔

یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اپنی پیدائش کے ایک سال بعد بچے کی افزائش کسی قدر کم ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ فی کلو گرام وزن پر کیلو ریز کی ضرورت بھی کم ہو جاتی ہے ۔ اسی لیے عمر کے اس دور میں یعنی ایک سال بعد بچہ کاکھانا کم ہو جاتا ہے ۔ لیکن ہر ماں جسم کی اس تبدیلی کو نہیں جانتی اس لیے چاہتی ہے کہ بچے کی غذا کی مقدار بھی عمر کے ساتھ بڑھے۔ ایک بچہ اپنی پہلی سال گرہ پر اپنے پیدا ئشی وزن کے تین گنابڑھتا ہے(یعنی تین کلو سے نوکلو) اور اسی بچے کو اپنے ایک سال کے وزن کو ڈبل کرنے میں مزید پانچ سال درکار ہوتے ہیں جن بچوں کا وزن اوسط سے کم ہو ڈاکٹر انھیں وٹامنس، پروٹینس اور منرلس سے بھر پور ادویات یاسپلمینٹس دیتے ہیں۔

ایک ماہرتغذیہ(ڈائٹیشین)کا کہنا ہے کہ جب والدین ان کے پاس یہ شکایت لے کر آتے ہیں کہ ان کا بچہ ٹھیک سے کھانا نہیں کھاتا تو وہ بچے کی صحت دیکھتے ہیں اگر وہ ٹھیک ہے تو ان کے مطابق یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے یہ عمر کا ایک نارمل دور ہے بھوک لگنے پر وہ خود کھائے گا۔

کچھ عملی تدابیر

(۱) خود سے کھانے کا موقع دیں:

ریسرچ یہ کہتی ہے کہ تقریباً ہر بچہ پھیکی غذا یعنی جس میں مٹھاس نہ ہو ، کھانے سے انکار کرتا ہے لیکن ہر وقت میٹھی غذا نہیں دی جاسکتی ۔اس کا حل یہ ہے کہ اسے کھانا اپنے ہاتھوں سے کھانے کی ترغیب دی جائے وہ ضرور کھائے گا کیونکہ یہ وہ عمر ہوتی ہے جس میں بچہ ہر چیز میں ’’ماہر‘‘ ہونا چاہتا ہے ہر نئی چیز سیکھنا چاہتا ہے ۔ مائیں جب یہ دیکھتی ہیں کہ وہ کھاتا کم ہے بکھیرتا زیادہ ہے تو وہ اسے خود کھانے نہیں دیتیں ۔ یہاں صبر سے کام بہت ضروری ہے۔ آپ اسے اپنے ہاتھوں سے کھانے دیں۔ اس کا حوصلہ بڑھائیں اور یہی وہ بہترین وقت ہوتا ہے جب آپ اسے ایک اور نئی ڈش سے متعارف کرا سکتی ہیں۔

بچہ کہتا ہے کہ ’’ میں نہیںکھائوں گا‘‘ماہرین تغذیہ کا اس سلسلہ میں خیال یہ ہے کہ ایسا کہہ کر بچہ اپنا کنٹرول آزماتا ہے ۔ ماں کی کوشش چونکہ یہ ہوتی ہے کہ زبردستی کھلائے اور بچہ پر زور طریقہ سے انکار کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کھانے کے اوقات ، کو میدان ِجنگ میں تبدیل نہ کیا جائے بلکہ دوستانہ ماحول پیدا کرتے ہوئے کھانا پیش کیا جائے۔ جب آپ دسترخوان چن رہی ہوں تو اس سے باتیں کریں۔پکائی ہوئی ڈشوں سے اسے متعارف کرائیں ۔آپ خود اس کا اثر دیکھیں گی ۔زور زبردستی سے کھلائی جانے والی چیزیں بچے کے اندر مستقل ناپسندیدگی پیدا کرسکتی ہیں۔

آپ کھانا بنانے کے دوران یا کھانے کے دوران بچہ کی رائے پوچھیے کہ آیا وہ آملیٹ کھائے گا یاابلا ہوا انڈا۔ یا وہ آم کھائیگا یا سیب ۔ چپاتی کھائے گا یا چاول۔ اسے اپنی اہمیت کا احساس ہوگا وہ رائے دیگا اور اس پر کچھ عمل بھی کریگا۔

اپنے بچہ کے ساتھ کچھ معاہدے طے کر لیجیے۔ مثال کے طور پر اگر اس کی پلیٹ میں آلو کے پانچ قتلے ہوں تو اس سے پوچھیے کہ کتنے کھائے گا اگر وہ کہے کہ تین، تو اس کی بات خوش دلی سے مان لیجیے۔ آپ ضرور دیکھیں گی کہ وہ دھیرے دھیرے نہ کھانے کی ضد چھوڑ رہا ہے ۔

(۲)دستر خوان پر ساتھ بٹھائیں

جب سب افراد خانہ دستر خوان پر بیٹھیں تو بچے کو بھی ساتھ بٹھایا جائے۔ کھانا کھانے کا وقت پوری فیملی کے لیے ایک بہت اچھا وقت ہوتا ہے اس وقت بچوں کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ بھی ڈائیننگ ٹیبل یا دسترخوان پر سب کے ساتھ بیٹھیں ۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ بچہ کو پہلے یا بعد میںکھلا کر پھر کسی کے حوالے کر دیا جائے اوراسے دستر خوان سے دور رکھا جائے تاکہ باقی افراد اطمینان سے کھانا کھالیں۔ اس صورت میں ماں اور دیگر افراد تو اطمینان سے کھانا کھالیں گے لیکن بچے کے ذہن پر اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ممکن ہے اسے بعد میں بھی دستر خوان پر بیٹھنا اچھا نہ لگے۔ رد عمل کے طور پر وہ اپنی من مانی کرنا شروع کردے ، مختلف کھانوں کے بارے میں مختلف رائے رکھے یا کسی کو پسند او ر کسی کو نا پسند کرنے لگے ۔ کھانے پینے اور دیگر معاشرتی آداب سکھانے کے لیے بھی دسترخوان ایک اچھی اور موزوں جگہ ہے ۔

(۳)بچے کی پسند کا لحاظ کریں

بچہ کا اپنا ایک ذوق ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ ایک ہی چیز روزانہ کھانا پسند کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بچہ اڈلی کھانا پسند کرتا ہے اور وہ روزانہ یہی چیز کھانا پسند کریگا۔ بہت سارے بچے چٹپٹی چیزیں یا گوشت یا انڈے روزانہ کھانا پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے والدین میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ گرم مزاج رکھنے والی غذا ہے اور یہ بچے کے لیے نقصاندہ ہے۔ یا پھر کوئی بچہ تقریباً ہر دن پھلوں میں نارنگی یا کیلا کھانا پسند کریگا۔ پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے بچے کو سردی ہو جائے گی۔ ماہرین اس معاملے میں یہ کہتے ہیںکہ بچہ جن چیزوں میں رغبت رکھتا ہے اسے وہ چیز یں دینی چاہئیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ابھی ابھی کھانا سیکھا ہے اور وہ خوشی خوشی اور شوق سے کھائے گا تو صحت پر اس کا اثر اچھا پڑیگا اور دوسرے یہ کہ بچہ بھی ایک ہی چیز روزانہ کئی دنوں تک نہیں کھاپائے گا وہ خود ہی اپنی پسند بدل دیگا کیونکہ اس کے ذائقہ پہنچاننے والے غدود بھی تبدیلی چاہیں گے ۔ اسی طرح کوئی بچہ مسلسل بریڈ جیم کھاتے کھاتے خود ہی اکتا جائیگا۔ ہاں اگر جو چیز وہ روزانہ کھاتا ہے وہ بہت تھوڑی مقدار میں کھاتا ہے اور وزن بھی نہیںبڑھتا ہے اور جملہ صحت بھی ٹھیک نہ ہوتو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

یہ بات غور طلب ہے کہ شاید ہر ماں یہ نہیں جانتی کہ اپنے بچے کو کھانا کھلاتے وقت اس کے اپنے جذبات کا بھی بڑا اثر بچے پر پڑتا ہے ۔ مثال کے طور پر بچہ مزید کھانے سے انکار کرتا ہے تو ماں یہ کہہ کر مزید چمچہ چاول کھلاتی ہے کہ ’’تم اپنی امی سے بہت محبت کرتے ہو اس لیے یہ چمچہ چاول ضرور کھائو گے۔‘‘اس طرح کہہ کر ماں ایک غلط سگنل پیش کرتی ہے۔ بچے کی مرضی بالکل مزید کھانے کی نہیں ہوتی مگر اپنی امی کی محبت میں اسے کھانا ضروری ہو جاتا ہے اور اس طرح اسے کھانے سے ایک قسم کی نفرت ہو جاتی ہے۔ بچے کو کھانا کھلانا بھی ایک فن ہے ۔ اس فن میں اہم بات ماں کا تحمل اور بشاشت ہے۔ کھانے کو بچے کے لیے دلچسپ اور خوشگوار کام بنانا بہت ضروری ہے۔ مائوں کی معمولی سی بے صبری یا غصہ بچے کے ذہن پر بعض اوقات بڑے ناخوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے ۔یہ اثرات ساری زندگی اپنا اثر دکھاتے ہیں۔

آپ کے بچے کی اپنی پسند اور ناپسند ہوتی ہے اگر آپ یہ چاہیں گی کہ وہ آپ کی پسند کے مطابق کھائے تو یہ ناممکن ہے ۔ بچے اکثر کھانوں میں استعمال ہونے والی مخصوص چیزوں کی بوناپسند کرتے ہیں مثلاً پودینہ ، تھمیر وغیرہ ۔ کو ئی بھی نئی ڈش اسے تھوڑی مقدار میں دیں نئی چیز کھانا اس کے لیے کافی مشکل ہوتا ہے ۔ ایک دودن کے وقفہ سے پھر وہی ڈش اسے پیش کرتی رہیں وہ عادی ہو جائیگا پھر ضرور وہ غذائیت سے بھر پور ڈشیں بھی کھائیگا ۔ آپ مختلف قسم کی سبزیاں یا کونپل والی دالیں ، گوشت وغیرہ کھلانا چاہتی ہیں اور وہ کھانے سے انکار کرتا ہے تو آ پ یہ کریں کہ یہ چیزیںاس کی پسند کے برتن میں پیش کریں ۔کھانے کے برتنوں کے معاملے میں بھی بچے کافی حساس ہوتے ہیں آج کل بازار میںبچوں کے چھوٹے چھوٹے اور خوبصورت برتن ملتے ہیں ان میں کھانا بچوں کو اچھا لگتا ہے۔ سب سے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ پکوان کے دوران بچے کو اپنے ساتھ رکھیں اور اسے یہ باور کرائیں کہ یہ ڈش اس نے خود بنائی ہے ،وہ ضرور کھائیگا۔

Toddlers یا دوسال کی عمر کے بچے فینگر فوڈ پسند کرتے ہیں۔ ابال کرتلی ہوئی سبزیاں یا پھل وغیرہ لمبی لمبی کاٹ کر کھانے کے لیے دیں۔ بچوں کو مٹھائی ، کولا، چپس ، جیلی یا اور دیگر غذائوں کے بجائے دودھ، سوپ اور تازہ پھلوں سے بنا جوس دینا چاہیے یہ چیزیں وٹامن سے بھر پور ہوتی ہیں لیکن جوس اور دودھ میںشکر نہیں ملانی چاہیے کیونکہ پھلوں میں اور دودھ میں قدرتی شکر پائی جاتی ہے۔ بازاری مشروبات پوری طرح غذائیت سے خالی ہوتے ہیں لیکن پوری طرح اس پر پابندی لگانے کے بجائے کسی خاص موقع پر دیاجاسکتا ہے لیکن مختصر مقدار میں دیا جائے۔

(۴)کئی اوقات میں کھلائیں

بڑوں کی طرح بچے کبھی بھی ضابطے کے مطابق یا مستقل مقدار میں نہیں کھا سکتے خاص طو رپر ایک سال سے تین سال کی عمر کے بچے تو بالکل بھی نہیں ۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو ان میں کیلو ریز کا تناسب روزانہ تقریباً برابر ہی ہوگا ۔ بچے خو دبھی بھوکا رہنا پسند نہیں کرتے اس کا اظہار وہ چڑ چڑے پن سے کرتے ہیں یا جن بچوں کو دودھ پینے کی عادت ہوتی ہے وہ صرف دودھ سے اپنا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں بڑھتی عمر کے ساتھ صرف دودھ ناکافی ہوجاتا ہے ۔ دوسال کی عمر کے بچے بڑوں کے مقابلے میں ۴؍۱ کھانا کھاتے ہیں اس لیے انھیں دن میں ۵ سے ۶ وقت کھانا کھلانا چاہیے ۔ ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ بچوں کے کھانے پر پریشان ہونے کے بجائے ایک ہفتہ واری ٹائم ٹیبل بنانا چاہیے کہ اس نے کس دن کتنا کھایا اگر بچہ تندرست اور چست ہے تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گی کہ اس کی غذا اوسط ہے۔ جب دستر خوان بچھا ہوا ہو اور افرادِ خاندان کھانا کھا رہے ہوں تو بچے صرف پلیٹ ، چمچوں اور غذا سے کھیلتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہر دوکھانوں کے درمیان انھیں کچھ اسنیکس بھی دیئے جائیں۔ بشرطیکہ وہ اسنیکس غذائیت سے بھر پور ہوں اور گھر میں بنے ہوں۔

بچے کی غذا کے اجزاء

بچے کی غذا درج ذیل اہم اجزا یا فوڈ گروپس پرمحیط ہونی چاہیئے۔

(۱) نشاستہ دار غذائیں: گیہوں ، چاول دالیں

(۲) پروٹین والی غذائیں : انڈا ، گوشت ، مچھلی ، مرغی

(۳)حیاتین اور نمکیات : سبزیاں، پھل ، گہرے سبز رنگ کی پتوں والی سبزیاں،

(۴) قوت بخش غذائیں : دودھ ، دہی ، پنیر، مکھن ، گھی وغیرہ

اس طرح دودھ پر پوری طرح منحصر نہیں ہو ا جاسکتا۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ بچہ اپنے کھانے سے پروٹین،چربی، کاربوہائیڈریٹ، وٹامن اور نمکیات وغیرہ مناسب مقدار میںحاصل کرے۔

اگر بچہ سبزی ترکاری کے بجائے صرف پھل پسند کرتا ہے تو کوئی بات نہیں ۔ پھل اور ترکاریاں غذائیت کے لحاظ سے یکساں ہیں لیکن ترکاری کا نعم البدل پھلوں کا جوس نہیں ہے ۔کیونکہ جوس میں ریشہ (فائبر) نہیں ہوتا اور شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

بچے اگر ترکاری کھانا پسندنہیں کرتے تو ایک طریقہ یہ ہے کہ سبزیوں، پالک، میتھی وغیرہ کوآٹے کے ساتھ گوندھ لیں اور روٹی بنا کر دیں یا گول شکل کی ہی روٹی بنانے کے بجائے روٹی کو الگ الگ شکلیں دی جاسکتی ہیں۔ بچے مختلف شکل کی روٹی پسند کرتے ہیں ۔ ٹماٹر ساس، فروٹ جیم انھیں بہت پسند ہوتا ہے وہ اس پر پھیلا کر دیں یا یہ کام خود ان سے کرائیں۔ آپ دیکھیں گی کہ آپ کی محنت رنگ لائی ہے۔

صرف کھلانا مقصود نہیں سکھانا بھی مقصود ہے

آپ صرف یہ مت دیکھیے کہ تمام وقت آپ بچے کو جو کھلاتی ہیں وہ صحت کے لحاظ سے کتنا بہتر ہے بلکہ اس عمر کے بچے آزادانہ طور پر کھانا سیکھتے ہیں۔ اس عمل میں آپ ان کی بہت محبت سے مدد کیجیے۔ کھانے کے اوقات کو صرف اس مقصد تک محدود مت رکھیے کہ غذا ئیت سے بھرپور خوراک کھلائی جائے بلکہ بچے کا کھانے کی سمت رجحان بڑھائیے اور ابتدا ہی سے کھانے کے مسنون طریقے اسلامی آداب سکھائیے اس میں بہترین عادات پیدا کیجیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں