بچے اور الجھنیں

نکہت مقبول صدیقی

اکثر والدین کو شکایت رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو در پیش مسائل سے بے خبر رہتے ہیں۔ بچے ہمیں اپنے مسائل سے آگاہ نہیں کرتے ہیں اور جب ہمیں اپنی اولاد کے مسائل کا علم ہوتا ہے، تب تک پانی سر سے اونچا ہوچکا ہوتا ہے۔

آج اگر ہم دیکھیں تو ضروریات پوری کرنے کے لیے ماں اور باپ، دونوں ہی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے انہیں اس بات کا وقت ہی نہیں مل پاتا ہے کہ وہ اپنے بچے پر کم از کم اتنی توجہ تو دے لیں کہ اس کے من کے اندر بہ آسانی جھانک سکیں۔ جو والدین بچوں کو در پیش مسائل سے آگاہ نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ بچوں سے یہ امید رکھنا قطعا فضول ہے کہ وہ آپ سے اپنا مسئلہ بیان کریں گے بلکہ والدین کو خود اتنا اولاد شناس ہونا چاہیے کہ اولاد کے رویوں کے ذریعے اس کے اندر جھانک کر اسے در پیش مسئلہ معلوم کرسکیں۔ اکثر کمسن بچے بعض اوقات خود کو ایسے مسائل سے دو چار پاتے ہیں، جو ان کے لیے تشویش کا سبب بن جاتا ہے لیکن وہ اسے والدین کے سامنے بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ہ جب بچہ ہی والدین سے اپنا مسئلہ بیان نہ کرسکتا ہو تو پھر کسی دوسرے سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ آپ کے بچے کے مسئلے کو جان کر اس کا حل بھی بتا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ جب بچے پریشان ہوتے ہیں یا کسی بات کو مسئلہ سمجھنے لگتے ہیں تو اس سے ان کے رویوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ وہ خاموشی اختیار کرسکتے ہیں، طبیعت میں غصیلاپن آسکتا ہے یا پھر نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوکر تنہائی پسند ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر والدین بچے کی طبیعت شناس ہوں تو پھر وہ اس تبدیلی کو محسوس کرکے بچے کو اس ’’سحر‘‘ سے نکال لیتے ہیں، لیکن اگر انہیں بچے کے مزاج کے بارے میں کسی قسم کی آگہی نہ ہو تو پھر یہ بات بچے کے مستقبل کے لیے خطرہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

اکثر چھوٹے بچے جو اسکول جانا شروع کرتے ہیں، ان کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ماں باپ سے سوالات بہت کرتے ہیں لیکن ایسے ماں اور باپ جو کہ دن بھر کام کاج میں گزار کر گھر پہنچے ہوں، ذہنی طور پر خود کو اتنا تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لیے بچے کے یہ سوالات مزید تھکن کا سبب بننے لگتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب بچے ماں کا رخ کرتے ہیں تو وہ گھر کے کام کاج کو نمٹانے کی جلدی میں انہیں باپ کے پاس بھیج دیتی ہے اور باپ انہیں ٹی وی دیکھنے یا کھیلنے کودنے کا کہہ کر بستر پر آنکھیں موند کر لیٹ جاتا ہے۔

اس طرح بچوں اور والدین میں تبادلۂ خیال ہی نہ ہو تو پھر ’’اعتماد‘‘ کیسے قائم ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جب بچوں کو والدین کی توجہ نہ ملے تو پھر وہ خود بھی جذباتی اور نفسیاتی طور پر والدین سے دور ہونے لگتے ہیں۔ اب خود فیصلہ کریں کہ جب والدین نے ہی بچوں کو اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کا موقع نہ دیا ہو تو پھر جب یہی بچے کسی مسئلے سے دو چار ہوجائیں تو اسے بیان کرنے کے لیے والدین پر کیسے اعتبار کرلیں۔

چھوٹے بچے جب اسکول جانا شروع کرتے ہیں تو والدین سے ان کا سوال ہوتا ہے کہ ’’مما اور پاپا، جب آپ لوگ اسکول جاتے تھے تو کیسا لگتا تھا؟‘‘ اب یہ سوال کر کے بچہ چاہتا ہے کہ والدین اسے اپنے تجربے کے بارے میں آگاہ کریں۔ اگر والدین اس کے سوال کا جواب دے دیتے ہیں تو پھر وہ اور سوال کرتا ہے۔ سوالوں اور جوابوں کے اس عمل سے وہ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی کوشش اس میں غور و فکر کی عادت کا سبب بنتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی والدین سے پوچھے گا وہ اس سوال کا جواب تفصیل سے بتائیں گے۔ یہی اعتماد کی فضا بچے کو والدین پر بھروسہ کرنے اور ان سے تمام الجھنوں کو بیان کرنے کی ترغیب و حوصلہ دیتی ہے۔ اس کے برعکس بچے، ماں سے ایک سوال پوچھے اور ماں جواب دینے کے بجائے اس کام کو زیادہ اہم سمجھے جسے وہ کر رہی ہو اور بچے کی بات کا جواب دینا ان کے نزدیک وقت کا زیاں ہو اور ایسے میں وہ بچے کو باپ کے پاس بھیج دے اور دن بھر کا تھکا ہارا باپ بچے کی بات کا جواب دینے کے بجائے اپنے آرام کو زیادہ اہم سمجھ کر اسے ٹی وی دیکھنے یا کھیلنے کودنے کا مشورہ دے تو پھر بچہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ والدین کے لیے وہ غیر اہم ہے۔ جب یہ طریقہ کار اس کے ساتھ دو تین بار دہرایا جائے تو بچے اور والدین کے باہمی تعلق میں دراڑ آجاتی ہے اور اول تو وہ کسی قسم کا سوال کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا اور اگر اسے کوئی مسئلہ در پیش آبھی جائے تو وہ اسے والدین کو بتانے سے گریز کرتا ہے۔ اس طرح عموماً والدین پر اعتماد نہ کرنے والے بچے اس طرح کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جنہیں اگر وہ والدین کے علم میں لے آتے تو شاید ان کا حل نکل آتا، لیکن بچہ خاموش رہے اور والدین بھی اس کے مزاج سے آگاہ نہ ہوں تو جب مسئلے کی سنگینی کا انکشاف ہوتا ہے، تب تک پانی سر سے بہت ہی اوپر جاچکا ہوتا ہے۔

اگر آپ بھی چھوٹے چھوٹے اسکول جانے والے بچوں کے ماں باپ ہیں اور اپنے بچوں سے آپ کا رابطہ موثر نہیں ہے تو پہلی فرصت میں اپنے اس رویے کو تبدیل کریں، تاکہ آپ کا بچہ یا بچے کسی بھی قسم کے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔ اس سلسلے میں ذیل کے مفید مشورے یقینا آپ کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔

گفتگو

والدین اور کمسن اولاد کے درمیان موثر رابطے کے لیے والدین کو پہل کرنی چاہیے۔ بچوں سے ان کے اسکول سے متعلق بات کریں۔ ان کے ساتھیوں کے متعلق جاننے کے لیے سوالات کریں۔ اساتذہ کے رویوں کے متعلق ان کے محسوسات اور رائے پوچھیں۔ بچوں سے گفتگو میں پہل ضرور آپ کریں لیکن جب وہ بولنا شروع کرے تو ان کی بات پر پوری توجہ دیں اور ان کی بات کاٹنے کے بجائے بیچ بیچ میں زیرِ بحث موضوع کے بارے میں لقمہ بھی دیتے رہیں۔

فرصت کے لمحات

اکثر وجوہات کی بنا پر والدین اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے ہیں۔ یہ رویہ غلط ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کووقت دیں۔ اس دوران ان کے ساتھ کھیلیں کودیں، بچوں کو کہانیاں اور چھوٹے چھوٹے واقعات سنائیں۔ ہفتے میں ایک بار انہیں گھر سے باہر گھمانے پھرانے کے لیے لے جائیں۔ اس طرح بچے اور والدین کے درمیان باہمی تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ ایسے بچے جنہیں والدین پر اعتماد ہو، اپنے لیے ذہنی الجھن کا سبب بنے والے ہر مسئلے کو ان کے سامنے کھول کر بیان کر دیتے ہیں، اور پھر والدین جیسا مشورہ دیتے ہیں، اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔

توجہ

بچے والدین کی توجہ چاہتے ہیں لیکن ایک گھر میں ایک سے زائد کمسن بچے ہوں تو والدین کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ بچے اس سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان پر زیادہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اس طرح بعض بچے خود اپنے ہی بہن بھائیوں سے حسد اور جذبہ رقابت رکھنے لگتے ہیں۔ اس لیے ایک سے زائد بچے ہوں تو سب کو یکساں توجہ دیں اور کوشش کریں کہ دوسرا بچہ یہ نہ سمجھنے لگے کہ اسے کم توجہ دی جا رہی ہے۔ اگر آپ اپنے ایک سے زائد بچوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں کہ سب سے آپ کا رویہ یکساں ہے تو پھر یقین کریں کہ بڑے ہونے کے بعد بھی آپ کے بچوں میں جذبہ رقابت پیدا نہیں ہوسکے گا۔

نظر انداز نہ کریں

اگر آپ کو کبھی بچے کے معمول کے رویے میں تبدیلی محسوس ہو تو اس بات کو معمولی جان کر نظر انداز نہ کریں۔ یہ بات جاننے کی کوشش کریں کہ بچہ کیوں پریشان ہے؟ یہ بات جاننے کے لیے بچے کو اپنے پاس بلائیں۔ اس سے باتیں کریں اور پھر باتوں باتوں میں یہ کوشش کریں کہ بچہ خود کو در پیش مسائل آپ سے شیئر کرلے۔

جب بچہ اپنا مسئلہ آپ سے بیان کرنے لگے تو اس وقت آپ کو چند باتیں ذہن نشین رکھنا ہوں گی۔

٭ بچے کی بات پر پورا دھیان دیں۔

٭ گفتگو کے دوران چہرے پر سخت گیری کے تاثرات لانے سے گریز کریں۔

٭ دورانِ گفتگو اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے رہیں تاکہ اسے یہ احساس ہو کہ اگر وہ آپ سے ایسی کوئی بات بیان کرنے والا ہے، جس پر اسے سزا مل سکتی ہے تو اس مشفقانہ رویے سے بچے کے دل کا خوف دور ہو جائے گا۔

٭ بچے کی پوری بات سن کر اپنے لفظوں میں اس کے سامنے خلاصہ بیان کریں اور پھر پوچھیں کہ یہی وہ بات ہے، جسے وہ بیان کر رہا تھا، اثبات میں جواب ہو تو اسے حوصلہ دیں کہ نہیں یہ کوئی بات نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اگر جواب منفی میں ہو تو پوچھیں کہ ایسی کون سی بات ہے جسے وہ بتانے اور آپ سمجھنے سے رہ گئے ہیں۔

٭ بچے کا مسئلہ اگر عمومی نوعیت کا ہو تو اسے حل کرنے کی فوری کوشش کریں، لیکن مسئلہ اگر تعلیمی ادارے مثلاً اسکول کے کسی ساتھی کے چھیڑ چھاڑ کرنے سے متعلق ہو تو پھر اساتذہ اور اسکول انتظامیہ سے مل کر اسے حل کرنے کے اقدامات کریں۔

بچے، اعتماد اور والدین وہ تکون ہوتی ہے جس میں اگر درست رابطہ رہے تو اس سے آنے والی نسل کو کامیابی کے راستے پر چلنے اور منزل تک پہنچنے میں کافی آسانی رہتی ہے، لیکن اگر اس میں خلیج حائل ہونے لگے تو پھر یوں سمجھیں کہ بچے کا مستقبل بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لیے اپنے بچے پر بھرپور توجہ دیں اور کوشش کریں کہ اس کے اور آپ یعنی ماں باپ کے درمیان اعتماد کا پل ڈھنے نہ پائے اور رابطوں میں فاصلوں کی خلیج کو حائل ہونے کا موقع نہ ملے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں