ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچہ کے مثالی ماں باپ بنیں۔ اس کی ہر ضرورت پوری کریں۔ اور اس کی زندگی کو زیادہ بہتر اور بامقصد بنائیں۔یہ سوال ہر ماں اور باپ کو درپیش رہتا ہے کہ اس سلسلہ میں کیا وہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقہ سے ادا کر رہے ہیں؟ کیابچہ کے تئیںان کا رویہ صحیح ہے؟ اور کیا ان کا بچہ ان سے خوش ہے؟ اس فکر مندی کے باوجود صحیح بات یہ ہے کہ اکثر والدین وہ صحیح نظر اور رویہ نہیں رکھتے جس کی بچہ کو ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ہر بچہ محبت، توجہ اور اہمیت چاہتا ہے ۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنا مقام اور اپنی مستقل حیثیت اور شناخت چاہتا ہے۔ اس کی حیثیت اور شناخت کا شعور ہمیں اسے صحیح طرح سے سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ اور گہرائی سے اسکے احساسات کے فہم کے لائق بناتا ہے۔ بچوں کی ضرورتیں ،ان کی خواہشیںاور انکے خوف، یہ تمام چیزیں ہم بھی جان سکتے ہیںاگر ہم انکے قدم سے قدم ملا کر چلیں۔ ایک بچہ میں بھی وہ تمام احساسات ہوتے ہیںجو ایک بالغ شخص میں ہوتے ہیں لیکن اس کے پاس تجربہ کی کمی ہوتی ہے ۔ بچہ احساسات تو رکھتا ہے لیکن ان کوبیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔اپنے جذبات کو الفاظ کی شکل وہ نہیںدے سکتا۔ اس لیئے یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنے بچہ کے جذبات کو سمجھیں اور ان جذبوں کو لفظوں میں پرونے میں اس کی مدد کریں۔
بچہ کیا چاہتا ہے؟ چند مشورے
ـاس کے اپنے لیے فرصت کا کچھ وقت
’’مجھے کچھ فرصت کے لمحات چاہیے۔ اسکول ہوم ورک، ٹیوشن، کراٹے کی کلاس، سیویمنگ یہ سب مجھے تھکا دیتے ہیں۔‘‘
کیا آپ کا بچہ غیر معمولی طور پرمصروف ہے۔ کیا اس کے پاس اس کے اپنے لیے فرصت کے کچھ لمحات ہیں؟ ماہرین نفسیات نے آج کل مصروف والدین کی زندگیوں میں ایک نئے رجحان کو نوٹ کیا ہے۔اپنے بچوں کو اپنے وقت کے سانچے میں ڈھالنے کا رجحان۔اپنے مصروف ترین اوقات کے سانچے میں ہم اپنے بچوں کو بھی ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ وہ تمام ذمہ داریاں سنبھالے جو اس کی پہنچ سے باہرہیں۔ مقاصد کے پیچھے بے تحاشہ بھاگتے بچہ کے پاس چند لمحات بھی نہیں ہوتے جن میں وہ اپنے تصورات اور صلاحیتوں کی دنیا میں کچھ وقت گذارسکے۔
بچے جب کھیلتے ہیں اور کھلی وادیوں اور میدانوں میں گھومتے ہیں ، تو ان کا دماغ کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں کو جاننے اور تخلیقیت و اپج کی نشو نما میں مصروف ہوتا ہے۔وہ ایک درخت کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ ایسا کیوں ہے؟ ایک جانور کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ہوم ورک اور کلاسوں کے بوجھ میں پھنسے آج کے بچے کے پاس یہ سب سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے ۔ جب کہ چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے فرصت کے لمحات بہت اہم ہوتے ہیں۔
بچپن صرف گذاردینے کے لیئے نہیں ہوتا ۔ یہ زندگی کا بہت اہم دور ہوتاہے۔ اور اسی دور میں شخصیت کی بنیادیں فراہم ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اپنے بچوں کے اوقات اور ان کی مصروفیات کا انتظام کرتے ہوئے ہمیں سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ فرصت کے لمحات انہیںمہیا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ ٹی وی کے سامنے گھنٹوں بیٹھ جائیں بلکہ انہیں چہل قدمی کے لیے لے جائیں یا ان کے ساتھ کچھ پڑھیںیا کھیلیں۔
کھیل کے اوقات اور تخلیقی کھیل
’’مجھے اپنے ابوکے ساتھ کھیلنا بہت پسند ہے۔ وہ مجھے سوئمنگ پر لیجاتے ہیں اورمیرے ساتھ فٹ بال بھی کھیلتے ہیں‘‘
چند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ کیا کھیلیں؟ بچوں کے ساتھ تو بچے ہی کھیل سکتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے اور بچہ کے درمیان موجود دیوار کو گرانا ہے یا اس رشتہ کو تقویت دینی ہے تو کھیل ایک بہت ہی اچھا ذریعہ ہے۔ ماہرین نفسیات کی یہی رائے ہے کہ بچوں کے ساتھ کھیلنا بہت ضروری ہے چاہے وہ کھیل پہاڑی سے پتھر چنناہی کیوں نہ ہو۔
اللہ کے رسول ﷺ حضرت حسن اور حضرت حسین کو اپنے کاندھوں پر بٹھاکر سواری کراتے تھے۔ بچوں کے ساتھ کھیلنے کے کئی واقعات ہمیں آپ کی سیرت میں ملتے ہیں۔
بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کے ارتقاکے لیے آپ کی مستقل حوصلہ افزائی اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچہ چاہے ۶ سال یا ۱۰ سال کا ہی کیوں نہ ہو وہ چاہتا ہے کہ آپ اسے قبول کریں ۔اسے مانیں اور وہ سیکھتا ہی اپنے آپ کو منوا کر ہے۔یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ہر انسان اپنے ہر عمل کو صحیح سمجھتا ہے، چاہے وہ ایک چھوٹی سی عمر کا بچہ ہی کیوںنہ ہو۔
اپنے بچوں سے محبت کیجئے ان کے ساتھ گذرے وقت کو غیرمفیدمت سمجھیے۔ بہت غور سے انکی باتیں سنیے اور ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ بچوںکے ساتھ کھیل کے اوقات کو روز مرہ کا معمول بنایئے۔ بچوں سے مواصلات Communication کے لیے یہ ایک بہت بڑا ہتھیارہے ۔ بچے رسمیً گفتگو کو پسند نہیں کرتے۔ کھیل کے دوران ہی آپ ان سے بہت کچھ ڈسکس کر سکتے ہیں۔ آپ یہ جان سکتے ہیںکہ آپ کی عدم موجودگی میں یااسکول کا وقت انہوںنے کیسے اور کس کے ساتھ گذارا؟کھیلتے کھیلتے بات چیت کے دوران آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے بچوں کے دوست احباب کیسے ہیں ؟ وہ ان سے اپنے تعلق کو کیسے نبھاتا ہے؟ اگر بچپن سے ہی آپ ڈسکشن اور کمیونی کیشن Communication کی عادت ڈالیں گے،چاہے آج یہ گفتگو آپ کے لیے غیر اہم ہی کیوںنہ ہو، تو آئندہ اپنی زندگی کے اہم موقعوں پر بھی وہ ساری باتوں کا بغیر کسی ہچکچا ہٹ کے آپ کے سامنے اظہار کرے گا۔اور آپ کے اور اس کے درمیان وہ گیپ نہیں رہے گا جس کی شکایت اکثر نو عمر Teenagers اور نوجوان بچوں کے والدین کرتے ہیں۔
مہر بانی کر کے مجھے سنیے۔
’’میرے بابا مجھے ہر رات چہل قدمی پر لے جاتے ہیں اور گذرے ہوئے دن کی مصروفیت پوچھتے ہیں‘‘
بہت سے ماں باپ کو یہ کہتے تو سنا ہے کہ ہم اپنے بچوں سے باتیں کرنے کی بہت کچھ کوشش کرتے ہیں مگر وہ اپنی دن بھر کی مصروفیت ہم سے شیئر نہیں کرتے۔ لیکن آپ سبزی بنا رہی ہوں، یا کپڑے تہہ کر رہی ہوں یا آپ کمپیوٹر کے سامنے اسکرین پر نظریں جمائی بیٹھی ہوں تو کیا بچہ کچھ بول پائے گا؟ اسے آپ کی توجہ چاہیے۔ آپ سے نظر کا رابطہ (Eye contact) چاہیے۔ ہر بچہ اپنے ماں باپ سے بھر پور وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ بٹی ہوئی توجہ وہ قبول نہیں کرے گا۔
ماہرین نفسیات مشورہ دیتے ہیں کہ بچہ کی بات پوری توجہ سے سنی جانی چاہیئے۔اس پر ظاہر کیجیے کہ آپ سن رہی ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہیں۔ جب وہ دیکھے گاکہ آپ کی بھرپور توجہ اسے حاصل ہے تو وہ آپ پر بھروسہ کریگا اور اپنی زندگی کی کوئی بات کہنے سے نہیںہچکیچائے گا۔
اس دوران ماں باپ اپنے بچوں کا گہرائی سے مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔ بھر پور توجہ سے انہیں سنیے۔ ان کو درپیش مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ کا بچہ جس کی عمر صرف ۷ سال ہے، اس کی اور آپ کی سوچ میں فرق فطری ہے۔ بعض باتیں جو آپ کے نزدیک بالکل غیر اہم ہیں اس کے لئے اہمیت کی حامل ہو سکتی ہیں۔ایسی صورت میںاس پر ظاہر نہ ہونے دیںکہ اس کی بات کو آپ اہم نہیں سمجھ رہی ہیں۔اس کی باتوں کو اہمیت دیں۔ کچھ ماں باپ ایسا بھی کرتے ہیں کہ بچہ اپنی بات کی ابتداء ہی کرتا ہے اور انہیں کہیں کچھ غلط لگتا ہے تو ٹوک دیتے ہیں ، آگے کیا ہوا وہ بالکل نہیںبتائیگا۔ ایسا ہر گز نہ کریں ۔بہت توجہ اور صبر سے اس کی پوری بات سنیں ۔پھر اسے مشورہ دیں۔
ایک بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ اپنے بچہ کو بھر پور توجہ سے سنیں وہ آپ کو بتائیگا کے اسے کیسے پروان چڑھانا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ آپ کی بات سنے تو آپ کو پہلے اس کی بات سننا ہوگا۔بچوں کو کبھی لیکچر نہ دین۔ انہیں اچھے اور برے دونوں پہلووں سے آگاہ کردیں۔اور فیصلہ انہیں کرنے دیں۔لکچر نہ دیں بلکہ انہیں اچھے برے دونوں پہلوں سے آگاہ کریں اور انہیں فیصلہ کرنے کا موقع دیں۔اپنی توجہ اور محبت سے ان کے رویوں کو درست کریں۔
والدین کے تنازعات
’’جب کبھی ممی اور پاپا آپس میں لڑتے ہیں تو میں سہم جاتی ہوں رونا چاہتی ہوں لیکن رو نہیں پاتی۔‘‘
ایک بہت مشہور بات ہے ’’ اگر آپ کسی کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کر سکتے تو کچھ بھی کہنے سے گریز کیجیے‘‘ ماں باپ کا اپنے بچوں کے سامنے لڑنا جھگڑنا بچوں کے لیے بہت ہی نقصاندہ ہوتا ہے یہ ان کے لیے زہر ہے۔ ان کی شخصیت کو توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ ایک سائیکا ٹرسٹ کے مطابق بچوں کے سامنے لڑائی ’ایک خاموش وبا ہے‘‘۔
کچھ والدین بچوں کا سہارا لے کر بھی لڑتے ہیں اور یہ چیز بچوں کے احساسات کو مجروح کردیتی ہے۔ وہ اداسی سے سوچتے ہیں کہ اس جھگڑے کی اصل جڑ وہ ہیں اور یہ چیز انکی شخصیت کی قاتل ہوتی ہے۔
معمولی لڑائی جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن روز روز کے لڑائی جھگڑے بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے بالکل بھی نہ لڑیں خاموشی اختیار کریں بچوں کا خمیر ہی محبت سے بنا ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان سے محبت کریں اور آپس میں بھی کریں۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ بچوں کے سامنے نہ لڑیں۔ یا ایسا ہو بھی جائے تو انکے سامنے ہی اس جھگڑے کو ختم کرنا ضروری ہے۔
محبت کا اظہار بھی کریں
کیا ہی اچھا ہوممی پاپا ہر دن مجھ سے کہیں کہ ہم تم سے بہت محبت کرتے ہیں ‘‘
سبھی والدین اپنے بچوںسے محبت کرتے ہیں ۔ لیکن چند بچے جان ہی نہیں پاتے کہ ان کی والد یا والدہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اگر آپ بچہ سے محبت کرتے ہیں تو اسے محسوس بھی ہونے دیں۔
ایک اور ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ آپ اپنے بچے سے جتنی محبت کرتے ہیں اس کا اظہار بھی کریں اور ہر دن ایک مرتبہ اس کے اظہارکا موقع نکالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس سے بھی ہم کو محبت ہو اس کا اظہار کریں۔ ’’ اگر تم اپنے بھائی سے محبت کرتے ہو تو تمہیں چاہییے کہ اس کو یہ بتادو کہ تمہیں اس سے محبت ہے۔ ‘‘ (ابو داود) بچے تو اس اظہار کے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ ایک نوزائید بچہ اپنی نئی نئی دنیا کو لمس، نظر، آواز اور خوشبو سے ہی سمجھ پاتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ اپنے والدین کے لمس سے ہی ان سے اپنا رشتہ سمجھتا ہے ۔ اس بچہ کے لیے آپ کے چہرے کے جذبات اور آپ کی آواز بہت اہم بن جاتی ہے۔اگر اس بچہ کے کام کرتے ہوئے اس کی ماں اور دیگر رشتہ دار ہمیشہ پریشان رہیں، غصہ اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کریں، یا اس کے ساتھ پھوہڑپن سے پیش آئیںتو بچہ جان لے گا کہ لوگوں کے ساتھ رہنا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہے۔باہمی اعتماد کا جذبہ پرواان نہیں چڑھے گا اور دیگر لوگوں سے تعلق قائم کرتے ہوئے اس بچہ کو ہمیشہ دشواری پیش آئے گی۔چنانچہ محبت اور خلوص کے اظہار کی بڑی اہمیت ہے۔ ننھے منے بچوں کو پیار کرنا، گلے سے لگانا اور ان سے کہنا کہ میں آپ پر فخر کرتا ہوں/ کرتی ہوں، ان کی شخصیت کو بااعتماد اور پر امید بنانے اور مثبت طرز فکر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بار بار تعریف کیجیے ، لیکن ایمانداری کے ساتھ اور بغیر کسی تصنع کے۔ بچے جان جاتے ہیں کہ آپ کی بات آیا آپ کی دل کی بات ہے یا محض تصنع۔
ہمیں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع دیجیے
’’جب میں کہوں کہ میں بس کنڈیکٹر بننا چاہتا ہوں تو ہنسیے مت‘‘
ہمیں اپنے بچوں کی پسند اور ان کے خوابوں کے لیے بہت حساس ہونا چاہیے۔ بچے اپنی زندگی کی سلطنت میںاپنی حکمرانی چاہتے ہیں۔ و ہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی فیصلہ کرنے کا موقع ملے ۔اگر کچھ احتیاط سے انہیں یہ موقع دیا جائے تو وہ انہیں طمانیت اور تحفظ کا احساس ہوگا۔ اور وہ سمجھیں گے کہ ان کے والدین ان کی صحیح فکر کرتے ہیں ۔ نوعمر بچوںrs teenageکے والدین کو اپنے بچوں کی سمت درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن یہ کوشش اس طرح ہونی چاہیے کہ بچہ کو ہر فیصلہ اپنا فیصلہ محسوس ہو۔ اسے زور زبردستی کا احساس نہ ہو۔ والدین ایک حد میں رہتے ہوئے ان کی نگہداشت کریں ورنہ بچے انہیں اہمیت اور عزت دینا چھوڑدیں گے۔ وہ بات جسے ہم بچہ کے لئے بہتر سمجھتے ہیں ، اس کے بہتر نہ ہونت کاامکان بھی موجود ہے۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔ اس لئے بچہ کو فیصلہ کی آزادی دیجیے اور یہ بھی بتائیے کہ ہر آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی وابستہ ہوتی ہے۔
ایک بچہ کی زبان میں اس کے اہم مطالبات کا خلاصہ ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔
(۱) مجھے اپنے مثبت طرز عمل اور اپنی مثال سے سیکھائیے کہ میں خود سے محبت کیسے کر سکتا ہوں؟ اور توجہ اور اعتماد کا مطلب کیا ہے؟
(۲) میری موجودگی کو محسوس کیجئے۔ میرے وجود سے خوشی اور فرحت حاصل کیجئے تاکہ میں اس احساس اور اعتمادکے ساتھ بلوغ کی دہلیز پر قدم رکھوں کہ میںبھی اہم ہوں ۔اور میں دوسروں کے اندر بھی خودی کے اس احساس کو جگا سکوں۔
(۳) کشادہ اور محبت سے لبریز قلب رکھیے۔ پوری توجہ سے مجھے سنیے ۔تاکہ میں جانوں کہ مجھے دیکھا اور سنا جارہا ہے۔ اور میں خود بھی بعد میں ایک اچھا سننے والا Good Listener بن سکوں۔
(۴) میری اچھی باتوں کو بار بار سند قبولیت دیتے رہیے۔اور مجھے بتاتے رہییے کہ میری کو نسی باتیں آپ کو پسند آرہی ہیں۔مجھے معلوم ہوگا کہ میں بھی کسی لائق ہوں اور مجھے بھی دوسروں کی اچھی باتوں کی ستائش کا سلیقہ آئے گا۔
(۵) ہنسئے اور مجھ کو بھی ہنسائیے ۔زندہ دلی کا مظاہرہ کیجیے۔ تاکہ میں اپنی زندگی کو پر لطف بناسکوں اور دوسروں کی زندگیوں میں بھی مسرتوں اور خوشیوں کا ذریعہ بن سکوں۔
(۶) مجھ میں نظم وضبط پیدا کیجیے اور میری غلطیوں کو خلوص اور پیار کے ساتھ سدھارئیے، تاکہ میں ایک اچھی زندگی خود داری اور اعتماد کے ساتھ گذار سکوں۔
(۷) مجھے غلطیاں کرنے اور خود اپنی رائے قائم کرنے کے مو قعے دیجیے۔تاکہ میں آزادانہ فیصلے کرنے اور ان فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے لائق بن سکوں۔
(۸) اپنی زندگی کو بھرپور طریقہ سے گذارئیے۔ حوصلے بلند رکھیے اورجوش و ولولہ کے ساتھ اپنی امنگوں اور خوابوں کی تعمیل کیجیے تاکہ میں بھی آپ کے ولولوں جوش اور توانائی کا کچھ حصہ حاصل کروں اور بھرپور زندگی گذارنے کا حوصلہ پائوں۔
(۹) ایماندار بنے رہیے۔ زندگی کی اعلی قدروں کو پورے کمال کے ساتھ اپنی زندگی میں برتیے۔ میں آپ کے تجربہ سے سیکھوں گا۔اور بااصول زندگی گذاروں گا۔
(۱۰) مجھے دوسروں کی خدمت کے لائق بنائیے اور انسانوں میں موجود فرق کا احترام کرنا سیکھائیے۔میں کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی کی قدروں کے ساتھ انسانی زندگی کی رنگا رنگی کو قبول کر سکوں گا۔
(۱۱)مثبت اور اچھی باتوں اور زندگی کے اچھے واقعات پر توجہ مرکوز کیجیے۔ مشکل اوقات میں بھی اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہویئے۔ تاکہ ہر نئے دن کو میں مواقع کی ایک نئی دنیاکے طور پر دیکھ سکوںاور مثبت طرز فکر کو پروان چڑھا سکوں ۔
(۱۲) میری معصوم زندگی کے تمام اتار چڑھائو کے دوران، مجھ سے غیر مشروط محبت کیجئے ۔ میں اس محبت کو ساری انسانیت میں لٹائوں گا۔
——