بچے مار سے نہیں پڑھتے

غزالہ حبیب

’’یہ Aبنایا ہے تو نے، لائن سے نیچے کیسے گیا؟ اور B اس طرح بنتا ہے؟Cبھی گول نہیں بنایا بلکہ ٹیڑھا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے بچے کو زوردار تھپڑ مارے، ایسے کہ اس کی پانچوں انگلیاں بچے کے گال پر چھپ گئیں۔’’بتا کیا میں نے اس طرح بتایا تھا؟ کیوں؟ کس طرح بتایا تھا؟ دھیان نہیں دیتا پڑھائی میں؟ ابھی کھیلنے بٹھادو تو گھنٹوں کھیلتا رہے گا۔‘‘
بھلا پانچ سال کا بچہ مسلسل مار کھا کر کس طرح پڑھ سکتا ہے! وہ خوف زدہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ عبداللہ کے لیے وہ وقت انتہائی اذیت نازک ہوتا تھا جب باپ اسے پڑھنے کے لیے لے کر بیٹھتا تھا، اور ایسے میں گھر کے کسی فرد کی مجال نہیں تھی کہ بیچ میں بول سکے۔
آخر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اسے ڈانٹا ’’کیا جان سے ہی ماردوگے؟ اس طرح بچے پڑھتے ہیں کبھی؟ سوائے خوف کے اس کے دماغ میں کچھ بھی نہیں آرہا، اس وقت۔جب دماغ پر خوف و ہراس چھایا ہوگا تو پڑھائی یہ کیا خاک کرے گا؟ نرسری کا بچہ آہستہ آہستہ ہی سیکھے گا۔ ابھی یہ اتنا سا تو ہے ، اسے وقت تو دو۔‘‘
’’امی! میں نے آپ سے کتنی مرتبہ کہا ہے پڑھاتے میں درمیان میں نہ بولا کریں۔ اس کی ماں کیا کم تھی کہ آپ بھی آگئیں۔ میں جیسے چاہوں اسے پڑھاؤں۔ میں باپ ہوں اس کا دشمن نہیں ہوں۔‘‘
یہ روز کا معمول تھا۔ شاہد جب بھی عبداللہ کو پڑھانے بیٹھتا، میں اور راشدہ (بہو) سانس روکے رہتی تھیں کہ اسے اب مار پڑی کہ اب پڑی۔ شاہد کو میں نے لاکھ مرتبہ سمجھایاتھا کہ بچے مار سے نہیں پڑھتے، پتہ مارنا پڑتا ہے، غصے کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے، ہم نے بھی تیس سال پڑھایا ہے، لیکن کبھی تشدد سے نہیں بلکہ آرام سے، صبر سے پڑھایا۔ لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
پیر کو عبداللہ معمول کے مطابق اسکول گیا تھا۔ واپسی میں اس کی lesson dairyمیں ایک لیٹر دیا گیا جو اس کی ٹیچر کی طرف سے تھا۔ شام کو شاہد نے پڑھاتے ہوئے اس کی ڈائری کھولی تو وہ پرچہ نکلا۔ پرچے میں لکھا تھا۔ ’’آپ کا بچہ پڑھائی میں دھیان نہیں دیتا۔ گم صم بیٹھا رہتا ہے، کھیل میں بھی دلچسپی نہیں لیتا، لنچ نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کئی بار پیار سے بھی پوچھا ہے کہ بیٹا! بتاؤ تم کس سے خوف زدہ ہو؟ مگر یہ کچھ جواب ہی نہیں دیتا۔ آپ سے التماس ہے کہ پہلی فرصت میں اسکول آکر ان سوالوں کے جواب دیں ورنہ آپ کے بچے کی شخصیت تباہ ہوجائے گی۔‘‘ فقط کلاس ٹیچر۔ خط پڑھ کر شاہد کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ عبداللہ اس انتظار میں تھا کہ بابا کب پڑھانا شروع کرتے ہیں۔
’’اچھا تم یہ ہوم ورک کرو، جو سمجھ میں نہ آئے اپنی امی سے پوچھ لینا۔ میں کل تمہارے اسکول آؤں گا۔‘‘
عبداللہ کے چہرے پر اطمینان اور سکون تھا کہ اب امی پڑھائیں گی اور امی تو ہمیشہ پیار ہی سے پڑھاتی ہیں۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں