اس منزل میں ایک مرحلہ یہ بھی ہے جب اپنے بچوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان کی ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے اور ان کی پرورش اور تربیت کے لیے سو سو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کون ایسا ہے جو یہ نہ چاہے گا کہ اس کے بچے نیک سیرت و کردار کے ساتھ پروان چڑھیں؟ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ کی طرف سے بچے کے لیے بہترین ہدیہ اچھا اخلاق ہی ہے۔ بلکہ صرف اتناہی نہیں آپ کی اپنی آئندہ زندگی کے لیے بھی فلاح اسی میں ہے کہ آپ ان کی زندگی کی تعمیر بہتر طریقے پر کریں۔ زندگی کی تعمیر کے لیے متوازن شخصیت اور پختہ کردار کی ضرورت ہے اور یہ دونوں چیزیں آپ کو حیرت ہوگی کہ زندگی کے ابتدائی پانچ سالوں میں تیار ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعدان میں کوئی اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہوسکتی، زیادہ سے زیادہ یہ کہ کوئی معمولی تبدیلی کرلی جائے مگر اس تبدیلی کو لانے کے لیے بڑی کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔ ساتھ ہی یہ خطرہ بھی رہے گا کہ کسی نہ کسی معمولی لغزش سے دبی دبائی خرابی ابھر کر پھر اوپر آجائے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ کے بچے کی پیدائش سے ہی اس کی اس طرح نگہداشت کریں کہ وہ آپ کی تمناؤں کو بار آور کرسکے۔ اگر اس کی تفصیل میں جائیں تو پوری کتاب چاہیے۔ اس کے لیے مختصراً جو بہت اہم پہلو ہیں ان کی طرف اشارہ کردینا کافی ہوگا۔ باقی آپ کی تلاش و جستجو پر چھوڑتا ہوں۔
بچے کی پرورش کے سلسلے میں سب سے پہلے جس بات کا خیال رکھنا ہے وہ ہے آپ کی نگرانی۔
آپ خود محسوس کریں گی کہ مشکوک نظر آپ اپنے لیے بھی پسند نہ کریں گی بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر آپ کسی کی طرف سے شک کرنا شروع کردیں، اس کی طرف سے انجانی بدگمانی میں مبتلا رہیں تو اس شخص میں خواہ کوئی اور خرابی پیدا ہو یا نہ ہو، یہ خرابی تو ضرور پیدا ہوجائے گی کہ وہ آپ سے نفرت کرنے لگے گا۔ میرے سامنے ایک ایسے صدر مدرس کی مثال ہے جنھوں نے اپنے ماتحت مدرسوں کو ہر موقع پر شک ہی کی نگاہ سے دیکھا۔ چنانچہ ان صدر مدرس کے خلاف میں نے ایسے مدرسوں کو بھی نفرت کے کلمات ادا کرتے ہوئے سنا، جن پر انھیں پورا اعتماد تھا اور جن کو وہ اپنا آدمی سمجھتے تھے۔ اس مثال سے میں جس طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ پہلے ہی سے موہوم خطروں کی طرف سے چوکنی نہ ہوجائیں اور پھر خطرے بھی کون سے؟ جن کا پیش آنا یقینی نہ ہو۔ آپ کا رویہ تربیت میں ہمیشہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ کی منزل ایک منزل ہے اور آپ کو اس کی طرف بڑھنا ہے۔ اس لیے آپ مثبت قدم ہی اٹھائیں۔ آپ ’’نہیں‘‘، ’’مت‘‘ اور ’’ہاں‘‘ سے خوفزدہ کرنے کے بجائے اسے کام کرنے کے لیے ابھاریں، جن سے بچے کی ہمت بندھے۔ اس کے اندر شوق اور جذبہ پیدا ہو اس سلسلے میں اس بات کا بھی خیال رکھیںکہ جب بچہ کوئی کام اپنے شوق سے کررہا ہو تو اسے ٹوکنے کے بجائے اس کی مشغولیت میں دلچسپی لینے کی کوشش کریں، خواہ وہ کام آپ کی نگاہ میں فضول ہو، حقیر ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً بہت سی مائیں بچوں کو مٹی سے کھیلنے نہیں دیتیں۔ یہ احتیاط مناسب نہیں ہوتی اگر بچے کو صفائی کی ہدایت بھی کردی جائے اور مٹی کے سلسلے میں بھی اس کی نگرانی رکھی جائے۔
بچہ اپنی زندگی کے طور طریقے عموماً تین ذریعہ سے سیکھتا ہے، خود تجربہ کرکے، نقل کرکے اور آپ کے مشوروں سے متاثر ہوکر۔ اگر ان مراحل پر آپ مستعد رہیں تو اسے قابلِ رشک انسان بننے میں کوئی خاص دقت پیش نہیں آئے گی۔ یہاں میںان تینوں ذرائع پر معمولی سا اشارہ کرکے یہ گتھی سلجھا دینا چاہتا ہوں کہ آخر سب کچھ اس طرح کیسے سیکھا جاتا ہے۔
بچے کو آپ عام طور سے توڑ پھوڑ کرتے دیکھتی ہیں، چیزیں منہ میں رکھتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ یہ سارا عمل بیکار نہیں ہے۔ توڑ پھوڑ کے ذریعے وہ چیزوں کی اصلیت جاننا چاہتا ہے۔ منہ اس کا سب سے کارآمد ذریعہ ہے جس سے وہ چیزوں کو پرکھتا ہے۔ اب اگر اس مرحلے پر آپ اس پر زیادہ پابندی لگانے کی کوشش نہ کریں تو وہ بے خوفی کے ساتھ ہی نئی چیز کو آزمانے کی کوشش کرے گا ،لیکن اگر آپ ہر موقع پر اس سے چیزوں کو چھینتی ہیں اور محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گی تو اس میں جھجک اور شرمیلا پن پیدا ہوجائے گا۔ کسی بھی کام کو کرنے کے لیے پیش قدمی نہ کرسکے گا۔ یہ ٹھٹھرنے کی کیفیت اس کی نشوونما میں رکاوٹ پیدا کرے گی اور بہت سی چیزوں کو سیکھنے سے محروم رہ جائے گا۔ ضروری نہیں کہ بچہ اپنی ہر توڑپھوڑ اور تجربے میں کامیاب ہوجائے۔ اس کے لیے یہ عین ممکن ہے کہ وہ ناکامی کی صورت میں بددل ہوجائے۔ ایسے وقت آپ کی ہمت افزائی اور ایسے سہارے کی ضرورت ہے جو اسے اپنے تجربات کو جاری رکھنے پر اکسائے۔ اس طرح اس میں شگفتگی اور عالی ہمتی پیدا ہوگی،ورنہ جھجک اور شرمیلے پن کی وجہ سے وہ اپنے بہت سے ساتھیوں سے پیچھے رہ جائے گا۔
بچے کی معلومات اور ذہنی وسعت کا دوسرا ذریعہ نقل کرنا ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے وہ آپ کو ہر کام کرتے ہوئے بڑے غور سے دیکھتا ہے۔ آپ کیسے چلتی ہیں، کیسے اٹھتی بیٹھتی ہیں۔ کیسے باتیں کرتی ہیں اور بات کرتے وقت آپ کے چہرے پر کن جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بچہ آپ کو اپنا محافظ سمجھتا ہے آپ لوگ ہی اس کی نظر میں وہ ہستیاں ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہیں تو وہ آپ ہی کے انداز سیکھے گا۔ بچہ جس غیرمحسوس انداز میں ہماری نقل کرے اپنی شخصیت کے لیے بہت سی خصلتیں اختیار کرلیتا ہے۔ اس کا ہم اندازہ نہیں کرپاتے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ ابھی بچہ ہے۔ یہ کیا جانے لیکن وہ بچہ اپنے آپ کو ایسا محسوس نہیں کرتا، وہ تو ہر لحظہ اس کا خواہشمند رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح آپ جیسا ہوجائے اور جتنے برتری کے اوصاف آپ میں ہیں، وہ اس میں بھی پیدا ہوجائیں، تاکہ دوسروں کی نظر میں اس کا بھی آپ ہی جتنا اہم مرتبہ ہوجائے۔ اب اس سے آپ خود ہی اندازہ کیجیے کہ آپ کے اس نقطہ نظر میں زمین آسمان کا فرق ہوجاتا ہے۔ اس لیے جب ہم اس کو اپنی طرح عمل کرتے یا بات چیت کا اندازہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ اس نے وراثت کے طور پر اختیار کیا ہے۔ حالانکہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وراثت میں جو چیزیں حاصل کی جاتی ہیں، ان کی نوعیت جسمانی ہوتی ہے۔ مثلاً ناک نقشہ یا ذہانت اور صحت وغیرہ، عادات و اطوار تو بچہ ہم آپ کو دیکھ کر ہی اختیار کرتا ہے۔ اب اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کا بچہ پسندیدہ اور اعلیٰ افعال کی نقل کرے تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی خاطر اپنی زندگی میں تبدیلی کریں۔ آپ خود سوچ سکتی ہیں کہ آئینہ میں وہی عکس تو پڑے گا جو اصل کی کیفیت ہوگی۔ اس طرح کچھ بھی آپ کریں۔لیکن بچہ اس کو تو نمونہ کے طور اپنے سامنے رکھے گا۔ ہاں! اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ بچے کی نگاہ میں آپ سے زیادہ اہم ہستی کوئی اور نہیں۔ آپ کی جتنی معلومات رکھنے والا کوئی نہیں اور آپ کے مقابلے میں اس کی الجھن دور کرنے والا کوئی نہیں۔
——