تاریخ شاہد ہے کہ والدین کی جتنی خدمت اور اطاعت گزاری بچیاں کرتی ہیں، بچے اتنی نہیں کرسکتے۔ مگر نہ جانے کیوں آج بھی ہمارے معاشرے میں (استثنیٰ کے ساتھ) بچیوں کو ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے اور ان کی پیدائش کو بعض لوگ غم سے منسوب کر ڈالتے ہیں۔ عورت زمانہ قدیم کے جاہلانہ دور سے لے کر آج کے ترقی یافتہ دور تک ہمیشہ مظلوم رہی ہے اور حقیقت میں آج بھی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن کی خبروں کا جائزہ لیجیے۔ خبروں کا ایک خاصا حصہ عورتوں پر مظالم اور ان کے ساتھ ہو رہی ناانصافیوں پر مبنی ہوتا ہے۔ وجہ صاف ہے معاشرہ میں فساد، بداخلاقی اور عریانیت عام ہے، انسان نے حیوانیت اختیار کرلی ہے اور خدا اور اس کی پکڑ سے بالکل غافل ہے۔ دین و اخلاق نام کی چیز باقی نہیں رہی۔
ایسے ماحول میں لڑکیوں کے تربیت کے دو پہلو خاص ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ایسا اچھا فرد بنایا جائے کہ وہ معاشرہ میں اچھائیوں کے فروغ کا ذریعہ اور ایسی نسل کی تیاری کر سکیں جو دنیا کو راستہ دکھائے۔ اور دوسرا پہلو خود اس ماحول میں ان کے تحفظ اور عصمت و وقار کی حفاظت کا ہے کہ وہ اس برائی کے ماحول میں محفوظ اور مامون زندگی گزار سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیٹیاں اللہ کا خاص انعام ہوتی ہیں، جن کے دم سے گھر میں رونق ہوتی ہے۔ والدین بچیوں کی تربیت میں اگر درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھیں تو یہ خوب صورت ہستیاں احساسِ محرومی سے بے نیاز ہوکر اسلام کے بتائے ہوئے طریقے پر کاربند ہوکر دنیاو آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکتی ہیں اور ان کا اعلیٰ کردار یقینی طور پر جہاں والدین کے لیے سرخ روئی کا سبب بن سکتا ہے وہیں بچیوں کی پیدائش پر افسردہ ہونے والے والدین کے لیے ذہنی اطمینان کا ذریعہ بھی۔
٭ بچیوں کی پرورش کرتے ہوئے شروع دن سے ان کی عادات و اطوار پر خصوصی توجہ دی جانی ضروری ہے۔ بچپن سے ہی بچیوں کو مکمل لباس پہننے، گھر میں رہنے اور گھر کے معمولات میں والدین کا ہاتھ بٹانے کی تربیت دی جائے۔ ان کے لیے کھیلنے کودنے کے لیے گھر کی چار دیواری کے اندر انتظام موجود ہو۔ بچیاں صرف اپنی ہم عمر بچیوں کے ساتھ کھیلیں کودیں اور بچپن سے ہی انہیں تربیت دی جائے کہ لڑکوں کے ساتھ ان کا ہاتھ ملانا، ساتھ مل کر بیٹھنا اور کھیلنا کودنا درست نہیں۔ بچیوں کی تربیت کرتے ہوئے ماؤں کو خاص طور پر انہیں مستقبل کی اچھی بیویاں اور مائیں بنانے کا ہدف ذہن میں رکھنا چاہیے۔
٭ بچیوں کی تعلیم بہرحال بچوں کی تعلیم جتنی ہی اہم ہے۔ اسی لیے تو نپولین نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا۔‘‘ بچیوں کو تعلیم لازمی دلوائی جائے، البتہ ادارے کا انتخاب کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھا جائے کہ ان کی تربیت ایک مسلم عورت کے طور پر ہوسکے۔ مائیں بچیوں کو ازدواجی زندگی کامیاب بنا سکنے کے لیے انہیں کھانا پکانے، گھر کو سنبھالنے، اچھی بیوی اور ماں بننے غرض ہر طرح کی صورت حال میں خود کو ڈھالنے کے حوالے سے تربیت دیں۔ چوں کہ ہر لڑکی شادی کے بعد کسی دوسرے گھر میں ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے، اس لیے ان کی تربیت کرتے ہوئے انہیں سسرال کے ماحول کو اپنانے، اس خاندان کی روایات، طریقہ کار اور پسند ناپسند کے مطابق خود کو ڈھالنے اور سسرال کی خوشی اور غم کو اپنا بنا لینے کی تربیت شامل ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ لڑکی دونوں خاندانوں کے مضبوط تعلقات کا سبب بن سکے اور اس کی وجہ سے رنجش اور اختلاف پیدا نہ ہو۔
٭ عزت وعصمت کی حفاظت کرنا ہر لڑکی کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ بچیوں کو اپنی آواز دھیمی رکھنے، ستر ڈھانپنے، سلیقے سے چلنے پھرنے اور ایک باعزت اور باکردار خاتون بننے کی تربیت دینا والدین بالخصوص ماؤں کی ذمہ داری ہے۔ بچیوں کو محرم اور نامحرم کا تصور دیں اور غیر محرموں سے مناسب فاصلے پر رہنے کی تربیت بھی کریں۔ بچیوں کو اعتماد دیں کہ کوئی اجنبی شخص ان سے کوئی بھی بات کرے تو وہ گھر آکر ضرور بتائیں۔ اسکول میں، محلے میں یا کسی بھی جگہ پر کسی انہونی بات کو ضرور بتائیں۔ گھر میں ٹی وی، موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ پر دیکھی جانے والی سائٹس کی بھی نگرانی کریں۔ بچیوں کو گھر سنبھالنے، شوہر کی اطاعت گزار بننے، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے اور شاکر رہنے کی تربیت دی جائے۔ اس کے علاوہ کن کاموں کے لیے لڑکیاں گھر سے نکل سکتی ہیں؟ کیا کام کرسکتی ہیں؟ لوگوں سے میل جول کس حد تک رکھ سکتی ہیں؟ اس حوالے سے مناسب رہ نمائی والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔
٭ بچیوں کو بالخصوص اسلامی تہذیب سے جوڑنا اور اپنے مشاہیر کے طرزِ عمل کو اپنانا ضروری ہے۔ ہر مسلم بچی کی آئیڈیل امہات المومنین و صحابیاتؓ ہونی چاہیں تاکہ یورپ کی نام نہاد کھوکھلی ترقی کی بنا پر تیار کی گئی کوئی عورت ان کی رول ماڈل نہ بن سکے۔ اس سلسلے میں جہاں بچیوں کو ترغیبات کی نشان دہی کرنا ضروری ہے وہیں انہیں مغربی اور سیکولر معاشرے کے اصل چہرے سے روشناس کروانا بھی ضروری ہے کہ جس میں عورت کو ایک اشتہار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، ہر پروڈکٹ کو عورت کی تصویر کے ساتھ متعارف کروایا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں عورت کو صرف اور صرف سامان عیاشی بنانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ دونوں تہذیبوں کے تقابلی جائزہ سے ہی یہ ممکن ہے کہ ہماری بچیاں تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر اپنے لیے بہتر راہیں متعین کرسکیں۔lll