جیسے جیسے لڑکیوں میں تعلیم عام ہوتی جارہی ہے گھرداری سیکھنے کا شوق کم ہوتا جارہا ہے۔ لڑکیاں تو لڑکیاں خود ماؤں کی ذہنیتوں میں بھی فرق آگیا ہے اور اب بے شمار مائیں ایسی ملتی ہیں جو فخر سے کہتی ہیں کہ ہم تو بچیوں کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتے۔ حالانکہ یہ قطعی فخر کی بات نہیں۔
پڑھی لکھی لڑکیوں کے معاملے میں اب یہ خود بخود ہی سمجھ لیا جاتا ہے کہ انھیں گھرداری کے ہنر نہیں آتے ہوں گے۔ چنانچہ اگر خال خال کوئی ایسی لڑکی مل جائے جو تعلیم یافتہ بھی ہو اور امور خانہ داری سے بھی پوری واقفیت رکھتی ہو تو اسے ایک اچنبھے کی بات اور غیر معمولی طور پر قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔ قابل تعریف تو یہ بات یقینا ہے مگر اسے اچنبھے کی بات نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کیوںکہ ہر لڑکی تعلیم یافتہ ہونے سے پہلے عورت ہے اور عورتوں کے ہنر اسے لازماً آنے ہی چاہئیں۔
تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں سے گھروں کے کام نہ لینے کے لیے سب سے بڑا عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انھیں وقت نہیں ملتا اور یہ کہ گھروں کے کام کرنے سے ان کی تعلیم میں حرج واقع ہوتا ہے۔ اس عذر کو بالکل عذر لنگ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ واقعی آج کل اسکولوں اور کالجوں میں وقت زیادہ گزارنا پڑتا ہے اور مضامین اتنے تیار کرنے ہوتے ہیں کہ ایک حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ وقت نہیں ملتا۔ مگر دوسری طرف ایک اوربات بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ یہ کہ یہی ’’مصروف‘‘ لڑکیاں جب گپیں ہانکنے بیٹھتی ہیں تو گھنٹوں پر گھنٹے ضائع کرتی چلی جاتی ہیں۔ اور ان میں سے ایک جماعت اپنی آرائش، زیبائش اور سیروتفریح پر بے پناہ وقت صرف کردیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان جس کام کو ضروری سمجھتا ہے اس کے لیے وقت نکال ہی لیتا ہے۔ لڑکیوں کے گھر کے کاموں میں حصہ لینے کو اگر اتنا ہی ضروری سمجھا جائے جتنا ضروری یہ درحقیقت ہے تو اس کے لیے بھی وقت نکل ہی آئے۔ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے طور طریقے بھی کسی حد تک بدلنے ہی پڑتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں سے یہ توقع تو واقعی نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ گھروں کے سب کام کریں۔ کیوں کہ انھیں اپنی تعلیم پر بھی وقت صرف کرنا ہوتا ہے۔ مگر انھیں گھر کے کاموں سے کھلی چھٹی دے دینا جیسے کہ بہت سے گھروں کا دستور ہوگیا ہے درحقیقت ان سے بدخواہی ہے۔ بغیر کسی قسم کی ٹریننگ کے جب وہ ایک گھر کی ذمہ دار بنادی جاتی ہیں تو خود انہی کو تکلیفوں اور الجھنوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور یہ الجھنیں بعض اوقات ان کی ازدواجی زندگی کو بھی خراب کرکے رکھ دیتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ گھر داری کے کام مثلاً کھانا پکانا، سینا پرونا، صفائی ستھرائی رکھنا، آمدو خرچ کا حساب رکھنا وغیرہ ایسے کام ہیں جنھیں سیکھنے کے لیے برسوں کی نہیں صرف مہینوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے پڑھنے والی لڑکیاں اگر روزانہ زندگی میں سے تھوڑا سا وقت بھی باقاعدگی سے اس طرف دیتی ہیں تو وہ سترہ اٹھارہ برس کی عمر تک ہی بخوبی سب کام سیکھ سکتی ہیں۔ ناشتہ، کھانا وغیرہ تیار کرنے میں ماں کو کچھ مدد دے دی، چھوٹے بہن بھائیوں کی تیمارداری کرنے، انھیں تیار کرکے اسکول بھیجنے پر کچھ وقت صرف کرلیا، فرصت کے اوقات میں گھر والوں کے کچھ کپڑے سی لیے، مائیں آمدو خرچ کا جس طرح حساب رکھتی ہوں اس کی طرف ذرا دھیان رکھا کہ کس طرح رکھتی ہیں۔ مہمانوں وغیرہ کے آنے پر خاص قسم کے کھانے پکتے ہوں تو نگاہ رکھی کہ کیسے پکائے جاتے ہیں۔ اسی طرح روز تھوڑا تھوڑا دھیان رکھنے سے بہت کچھ آجاتا ہے۔ اور تعلیم کا بھی کچھ حرج نہیں ہوتا بہت پڑھنے والی لڑکیوں کے لیے تو بلکہ گھر کے کام کسی حد تک تفریح کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ عموماً امتحان ختم ہونے کے بعد چھٹیاں ہوتی ہیں، ان چھٹیوں کو امور خانہ داری سیکھنے اور ماؤں کو کچھ آرام دینے پر صرف کیا جاسکتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو دو سہولتیں ایسی حاصل ہوتی ہیں جو غیر تعلیم یافتہ لڑکیوں کو نہیں ہوتیں۔ ایک تو یہ کہ دماغ کو صرف کرتے رہنے کے باعث ان کے ذہن منجھ چکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ امور خانہ داری کو سیکھنے کی طرف توجہ دیتی ہیں تو وہ ہر بات کوبہت جلد سمجھ لیتی ہیں اور ہر کام جلدی سیکھ لیتی ہیں۔ دوسرے وہ امور خانہ داری پر لکھے ہوئے ان رسالوں اور کتابوں سے بہت مدد حاصل کرسکتی ہیں جومختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں۔ یہ ماننا پڑے گا کہ تعلیم یافتہ لڑکیاں اگر گھر داری کے امور کی طرف توجہ دیں تو وہ غیر تعلیم یافتہ لڑکیوں سے بہت بہتر گھر دار ثابت ہوسکتی ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ان میں بہت کم ہیں جو ان ضروری امور کی طرف واقعی توجہ دیتی ہوں۔
گھر کی بیگم اگر خود کچھ نہ جانتی ہو تو وہ نوکروں کی محتاج ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر جس بیگم کو خود امور خانہ داری سے واقفیت نہ ہو وہ نوکروں سے ٹھیک کام بھی نہیں لے سکتی۔ کیونکہ نوکروں کو جب بیگم کی اس کمزوری کا علم ہوجائے تو پھروہ بھی اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے۔ پھر ایسے گھروں میں عموماً اخراجات بھی بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہر کام کے لیے نوکروں ہی کی ضرورت پڑتی ہو اور ہر کپڑے کے لیے درزی ہی کے پاس جانا ہو تو اخراجات تو خواہ مخواہ بڑھیں گے ہی۔ اس صورت حال کا ایک اور پہلو بھی بہت قابل غور ہے۔ جب خواتین کو گھر کے کام نہیں آتیتو انھیں عموماً گھروں میں اس طرح دلچسپی نہیں پیدا نہیں ہوتی جس طرح ان گھر والیوں کو ہوتی ہے جو امور خانہ داری میں ماہر ہوں۔ وہ اپنی مہارت تجربے اور دلچسپی کے باعث گھروں میں ہزار قسم کی اصلاحات کرتی اور انھیں بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس جہاں گھر کے کام آتے ہی نہ ہوں وہاں ان کاموں میں دلچسپی پیدا ہونا بھی مشکل ہے۔
یہ کبھی بھی ضروری نہیں ہوتا کہ گھر والی خاتون سب کام اپنے ہاتھوںانجام دے۔ جسے خدا نے دے رکھا ہو وہ بے شک نوکر رکھے اور ان سے کام کرائے، اور خود نگرانی اور بندوبست کرے مگر اسے سب کام آنے ضرور چاہئیں۔ کیونکہ نوکروں سے ٹھیک کام اسی صورت میں کروایا جاسکتا ہے جب نوکروں کو اچھی طرح پتہ ہو کہ غلط کام کریں گے تو وہ غلطی بیگم کی نگاہوں سے کبھی چھپ نہیں سکے گی۔